ننھے کندھوں پر بھاری بستے/حسنین نثار

پاکستان میں تعلیم کو ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے، مگر جب یہ فریضہ چھوٹے بچوں پر بوجھ بن جائے تو یہ سوال اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے نام پر ان سے ان کا بچپن تو نہیں چھین رہے۔ آج کے دور میں والدین، اساتذہ اور تعلیمی ادارے سب مل کر بچوں پر کامیابی، مقابلہ اور نمبروں کی دوڑ میں کچھ اس طرح کا دباؤ ڈال رہے ہیں کہ بچپن کا سکون کہیں کھو سا گیا ہے۔ چار یا پانچ سال کی عمر میں بچے اسکول، ہوم ورک، ٹیسٹ اور ٹیوشن کے چکر میں ایسے الجھ جاتے ہیں جیسے وہ کسی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں۔

بچوں کی زندگی میں کھیل، نیند، کہانیاں سننا، قدرت کے ساتھ وقت گزارنا، یہ سب وہ عناصر ہیں جو ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے لازمی ہوتے ہیں، مگر یہ سب آج کے تعلیمی نظام میں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ والدین کی خواہش کہ ان کا بچہ ہر مضمون میں اول آئے، معاشرے کی دوڑ کہ کون سا بچہ کس اسکول میں ہے، اور اداروں کی پالیسی کہ ہر ہفتے ٹیسٹ اور ہر ماہ اسیسمنٹ ہو، ان سب نے مل کر تعلیم کو ایک دباؤ میں بدل دیا ہے۔ بچے جو کبھی اسکول جانے کے لیے خوشی سے تیار ہوتے تھے، اب صبح اٹھنے سے پہلے ہی پریشانی اور تھکن کا شکار نظر آتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ تعلیمی بوجھ صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی دباؤ میں بھی بدل چکا ہے۔ کم عمری میں ذہنی تناؤ، خوداعتمادی میں کمی، نیند کی کمی، اور یہاں تک کہ ڈپریشن جیسے مسائل بھی بچوں میں دیکھنے کو ملنے لگے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم تعلیم کو صرف نمبرات اور گریڈز تک محدود کر چکے ہیں، اور اصل سیکھنے کا عمل کہیں کھو گیا ہے۔ بچے جب سوالات کرنے سے ڈرتے ہیں، جب وہ صرف رٹے لگانے پر مجبور ہوتے ہیں، جب ان کے ہاتھ میں کتاب ہو لیکن دل میں خوف ہو، تو یہ تعلیم نہیں، اذیت بن جاتی ہے۔

والدین اور اساتذہ دونوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ تعلیم صرف کتابیں یاد کروانے کا نام نہیں، بلکہ ایک شخصیت کو سنوارنے کا عمل ہے۔ ہر بچہ ایک جیسے انداز میں نہیں سیکھتا، اور ہر بچے کی دلچسپی اور صلاحیت الگ ہوتی ہے۔ مگر جب سب بچوں کو ایک ہی معیار پر تولنے کی کوشش کی جائے، تو کئی ہنر مند اور ذہین بچے بھی اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، یا پھر خود کو ناکام سمجھنے لگتے ہیں۔

اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے نصاب کو عمر کے لحاظ سے موزوں بنائیں۔ چار سالہ بچے سے وہ توقعات نہ رکھی جائیں جو کبھی آٹھ سال کے بچے سے بھی نہیں رکھی جاتیں۔ سیکھنے کے عمل کو خوشگوار اور دلچسپ بنایا جائے، جس میں کھیل، تجربات، کہانیاں، تصویریں، اور تعامل ہو۔ ایک ایسا ماحول ہو جہاں بچے خوشی سے سیکھیں، نہ کہ خوف سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ہم کیسی نسل تیار کر رہے ہیں۔ کیا ہم ایسے بچے چاہ رہے ہیں جو صرف اچھے گریڈز لائیں، یا ایسے انسان جو معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں؟ اگر ہمیں دوسرا مقصد درکار ہے، تو ہمیں اپنے بچوں پر تعلیمی بوجھ کم کرنا ہو گا، اور ان کے بچپن کو وہ خوشیاں لوٹانی ہوں گی جن کا وہ حق رکھتے ہیں۔ تعلیم کو بوجھ نہیں، خوشی کا ذریعہ بنانا ہو گا۔ تب ہی ہم ایک بہتر اور متوازن نسل کی بنیاد رکھ سکیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply