دفتر کی کھڑکی سے دھوپ اندر چپکے سے قدم رکھ رہی تھی۔ وقت مارچ کے اختتام کا تھا اور عدالتوں میں پیشیوں کا شور تھما تھما سا لگتا تھا۔ میرے میز پر کئی فائلیں تھیں مگر ایک فائل جیسے کسی نے اسے باقیوں سے الگ رکھا ہو۔ سرخی جلی حروف میں درج تھی:
“کسٹڈی کیس – بچوں کی حوالگی”۔
میں نے کرسی پر ذرا سیدھا ہو کر بیٹھنے کی کوشش کی، جیسے جسمانی زاویہ بدلنے سے بوجھ ہلکا ہو جائے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
اس کیس کی ابتدا کچھ یوں ہوئی کہ ایک خاتون رخسانہ بی بی(نام فرضی ہے مگر کیس حقیقی) اپنے ایک عزیز کے ہمراہ میرے آفس آئیں۔ بارہ برس پرانی بات ہے مگر ان کے چہرے کا درد آج بھی یاد ہے۔ وہ بول رہی تھیں اور میں سن رہا تھا لیکن اصل بات ان کی آواز سے نہیں، ان کی آنکھوں سے سمجھ آ رہی تھی۔
“میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا۔ طلاق تو نہیں دی، بس بچوں سمیت الگ ہو گئے۔ بیٹا اس کے پاس ہے، بیٹی میرے ساتھ۔ میں چاہتی ہوں دونوں بچے میرے پاس ہوں۔ ماں ہوں، دل کے ٹکڑے الگ الگ دیکھ کر جینا کسی عذاب سے کم نہیں۔”
میں نے سر ہلایا جیسے تسلی دی ہو مگر جانتا تھا کہ ایسے کیسز میں دل سے زیادہ قانون بولا کرتا ہے اور قانون کے کوئی جذبات نہیں ہوتے وہ واقعات کو دیکھتا ہے۔
پہلی پیشی پر وہ شخص عدالت میں آیا۔ نام تھا خلیل احمد(یہاں نام فرضی ہے) ۔ بارعب، خاموش، مگر ٹوٹا ہوا۔ رخسانہ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں عجب سا کرب ابھرا جیسے کوئی کہانی دوبارہ شروع ہو گئی ہو۔
“میں اپنی بیٹی کو نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ میرے ساتھ خوش ہے۔ رخسانہ اچھی ماں ہو سکتی ہے مگر بیٹی باپ سے الگ نہیں رہ سکتی۔”
جج صاحب نے سر جھکا کر فائل دیکھی۔ عدالت نے عبوری حکم جاری کیا:
“دونوں بچوں کی موجودہ حالت برقرار رہے اور ہفتہ وار ملاقات کا بندوبست ہو۔”
یہ وہ لمحہ تھا جب ایک طویل سلسلہ شروع ہوا: پیشیاں، دلائل، گواہیاں، اور سب سے بڑھ کر، جذبات۔
کبھی رخسانہ رو رو کر کہتی، “وہ بچہ راتوں کو جاگ کر ماں کو پکار رہا ہوگا!”
اور کبھی خلیل خاموش لہجے میں بولتا، “بیٹی میرے کندھے پر سر رکھ کر سوتی ہے، اسے کیا بتاؤں کہ عدالت فیصلہ سنائے گی؟”
عدالت جذباتی بیانات سے بھری ہوئی تھی۔ بعض دن ایسے آئے کہ کمرہ عدالت میں خاموشی چیخوں سے بھی بلند ہو گئی۔ ایک دن جج صاحب نے بچوں کو بلا لیا۔
بیٹا چودہ برس کا، دبلا پتلا، سنجیدہ چہرہ۔ جیسے وقت نے بچپن چھین کر بلوغت تھما دی ہو۔
“بیٹا، بتاؤ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہو؟”
اس نے نظریں نیچی کیں، گہری سانس لی اور کہا: “امی کے ساتھ۔”
ماں کی سسکیوں میں شکر کا عنصر تھا اور باپ کا چہرہ پتھر ہو گیا۔
پھر بیٹی آئی۔ وہ بارہ برس کی تھی مگر اس کی آنکھوں میں وہ ادھورا پن تھا جو صرف طلاق شدہ گھروں کے بچوں کی پہچان ہوتا ہے۔
“میں ابو کے ساتھ رہوں گی۔”
ماں کا چہرہ سفید ہو گیا جیسے کاغذ۔ لیکن وہ کچھ بولی نہیں۔ خلیل کی آنکھوں میں نمی چمکی جسے وہ چھپانے میں ناکام رہا۔
بالآخر عدالت نے فیصلہ سنایا — ایک بچہ ماں کو، دوسرا باپ کو۔
ایک گھر میں صبح کا اجالا جبکہ دوسرے میں شام کی تنہائی۔
قانون نے مساوات کر دی،مگر محبت کے ترازو میں کچھ کمی رہ گئی۔
مہینے گزرے پھر سال۔ کئی بار بچوں کے بیانات بدلے، کبھی حالات نے کروٹ لی، کبھی ملاقاتیں شوق سے ہوئیں، کبھی محض ایک رسمی فریضہ بن کر رہ گئیں۔
اس مقدمے کے دوران میں نے سیکھا کہ بعض اوقات عدالتی فائلوں سے زیادہ اہم ان کے بیچ رکھے گئے جذبات ہوتے ہیں۔ ایک دن بیٹی نے ماں سے کہا: “امی، ابو مجھے روٹی پکانا سکھا رہے ہیں، جیسے آپ نے مجھے گڑ والا پراٹھا بنانا سکھایا تھا۔”
اور بیٹے نے باپ سے کہا: “ابو، امی کی گود میں نیند آتی ہے۔”
یہ بظاہر ہلکے جملے تھے مگر حقیقتاً گُرز سے زیادہ وزنی تھے۔
پھر وقت گزر گیا۔ کیس ختم ہوا۔ بچے جوان ہو گئے۔
اب سے کوئی دو سال قبل ایک دن میرے کلرک نے آ کر بتایا کہ ایک لڑکی اور لڑکا آپ سے ملنے آئے ہیں۔ دو نوجوان میرے دفتر میں داخل ہوئے۔ میں پہچان نہ پایا مگر ان کی مسکراہٹ میں وہی درد تھا جو برسوں قبل عدالت میں بولا گیا تھا۔
“سر، ہم وہی بچے ہیں، ماں اور باپ کے بیچ بٹے ہوئے۔”
میں نے چونک کر دیکھا۔
“ہم اب ساتھ رہتے ہیں۔ ابو کے پاس بھی جاتے ہیں، امی کے ساتھ بھی وقت گزارتے ہیں۔ ہم نے سیکھا ہے کہ بانٹنے سے محبت کم نہیں ہوتی، بعض اوقات مضبوط ہو جاتی ہے۔”
گزشتہ دنوں سابقہ ریکارڈ چیک کر رہا تھا کہ انکی فائل اٹھائی سے گرد جھاڑتے ہوئے سارے واقعات میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے میرے اندر کہیں سے آواز آئی:
یہ مقدمہ آج ختم ہو گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں