سرکاری ہسپتالوں کا جنازہ /حسنین نثار

پنجاب میں ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ بظاہر ایک انتظامی اور اصلاحاتی قدم دکھائی دیتا ہے، لیکن اگر اس کے دور رس نتائج پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ اقدام عوام کے لیے نہایت تکلیف دہ اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ صحت کے شعبے کو مکمل طور پر منافع کی منطق کے تحت چلانا ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے نتیجے میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ حکومت کی یہ دلیل کہ نجی ادارے انتظامی لحاظ سے بہتر اور مؤثر ثابت ہوں گے، اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صحت جیسے بنیادی انسانی حق کو ایک کاروبار کے طور پر چلانا اخلاقی، قانونی اور سماجی طور پر درست ہے؟

سرکاری ہسپتال ایک ایسا ادارہ ہے جہاں غریب آدمی آخری امید لے کر آتا ہے۔ جب ان اداروں کو نجی شعبے کے سپرد کیا جائے گا تو وہ امید بھی دم توڑ جائے گی۔ نجی ادارے منافع کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔ وہ ہر سروس کا حساب لگاتے ہیں، ہر بیڈ کا کرایہ، ہر ٹیسٹ کی فیس، ہر ڈاکٹر کی فیس اور یہاں تک کہ ایمرجنسی سروسز بھی ایک قیمت کے تحت فراہم کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ افراد جن کی مالی حالت پہلے ہی نازک ہو، وہ یا تو علاج سے محروم رہیں گے یا قرض کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ حکومت جس سسٹم کی اصلاح کی دعویدار ہے، وہ سسٹم اگر واقعی خراب ہے تو اس کی اصلاح حکومت کی ذمہ داری ہے، نہ کہ اسے بیچ دینا۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جب سرکاری ہسپتال نجی ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تو وہاں کام کرنے والا عملہ بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑتی ہیں، ان کی تنخواہیں، پنشن اور دیگر مراعات متاثر ہوتی ہیں۔ نجی شعبہ ہمیشہ کم خرچ اور زیادہ منافع کی سوچ کے تحت چلتا ہے، ایسے میں تجربہ کار مگر مہنگے ملازمین کو فارغ کر کے کم تجربہ کار اور کم تنخواہ والے عملے کو رکھا جاتا ہے، جس سے سروس کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے اور مریض کی جان کو خطرہ بھی لاحق ہو جاتا ہے۔

مزید یہ کہ صحت کے نظام کو مکمل نجی شعبے کے سپرد کرنا ایک طبقاتی نظام کو جنم دیتا ہے۔ ایک طرف وہ ہسپتال ہوں گے جہاں صرف امیر لوگ جا سکیں گے اور دوسری طرف وہ لوگ ہوں گے جو نہ دوا خرید سکیں گے نہ علاج کرا سکیں گے۔ اس سے معاشرتی تقسیم میں اضافہ ہو گا، بے چینی بڑھے گی اور احساس محرومی شدت اختیار کرے گا۔ ایک فلاحی ریاست کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ ہر شہری کو برابر کی سہولیات فراہم کرے، خاص طور پر تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں میں۔ مگر جب حکومت خود ان شعبوں سے دستبردار ہونے لگے تو یہ ایک خطرناک رجحان کا آغاز ہوتا ہے۔

ایک اور پہلو جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ ہے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں پہلے ہی صحت کی سہولیات نہایت ناقص ہیں۔ اگر وہاں موجود چند سرکاری ہسپتال بھی نجی شعبے کو دے دیے گئے تو وہاں کے لوگ مکمل طور پر بے یار و مددگار ہو جائیں گے۔ نجی شعبہ ان علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا جہاں منافع کا امکان کم ہو۔ وہ صرف بڑے شہروں میں جدید ہسپتال بنائیں گے جہاں سے وہ زیادہ کمائی کر سکیں۔ دیہی عوام کے لیے نہ ڈاکٹر ہو گا، نہ دوا اور نہ ہی ہسپتال۔

اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت عوام کو اعتماد میں لیے بغیر، ایک غیر شفاف انداز میں ایسے اہم فیصلے کر رہی ہے۔ عوامی نمائندے، سول سوسائٹی، ماہرینِ صحت اور صحافی بار بار اس فیصلے کے نقصانات پر روشنی ڈال رہے ہیں مگر حکومتی سطح پر کوئی سنجیدہ ردعمل دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ یہ خاموشی اور بے حسی بذات خود ایک المیہ ہے۔ صحت کا شعبہ اصلاحات کا ضرور محتاج ہے، مگر ان اصلاحات کا مطلب اسے نجی شعبے کے سپرد کرنا نہیں بلکہ اس میں بہتری لانا اور اسے شفاف بنانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں بات یہ ہے کہ ایک عام شہری کے لیے سرکاری ہسپتالوں کا مطلب ہے سستی دوا، مفت علاج، اور فوری رسائی۔ جب یہ سہولت بھی چھن جائے گی تو عوام کہاں جائیں گے؟ کیا ہر شہری نجی ہسپتال کا خرچ برداشت کر سکتا ہے؟ کیا ہر ماں اپنے بچے کا علاج بیچ بازار میں کروا سکے گی؟ اور اگر نہیں، تو کیا وہ اپنی اولاد کو تڑپتے دیکھے گی صرف اس لیے کہ وہ غریب ہے؟ ایسے سوالات کا جواب صرف حکومت ہی نہیں، ہم سب کو دینا ہے، کیونکہ صحت کا مسئلہ کسی ایک طبقے کا نہیں، پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply