ادھوری کہانی/سخاوت حسین

شام کا وقت تھا میں اورٹینا ساحل پر ٹہل رہے تھے۔ ہم اکثر ہفتے کے دن وقت گزارنے یہاں آتے تھے۔ ہفتے کی مشقت بھری ملازمت سے نجات ملنے کے بعد یہاں ٹہلنا کسی خواب سے کم نہ ہوتا تھا۔ شاندار سی کافی کے ساتھ سمندر کی لہروں میں گونجتے قہقہوں اور ڈوبتے سورج کو دیکھنے کا مزہ الگ تھا۔
ٹینا کی مسکراہٹوں میں زندگی گونجتی تھی۔ پچھلے کچھ دنوں سے میرے ذہن میں ایک ہی لفظ گونج رہا تھا۔ وہ تھا فلسطین۔۔۔۔میں اکثر فلسطین پر بمباری کی تصوریریں یا ویڈیوز دیکھتا تو حالت غیر ہوجاتی۔ میں کسی مذہبی دباؤ میں مبتلا انسان ہرگز نہیں تھا نہ ہی میں کوئی جذباتی انسان تھا لیکن یہ ویڈیوز مجھے بے کل کردیتی تھیں۔
“تم آج کافی پریشان لگ رہے ہو۔ چہرے کو دیکھو بارہ بج رہے ہیں۔ کیا ہوا ہے؟”
اس نے بالاخر وہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جس کا جواب دینے سے میں ہچکچا رہا تھا۔
“کچھ نہیں۔”
میں نے مختصر جواب دیا۔
“تمھاری کچھ نہیں میں سے ہمیشہ بہت کچھ نکلتا ہے۔ مجھے بتاؤ پھر کس چیز کا غم دل پر لیے بیٹھے ہو۔”
مجھے ماننا پڑے گا کہ وہ کچھ سالوں میں مجھے بہت بہتر طریقے سے جان چکی تھی یہاں تک کہ میں اس سے کچھ چھپا بھی نہیں پاتا تھا۔
” تمھیں پسند نہیں آئے گا۔ وہ فلسطین۔۔”
فلسطین کا نام سن کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
“”مجھے علم تھا میرے دوست! تم آج کل اسی مسئلے میں الجھے ہوگے جس کو سلجھانے میں دنیا ناکام ہوچکی ہے۔”
اس نے کافی بھرا مگ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
“دنیا! دنیا ہر شے میں ناکام ہوچکی ہے۔ معاشی تبدیلیوں کو خدا مانتی دنیا وہاں کھڑی ہے جہاں اسے صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔”
میں نے ذرا تلخ لہجے میں کہا۔
“اور یہ بات تم کسی عرب ملک میں نہیں، یورپ میں بیٹھ کرکررہے ہو ہے نا!”
اس نے طنزیہ انداز میں کہا اور میں سمجھ گیا کہ وہ کسی صورت اس مسئلے کو ویسے نہیں دیکھنا چاہتی جیسے میں دیکھنا چاہتا ہوں اور یہ اس کا حق تھا کہ وہ کسی مسئلے کو اپنے نظر اور زاوئے سے دیکھ سکتی تھی۔”
“ھاھاھا ! ہم ان دو سو سالوں کا بدلہ لے رہے ہیں جب تمھارے بڑے بن بلائے ہمارے علاقوں میں چلے آئے تھے اور ہم پر حکمرانی کی تھی۔ یاد ہے یا بھول گئی۔ تم لوگ ہمارے مقروض ہو کہ ہمارے سارے اثاثہ جات لے گئے اور ہمیں اپنا تاریک دور دے گئے۔ ”
اس بار حملہ میری طرف سے تھا۔
اس نے میری بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور کچھ توقف کے بعد بولی۔
“فلسطیں میں اب کوئی ابابیل نہیں آئے گا میرے دوست! وہ ابابیلیں رخصت ہوئیں۔ غلیلوں سے جنگیں نہں جیتی جاتیں۔ جنگیں طاقت سے جیتی جاتی ہیں اور اب تم لوگوں کے پاس غلیلیں بھی کہاں بچی ہیں۔ تم کس کی طرف دیکھ رہے ہو کون حالات بہتر کرے گا۔ تمھیں لگتا ہے یہ جنگ عرب لڑیں گے۔ عرب بیوقوف نہیں۔ انہوں نے تلواریں نیاموں میں رکھ لی ہیں اور پلیٹ میں معیشیت کی تھالی سجا لی ہےاور جدت پسندی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ۔ اب عربیوں نے قدامت پسندی کے تابوت میں کیلیں ٹھونک کر روشن خیالی کے خیال سے دوستی کرلی ہے۔ وہ تمھارے ہمنوا نہیں۔ وہ تم سے دور ہیں۔ بہت دور ۔۔۔جتنی ایک بد قسمت شخص سے اچھی قسمت دور ہوتی ہے۔”
وہ کہتی جارہی تھی اور میں اسے سنتا جارہا تھا۔ مجھے ماننا پڑے گا کہ اتنے خوب صورت ماحول میں مجھے سکون میسر نہیں تھا۔ لندن سے کافی دور واقع اس ساحل پر آنے میں گھنٹے لگ جاتے تھے مگر یہاں آکر ہم بحث میں الجھ جاتے تھے۔ وہ سچ کہہ رہی تھی مگر سچ کم ہی ہضم ہوتا ہے۔ میں جب دنیا کے حالات کو دیکھتا تو مجھے سوائے مایوسی ، کساد بازاری، مہنگائی، بدتر مستقبل اور گلوبل وارمنگ کے کچھ نظر نہ آتا۔
“”پیاری ٹینا! ان کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں۔ وہ مررہے ہیں۔ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھو۔ ان کو کس بے رحمی سے مارا جارہا ہے۔ وہ بچے جو وقت سے پہلے مرجھا گئے۔ ان کا کیا قصورتھا۔ وہ پھول جو کھل نہ سکے۔ ان ماؤں کا دکھ محسوس کرپاؤ گی۔ تم کہہ رہی ہو ابابیلیں نہیں آئیں گی۔ دکھ ابابیلوں کے آنے کا نہیں دکھ تو اس بے حسی کا ہے جو اب ہزاروں اموات کو بھی عام سی شے سمجھتی ہے۔ ”
میں نے شدید دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
اس نے کافی کا سپ بھرا۔ اس کے بال چہرے پر آرہے تھے۔ ٹھنڈی ہوا ہمیں سکون دے رہی تھی۔ تبھی وہ گویا ہوئی۔
“اس کی وجہ جانتے ہو! نہیں رکو یا جاننا نہیں چاہتے۔ تمھارے اپنے لوگوں نے بائی کاٹ مہم چلائی مگر بائی کاٹ کی جگہ بھائی کاٹ سنائی دیا۔ تم خود کہتے ہو تمھارے ہاں خالص دودھ نہیں ملتا، تعلیم ، ٹیکنالوجی ، انصاف اور صحت کے میدانوں میں پیچھے ہو۔ معاشی لحاظ سے زوال پذیر ہو۔ فرقے واریت میں ڈوبے ہوئے ہو۔ ہمیشہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہو۔ ایک دوسرے کو مار دیتے ہو۔ تمھیں عزت شہرت، پیسا انہی مغربی ملکوں سے ملتا ہے جنہیں دن رات جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دیتے ہو۔ پھر ان سے ہی توقع کرتے ہو کہ وہ تمھارے ہمنوا بھی بنیں۔ تمھارے اپنے نام نہاد ممالک کہاں ہیں۔ وہ تو کچھ بولنے کو تیار نہیں۔ وہ کیوں دکھ محسوس نہیں کرتے۔ وہ اسے سیاسی جنگ کہتے ہیں۔ یہاں اتنے یہودی فلسطینیوں کے حق میں نکلتے ہیں۔ تمھارے اپنے ٹیگ لگے ملکوں میں کتنے مسلمان نکلتے ہیں۔ اس کی وجہ دوست یہی ہے کہ اب سب خاموشی کے قالین پر سوار ہو کر اپنی اپنی فکر کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ ”
وہ بولتی جارہی تھی اور میں چپ چاپ سنتا جارہا تھا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی مگر یہ سچ ڈروانا تھا۔ دکھ بھرا سچ جس میں صرف دکھ چھپا ہوا تھا۔ سورج کے ڈوبنے میں کچھ لمحے باقی رہ گئے تھے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ویسے بھی اسے ساری معلومات اور اعداوشمار انٹرنیٹ اور اے آئی سے مل جاتے تھے۔
“”مجھے نہیں پتا! میں وہ چھوٹا سا ابابیل ہوں جو اپنے حصے کا دکھ محسوس کررہا ہے۔ میں احتجاج کررہا ہوں۔ میں ان ممالک کا ترجمان نہیں۔ وہ زندہ ہوتے تو آج مظلوم لوگ چپ چاپ نہ مرتے۔ وہ جگہ قبرستان نہ بنتی۔ وہ بے حس ہوچکے ہیں میں نہیں ہوا۔ بہت سے ابھی بھی زندہ ہیں۔ بے حس نہیں ہوئے۔ کیا اب ہم دکھ اور تاسف کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔ کسی کا کتا مرجائے تو وہ دس دن روتا ہے ۔ فلسطیں میں محلے کے محلے برباد ہوئے اور کتے کے مرنے جتنا افسوس کسی کو نہ ہوا۔ ”
رکو اس نے مجھے ٹوکا۔
“رکو! احساس مند انسان کسی پر یوں طنز درست نہیں۔ تمھارا یہی وطیرہ تمھیں کچھ نہیں کرنے دیتا۔ تم اسی لیے ہر میدان میں پیچھے ہو۔ تعلیم میں ، ٹیکنالوجی میں، معشیت میں، علم و ہنر میں ، سیاست میں، امانت میں، دیانت میں، دنیا داری کے معاملات میں، وفاداری خلوص میں سب میں پیچھے ہو چلو پھر عہد کروکہ تم لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دو گے۔ عہد کرو کہ اپنوں کو ویسا دکھ نہں دو گے جو تم اپنے لیے نہیں چاہتے دودھ میں ملاوٹ نہیں کرو گے۔ بچوں کو صاف خوراک کھلاؤ گے۔ ذخیرہ اندوزی نہٰں کرو گے۔ جھوٹ نہیں بولو گے۔ ایک دوسرے کو فرقوں کے نام پر ذبح نہیں کرو گے۔ بے ایمانی نہیں کرو گے۔ کسی کو دھوکہ نہیں دو گے۔ اپنے ملک کو یورپ جیسا بناو گے۔ وعدہ کرو ایسا کرو گے۔ کرو گے وعدہ۔۔۔۔میرے احساس سے لبریز انسان ! تم سے پہلے ہم بھی احتجاج کرچکے ہیں۔ ہم نے بھی ان کا دکھ محسوس کیا ہے۔ لیکن مقابلہ وہی کرپاتے ہیں جو معاشی، اخلاقی، مالی، علمی، عقلی لحاظ سے سب سے آگے ہوں۔ ”
وہ کہتی جارہی تھی اور میں چپ چاپ سنتا جارہا تھا۔ شام ہوچکی تھی۔ میں نے ڈوبتے ہوئے سورج کو الوداعی نظروں سے دیکھا۔ اس کے پاس ان بچوں کا دکھ محسوس کرنے کی وجہ تھی لیکن اس کا زاویہ مختلف تھا۔ میرے پاس بھی وجہ تھی۔ میں معاشرے کو ایک دم تبدیل نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی دلیلیں ایسی ہی تھیں کہ گھر میں موت ہو تو پہلے مرنے کے اسباب ڈھونڈو۔ پہلے اگلی اموات کو روکو پھر افسوس کرو۔ہم شاید بہت سے معاملات میں بہت نہیں تھے مگر ہمارے اپنے مررہے تھے۔ بکھر رہے تھے اور ہم اس دکھ کوبھی فلٹر کرکے دیکھنا چاہ رہے تھے۔ دلیلوں کی پٹاری لے کربس خاموشی کی راہ نکال رہے تھے۔
تبھی ہم اٹھے۔ سورج کے ساتھ میرا دل بھی ڈوب گیا اور دھیرے دھیرے میں آگے بڑھنے لگا۔ میں عالم تصور میں اپنے قریب سے گزرتے ایک جہاز کو دیکھ رہا تھا جس کے حملے میں پھر سے بہت سے لوگوں نے مرجانا تھا جب کہ مغرب ، مشرق ، شمال اور جنوب کی بے رحم دلیلیں اور مایوس کن خاموشی بے حسی کے جہاز پر بیٹھ کر دنیا پر منطق کے بم برسانے کو تیار تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply