ایک وکیل صاحب کا ٹی وی چوری ہوگیا – اہل محلہ ، دوست احباب ، کولیگ افسوس کرنے گھر آتے ، افسوس کے بعد چوری کا احوال پوچھتے تو وکیل صاحب سے یہ سوال ضرور کرتے ، ٹی وی رکھا کہاں تھا، وہ کھڑکی کے ساتھ پڑی ٹی وی ٹرالی کی طرف اشارہ کرتے تو سوال کرنے والا ہر فرد یہ ضرور کہتا، وکیل صاحب اتنے سمجھدار ہوکر ٹی وی ٹرالی کھلی کھڑکی کے پاس رکھی کیوں کہ چور لے گئے؟
ایک دن وکیل صاحب کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور وہ پھٹ پڑے کہنے لگے کہ!
” تم سب مجھے جو متاثرہ ہے معتوب کرنے میں پوری طلاقت لسانی صرف کر رہے ہو لیکن جنھوں نے ٹی وی چوری کیا ان “چوروں کی مذمت ” نہیں کرتے اور نہ پولیس کو برا بھلا کہتے ہو جس نے چوروں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ کسی بھی شہری کے گھر میں گھس جائیں اور جو دل کرے چوری کرکے لے جائیں-”
ایسے ہی حال ہے کہ کئی ایک “ترقی پسند ” دانشوروں کا وہ پنجابی اور سرائیکی محنت کشوں کے بلوچستان میں نسل پرست مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوجانے پر ریاست سے سوال نہیں کرتے کہ ان کے پاس جو مسلح افواج ، رینجرز، ایف سی میں بھرتی کیے جانے والے لاکھوں افراد کا لشکر اور جدید ترین سازو سامان ہے جن کا سب سے بنیادی کام عوام کی جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ کرنا ہے انھیں قاتل ہرکارہ سے بچانا ہے وہ پنجابی اور سرائیکی محنت کشوں کے قتل کی 131 ویں واردات کے وقت بھی ان کی حفاظت کے لیے ایک بھی پولیس سپاہی ، فوجی ، ایف سی اہلکار مہیا نہ کرسکے اور اس کی 19 کے قریب انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بلوچستان میں موجود ہزاروں اہلکار اور ان کے سورسز یہ پتا نہ لگا سکے کہ پنجابی اور سرائیکی محنت کشوں پر حملہ آور کون ہیں ، کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چھپ جاتے ہیں ؟ وہ بلوچستان حکومت سے نہیں پوچھتے کہ آخر جتنی آسانی سے دہشت گرد پنجابی اور سرائیکی مزدوروں کو قتل کر جاتے ہیں اتنی آسانی سے وہ چیف منسٹر سمیت ان کی پوری کابینہ ، مشیروں اور اس حکومت کی سول نوکر شاہی کو نشانہ کیوں نہیں بنا پاتے ؟
کیونکہ زور آور ، طاقتور سے یہ سوال جب ہوگا تو سوال کرنے والا خود ہی جان لے گا کہ سیکورٹی کے جتنے سخت حصار اور انتظام نام نہاد منتخب حکومت کے عہدے داروں ، سیکورٹی اداروں کی اوپر کی ہیرارکی میں بیٹھے افسران اور سول نوکر شاہی کے افسران کے لیے ہے اس کا ایک فیصد بھی پنجابی اور سرائیکی محنت کشوں کے لئے نہیں ہے –
یہ دانشور سوال نہیں کرتے بلکہ “شریک جرم” ٹھہراتے ہیں ان بلوچ خواتین کو جن کے گھر کے مرد یا تو اغوا کرکے جبری گمشدہ بنائے گئے ہیں یا ان کی کی مسخ شدہ لاشیں ویرانے سے ملی ہیں یا ان کی نظروں کے سامنے انھیں خود ریاستی سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے مارا ہے اور وہ جنرل مشرف کی آمریت سے لیکر اب تک 29 سالوں سے انصاف مانگنے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں اور اس پاداش میں انھیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ ان کے رشتے دار ان کی رہائی کی درخواستیں عدالت میں لیکر گئے ہوئے ہیں اور دھکے کھاتے پھرتے ہیں – ان سے جو انیائے ہوا، جو ظلم ہوا اس پر پنجاب میں نہ تو پنجابی عوام نے کوئی تحریک چلائی ہوئی ہے نہ سرائیکی عوام نے سڑکوں پہ آنا گوارا کیا ہے- پنجاب میں نہ سندھ میں قدم قدم پر چیک پوسٹیں اور ناکے ہیں جہاں ان سے ان کی شناخت مانگی جاتی ہو نہ ان کی جامہ تلاشی ہوتی ہو نہ پوری پوری آبادیوں اور محلوں پر فوجی دستے ، ایف سی کے قافلے ، پولیس کے لشکر اور سی ٹی ڈی کے اہلکار ہر دوسری تیسری رات ہلہ بولتے ہوں اور سرچ وارنٹ ہوں یا نہ ہوں گھروں میں گھس جاتے ہوں اور عورتوں سے بدتمیزی کرتے ہوں اور ہر سرچ آپریشن میں درجن بھر نوجوان مرد اٹھاکر غائب کردیے جاتے ہوں یا پھر دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جاتے ہوں ، کہنے کو ایک ملک ہو ، ایک دستور ہو ایک جیسے قوانین ہوں لیکن عملی طور پر بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے اکثر علاقوں میں “جنگل قانون ” رائج ہو – اس ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والوں کے قتل پر خاموشی کو “شراکت جرم ” نہ قرار دیا جائے اور نہ ہی ریاست کے اہلکاروں کو “قاتل ” ، “اغوا کار ” اور “ظالم” قرار دیا جائے – خود جو اصول بلوچستان کی مظلوم خواتین کو زبردستی “شریک جرم ” قرار دینے کے لیے گھڑا گیا ہو اس اصول کے اطلاق سے ریاستی اداروں کے اہلکاروں اور حکومتی عہدے داروں کو استثنا دے دیں بغیر کسی دلیل کے – کیا اس سے بڑا انیائے کوئی ہوسکتا ہے؟
یہ “شریک جرم ” قرار دینے کا اصول ایک ایسے سرائیکی دانشور نے گھڑا ہے جو 70ء کی دہائی سے اب تک خود کو برصغیر پاک و ہند کی تحریک مزاحمت و انقلاب کا وین گارڈ کہلاتا ہے – جس کے کریڈٹ پر انقلابی لڑیچر کی درجن بھر چھوٹی بڑی کتابوں کی تصنیف و تالیف و ترجمہ ہے – جو 11 سالہ آمریت میں جمہوریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آج بھی تبرا کرتا ہو – اور دور کے ریاست کے ہاتھوں قتل ہونے والوں پر آنسو بہاتا ہو – اسے بھٹو کا ریاستی قتل بھولتا نہ ہو – لیکن وہ کتنے شفاخانہ انداز میں بلوچستان میں 1948ء سے لیکر اب تک ہونے والے مظالم کا شکار ہونے والوں کی وارث تحریک کی مشکل سے چند درجن اسیر خواتین کو بلکہ ان میں سے بھی صرف ایک کا نام لیکر اسے ان سرائیکی محنت کشوں کے قتل کے جرم میں شریک ٹھہرا دیتا ہے جو اس جیسے دانشوروں سے یہ سوال بھی نہیں کر پائیں کہ وہ پیپلزپارٹی کی قیادت سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ اس نے بلوچستان میں اپنی جماعت کی پہچان اسٹبلشمنٹ کے کرائے کے قاتل ڈیتھ اسکواڈ کو کیوں دی ؟ ایک ایسی ریاست کا صدر مملکت اس پارٹی کا شریک چئیرمین کیوں بنا جس ریاست پر بلوچ نسل کشی کا ہی نہیں بلکہ اس کی اپنی پارٹی کے دو سربراہوں کے قتل کا الزام ہے اور یہ الزام کسی اور نے نہیں بلکہ خود مقتول سربراہوں نے اپنی زندگی میں پیشگی لگایا اور خود اس شریک چئیرمین نے لگایا اور خود یہ سرائیکی دانشور بھی اپنی لاتعداد تحریروں میں عائد کرچکا ہے- یہ دانشور ہمیں بتاتا رہا ہے کہ اس ملک میں مذھب اور نسل کے نام پر جو قتل و غارت گری ہوئی ، مسجدوں ، مزارات، امام بارگاہِ، گرجا گھروں ، مندروں ، گورداروں پر جن مسلح جتھوں نے حملے کیے ، جو خودکش بمبار وہاں پھٹے اور جنھوں نے اس پارٹی کی چیئرپرسن کو شہید کیا ان کے پیچھے ماسٹر مائنڈ کے کھرے راولپنڈی کے ایک ہیڈکوارتر تک جاتے ہیں – کیا اس نے اس جماعت کی قیادت کو اس قدر بربریت کو شہ دینے والوں کی مذمت نہ کرنے بلکہ ان کے ساتھ بیٹھ جانے پر انھیں بلوچ نسل کشی ، سندھیوں کے قتل ، پشتونوں کی نسل کشی ، شیعہ نسلی کشی کے جرم میں شریک ٹھہرایا؟ نہیں نا؟ کیا یہ خاموشی ماہ رنگ کی نام نہ لیکر سرائیکی و پنجابی مزدوروں کے قتل کی مذمت نہ کرنا مگر سویلین کے قتل کی عمومی اور سرسری مذمت کرنے سے بڑا جرم نہیں ہے؟ اور اس خاموشی پر اس سرائیکی دانشور کی خاموشی اور اس قیادت کے بلنڈرز پر چپ رہنا منافقت اور خود غرضی اور سفاکیت نہیں ہے ؟

کیا اس دانشور نے فالج کا حملہ ہونے سے پہلے اپنی قیادت میں چولستان میں سرائیکی کسانوں کی زمینوں پر قبضے کے خلاف کوئی احتجاجی جلوس نکالا؟ کوئی دھرنا دیا ؟ کسی لانگ مارچ کی کال دی ؟ چولستان میں قبضہ کرنے والے کسی باوردی افسر یا بیوروکریٹ کے گھر کے سامنے دھرنا دیا؟ نہیں نا ! تو پھر وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے باب میں احتساب کا جنون لیے شدت غیظ و غضب سے کیوں سامنے آیا ہے؟ وہ اپنی قوم کے حقوق کے لیے تو ریاست کے سامنے کھڑا ہونے سے کتراتا رہا ہے اور کمفرٹ زون میں بیٹھ کر نرم گرم تنقید کرتا رہا ہے جس پر ریاست نے اسے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی طرح نہ تو دہشت گرد قرار دیا نہ کوئی جھوٹا مقدمہ بنایا نہ کبھی جیل میں ڈالا – نہ کبھی آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس کے خلاف گھنٹوں گھنٹوں پریس کانفرنس کی – وہ ڈاکٹر ماہ رنگ پر تنقید کا اپنا تو کوئی ڈسکورس لیکر سامنے نہیں آیا بلکہ اسٹبلشمنٹ کا ڈسکورس مستعار لیکر ان پر حملہ آور ہوگیا – اس لیے کہ ایسا الزام لگانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے اور ریاست سے جواب طلبی کرنے اور جو سرائیکی مزدوروں کی جانوں کا تحفظ کرنے میں گزشتہ 20 سالوں سے مکمل ناکام چلی آرہی ہے اس کے کرتا دھرتاوں سے اس غفلت اور مجرمانہ نا اہلی پر استعفا تک کی مانگ نہ کرسکا وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے ایک ایسے موقعہ پر جواب طلبی کر رہا ہے جب وہ جیل میں ہے اور ریاست کے جھوٹے مقدمات کا سامنا کر رہی ہے – ریاست اس کے خون کی پیاسی ہے – کیا ایک مظلوم و محکوم و مجبور قوم کے دانشور کا کام یہ ہے کہ وہ ظالم و جابر حکمرانوں سے جواب طلبی کرنے کی بجائے دوسری مظلوم و مجبور و محکوم قوم کی مقبول رہنماء کو ناکردہ گناہ اور جرم کی سزاوار ٹھہراتے لگے؟ اور ایک مجبور و محکوم قوم کو دوسری مجبور و محکوم قوم سے لڑانے کی کوشش کرے ؟ افسوس صد افسوس کیا کوئی عمر کے آخری پہر میں اپنی سیاسی بصیرت ایسے کھو سکتا ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں