ترقی پسندوں کے رانگ نمبر (1)-یاسر جواد

آپ کو گوگل پر ہلکی سی سرچ کے نتیجے میں بھی پروگریسو ازم یا ترقی پسندی کی آسان اور سیدھی سادھی تعریف مل جائے گی۔ یہ بائیں بازو یعنی کمیونسٹ خیالات کی طرف رجحان رکھنے والا سیاسی فلسفہ اور اصلاحی تحریک ہے، جو سماجی بہتری پیدا کرنے کے ذریعے انسانی حالات کو ترقی دینے کی بات کرتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ امریکی فلسفہ تھا اور اِس نے وہاں کے معاشرے میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں۔ تحریک نے انیسویں صدی کے آخر میں امریکہ کی آبادی تقریباً دُگنی ہو جانے سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنا چاہا۔ لیکن یہ بے نظیر صنعتی اور معاشی ترقی کا دور تھا۔مثلاً صنعتی پیداوار 800 فیصد بڑھ گئی۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پروگریسو مفکرین نے کام کیا۔
پاکستان اور اُردو میں پروگریسوز کو ترقی پسند کا نام دیا جاتا ہے۔ اِن میں زیادہ تر تو لبرل فراریت پسند شامل ہیں جو سرمایہ داری (وہ بھی موجودہ) کو انسانیت کی آخری منزل سمجھتے ہیں اور سائنس کے بھیس میں سائنٹزم کا راگ الاپتے ہیں۔ اُن کی نظر میں بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والی کوئی بھی سوچ غیر ضروری، فرسودہ اور بے وقوفانہ ہے۔ ملحدین کرام کا ایک بہت بڑا عنصر بھی خود کو ترقی پسندی سے نتھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ اُن کا اپنے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں۔ وہ ری ایکشنری ہیں، وہ گالی دیتے ہیں، وہ دوسروں سے وہی آزادیاں چھیننے کی بات کرتے ہیں جو خود مانگتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ریاستیں، بادشاہتیں، ایمپائرز ختم ہو جاتی اور مٹ جاتی ہیں مگر عقائد اور توہمات باقی رہتے ہیں۔ مثلاً قدیم یونانی سلطنت ختم ہو گئی مگر بت پرستوں نے دیوتاؤں کے لباس اور نام بدل کر رومن سلطنت میں تسلسل پایا۔ پھر رومن دیوتا مسیحیت میں بہروپیے بن گئے۔ عربوں کی اموی اور عباسی سلطنتیں بنیں، عروج کو پہنچیں اور مٹ گئیں، مگر مسلم عقائد باقی رہے۔ ہزاروں سال تک ریاست سے محروم یہودیوں کو کوئی مٹا سکا ہے؟ نہ ہی وہ فلسطینیوں کو مٹا سکیں گے۔
مذاہب کے سماجی کردار پر یقیناً بات اور تنقید ہونی چاہیے، لیکن مذاہب کے خلاف جدوجہد کرنا یا کوئی مہم چلانا بے کار اور لغو بات ہے۔ ملحدین، لبرلز اور کام نہ کرنے والے باغی حضرات اِس طریقے کو اپنے لیے آسان اور نمایاں ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں روشن خیالی، عقلیت، اور ترقی پسندی سے بہتر ذہنی زندگی کوئی اور نہیں۔ اِس میں آپ انتخابی اور غیر قطعی انداز اپنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ آپ ملحدین کرام کی طرح منہ سے جھاگ نہیں اُڑاتے، رمضان اور جمعے اور عید کا مضحکہ نہیں بناتے اور عمر ڈھلنے پر نمایاں پستانوں والی فوٹوز کی سٹوریز اور سٹیٹس نہیں لگاتے۔ ایسے لوگ خود غرض، تماش بین اور ترقی پسندوں کے رانگ نمبر ہیں۔
المختصر، اگر ہم روشن خیال ہیں تو اُس کے پھل دوسروں تک پہنچائیں، نہ کہ اُن سے خیالی سہارے چھینیں۔ وہ خود ہی وہ سہارے ترک کر دیں گے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply