گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام وہ خطہ ہے جو قدرتی حسن، برف پوش پہاڑوں اور معدنی وسائل کی دولت سے مالا مال ہے۔آج 77 سالہ سیاسی بے یقینی، آئینی محرومی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان کی جانب سے اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس میں گلگت بلتستان سمیت دیگر صوبوں کے معدنی ذخائر کو ملکی قرضوں کی ادائیگی اور معیشت کی بحالی کیلئے بروئے کار لانے کا اعلان، علاقے کے عوامی جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنا ہے۔کیونکہ گلگت بلتستان کی موجودہ قانونی حیثیت ایک پیچیدہ اور تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ 1947 میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد یہ خطہ پاکستان کے زیرانتظام آیا، مگر اسے آج تک مکمل آئینی حیثیت نہ مل سکی۔ اور نہ ہی خطے کو اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق آذاد کشمیر طرز پر حکومت ملی بلکہ ایک نام نہاد معاہدہ ،معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 جس میں گلگت بلتستان کی کوئی نمائندگی نہیں تھی ،اذاد کشمیر کے حکمرانوں نے پورے خطے کا نظام انصرام وفاق کے سپرد کردیا اور آج گلگت بلتستان کا پورا نظام بغیر کسی قانونی اور آئینی چھتری کے صدارتی حکم نامے پر کھڑی ہے اور بیوروکریسی کو خطے میں اقتدار اعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 257 واضح کرتا ہے کہ جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے، تو پاکستان اور اس ریاست کے درمیان تعلقات اس الحاق کی شرائط کے مطابق طے کیے جائیں گے۔ یہ شق گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ تسلیم کرنے سے پہلے ایک عوامی استصواب رائے کو ضروری قرار دیتی ہے، جو اقوام متحدہ کی 1948 اور 1949 کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی 1994، 1999 اور 2019 کے فیصلوں میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنانے سے انکار کرتے ہوئے اسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دیا ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے وسائل کی لوٹ مار کیلئے دوغلی پالیسی اپنایا ہوا ہے حالانکہ یہ آئینی مبہمیت پاکستان کو اس خطے کے قدرتی وسائل کے مالک بننے کا اختیار نہیں دیتی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں، تو پھر پاکستان یہاں کے وسائل کس قانونی اور اخلاقی بنیاد پر استعمال کر سکتا ہے؟ پاکستان کا دفتر خارجہ اور عدالت عظمیٰ ایک طرف اسے کشمیر تنازعے سے جوڑ کر حقوق دینے سے انکاری ہیں، اور دوسری طرف انہی عوام کے وسائل کو قومی ملکیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تضاد، ظلم اور ناانصافی کی واضح مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ بیان کے بعد، کہ گلگت بلتستان کے معدنیات ملکی معیشت کو سہارا دیں گے، پورے خطے میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ آئین پاکستان کے اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 172(3) کے تحت قدرتی وسائل (تیل، گیس، معدنیات وغیرہ) جو کسی مخصوص مالک کے تحت نہیں ہیں، اگر وہ کسی صوبے کی حدود میں ہیں تو وہ اس صوبے کی ملکیت ہوں گے۔ یعنی زمین کے اندر موجود تمام معدنی ذخائر جیسے کوئلہ، تانبہ، سونا، کرومائیٹ، وغیرہ ۔ ان پر صوبائی حکومتوں کا حق ہے اور وفاقی حکومت اب صوبے کی اجازت کے بغیر ان پر کوئی منصوبہ نہیں چلا سکتی۔گلگت بلتستان چونکہ آئین پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ خطہ ہے اس وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی نہیں این ایف سی میں شامل نہیں ووٹ کا بھی حق حاصل نہیں یکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے وسائل مکمل طور پاکستان کی ملکیت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان، مذہبی و سیاسی رہنما، اور سول سوسائٹی اس بیان کو وسائل کی لوٹ مار کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ معروف دانشور مصنف پروفیسر حسن حسرت سوال اٹھاتے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں، تو یہاں کے پہاڑ پاکستانی کیسے ہو گئے؟۔ اسی طرح قائد بلتستان، علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے نہایت پُراثر الفاظ میں کہا ہے کہ ہمارے پہاڑ صرف پتھر نہیں، یہ ہماری غیرت اور شناخت ہیں۔ پہلے شناخت دیں، پھر وسائل کی بات کریں۔ مسلک نور بخشیہ کے میر واعظ جانشین پیر طریقت پیرزادہ سید شمس الدین الموسوی نے بھی اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ گلگت بلتستان کے پہاڑ خالصہ سرکار کی ملکیت نہیں ہیں، لہذا ہم اپنی ملکیتی چراگاہوں اور معدنیات پر کسی کو ہاتھ ڈالنے نہیں دیں گے۔ اور اگر زبردستی قبضہ کیا گیا تو بھرپور مزاحمت کریں گے۔گلگت میں مرکزی امامیہ جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے ہوئے آغا سید راحت حسین الحسینی نے کہا ہے کہ کیا پاکستان کے قرضے گلگت بلتستان کی وجہ سے ہوئے ہیں جو یہاں کے وسائل کے ذریعے قرضے اتارے جائے؟گلگت بلتستان کی ایک ایک انچ زمین یہاں کے عوام کی ملکیت ہے کسی کی مائی کا لال اس زمین کو ٹچ نہیں کرسکتا عوام امادہ رہے کسی بھی احتجاجی تحریک کے لیے نائب خطیب مرکزی امامیہ جامع مسجد سکروو علامہ شیخ فدا حسن عبادی نے جمعہ کے خطبے میں کہا کہ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے معدنیات فروخت کرکے پاکستان کا قرضہ اتارنے والے(وزیراعظم شہباز شریف کے)بیان کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ کیونکہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہی نہیں، یہ متنازع خطہ ہے۔ریاستِ پاکستان نے اب تک ہمیں اپنا شہری تسلیم نہیں کیا، تو وزیر اعظم کس منہ سے یہاں کے معدنیات بیچ کر پاکستان کا قرضہ اتارنے کی بات کرتے ہیں؟ 70 سالوں سے گلگت بلتستان کو کونسے حقوق دیئے گئے ہیں صحافی قاسم نسیم جنکی زیادہ تر تحاریر اس بات پر ہمیشہ سے زور دیتا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کسی نہ کسی طریقے سے صوبہ بن سکتا ہے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ گلگت بلتستان کا خطہ جب متازعہ ہے تو یہاں کے پہاڑ پاکستانی کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس کے ساتھ عوام کی جانب سے گلگت بلتستان اسمبلی کے اراکین پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، جنہیں سہولت کار قرار دیا جا رہا ہے۔ ان اراکین نے حقوق کی قراردادیں تو پاس نہیں کیں، لیکن اپنے مراعات کی حفاظت کیلئے خاموشی ضرور اختیار کی۔لہذا موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر اور گلگت بلتستان کی اسٹرٹیجک اہمیت کے تناظر میں جب امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ عروج کو پہنچا ہوا ہے اور امریکہ کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ تین ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع گلگت بلتستان میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں تاکہ نیو ورلڈ آرڈر کو علمی جامہ پہنایا جاسکے ۔اگر ریاست پاکستان مخلص ہے، تو سب سے پہلے گلگت بلتستان کی آئینی اور قانونی حیثیت کو واضح کرنا ہوگا۔ ایک عبوری آئینی سیٹ اپ تشکیل دیا جائے جیسا کہ آزاد کشمیر میں موجود ہے، جس کے تحت گلگت بلتستان کو قومی شناخت دی جائے،وسائل پر مقامی کنٹرول اور شفاف معاہدے ہوں عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خودمختاری دی جائے اور پاکستان اور گلگت بلتستان کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ طے کیا جائے۔ جس میں وسائل کی تقسیم اور شراکت داری کا فارمولہ طے ہو ۔کیونکہ یہ معاملہ صرف وسائل کا نہیں، انسانوں کے بنیادی سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقوق کا ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی سنجیدگی نہ دکھائی، تو سوشل میڈیا پر ابھرنے والا نوجوان طبقہ ایک دن روایتی مزاحمت کے تمام دائرے توڑ سکتا ہے۔ پھر نہ صرف ریاستی رٹ خطرے میں ہوگی۔ جس سے یقیناً پاکستان دشمن عناصر فائدہ اٹھائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں