• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وقف بل اور ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل ایک تنقیدی جائزہ/ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

وقف بل اور ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل ایک تنقیدی جائزہ/ڈاکٹر مسلم یوسفزئی

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے وقف صدیوں سے نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی و معاشی زندگی کا اہم ستون رہا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت وقف کی گئی زمینیں اور جائیدادیں مساجد، مدرسوں، قبرستانوں اور دیگر رفاہی کاموں کے لیے وقف ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً چھ لاکھ ایکڑ سے زائد زمین وقف کے تحت رجسٹرڈ ہے جس کی مالیت ہزاروں کروڑ روپے بنتی ہے۔ یہ ادارہ مسلم معاشرے کی خودمختاری کا ایک اہم نشان ہے، لیکن حال ہی میں مرکزی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے “وقف (ترمیمی) بل 2022” نے اس خودمختاری پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ بل وقف کی زمینوں کو زیادہ موثر اور شفاف طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے ضروری تھا۔ بل کی رو سے ریاستی وقف بورڈز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی وقف جائیداد کو “عوامی مفاد” میں لے سکتے ہیں یا اسے لیز پر دے سکتے ہیں۔ دوسری جانب، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو وقف کے معاملات میں زیادہ مداخلت کا اختیار دیا گیا ہے۔ سرکاری موقف یہ ہے کہ یہ اقدام ترقیاتی منصوبوں کے لیے غیر استعمال شدہ زمینوں کو بروئے کار لانے میں معاون ثابت ہوگا، لیکن مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو یہ بل درحقیقت ایک خدشہ نظر آ رہا ہے۔

مسلمانوں کی تشویش بے بنیاد نہیں۔ آئین ہند کا آرٹیکل 26 ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی اداروں کو خود چلانے کا حق دیتا ہے، لیکن اس بل کے بعد وقف بورڈز پر حکومتی کنٹرول بڑھنے کا امکان ہے۔ کیا یہ اختیارات واقعی عوامی مفاد کے لیے استعمال ہوں گے، یا پھر ان کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی و سماجی اثرو رسوخ کو کمزور کرنا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر باشعور مسلمان کے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے۔ ماضی میں کئی ریاستوں میں وقف کی زمینیں غیرقانونی طور پر ہڑپ کی گئیں، اور اب یہ بل انہیں قانونی جواز فراہم کر سکتا ہے۔

دوسری طرف، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کئی وقف بورڈز نااہل اور کرپٹ انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہیں، جس کی وجہ سے وقف کی آمدنی کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا۔ اگر اس بل کے ذریعے شفافیت بڑھتی ہے اور غیر استعمال شدہ زمینوں کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو اس سے معاشرے کو فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت واقعی اس مقصد کے لیے مخلص ہے؟ کیا وقف کی زمینیں واقعی اسکولوں اور ہسپتالوں کے لیے استعمال ہوں گی، یا پھر انہیں کارپوریٹ گروپس کے حوالے کر دیا جائے گا؟

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں محتاط رہیں۔ صرف احتجاج کرنے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ انہیں تعمیری تجاویز بھی پیش کرنی چاہئیں۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وقف بورڈز کی خودمختاری برقرار رہے اور ان پر کسی خاص سیاسی جماعت کا کنٹرول نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ وقف کی آمدنی کو صرف مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جانا چاہیے۔ تیسری اور اہم بات یہ کہ مسلمانوں کو اپنے اندرونی اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا، تاکہ کوئی بیرونی طاقت ان کے مذہبی و سماجی نظام میں مداخلت نہ کر سکے۔

وقف صرف زمینوں کا نام نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی شناخت کا اہم حصہ ہے۔ اگر اس پر غیرضروری مداخلت ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی حقوق کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان خود اپنے وقف کے نظام کو درست کریں اور اس میں اصلاحات لائیں، تاکہ کوئی بیرونی طاقت انہیں کمزور نہ کر سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وقف بل پر بحث جاری رہنی چاہیے۔ مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ حکومت سے واضح ضمانتیں طلب کریں کہ وقف کی زمینوں کو صرف حقیقی عوامی مفاد کے منصوبوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اگر حکومت مخلص ہے تو اسے مسلمانوں کے خدشات دور کرنے چاہئیں۔ ورنہ، یہ بل ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک اور آزمائش ثابت ہو سکتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو  اتحاد، بیداری اور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، تاکہ  مذہبی اور سماجی حقوق محفوظ رہ سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply