ذوالفقار علی بھٹو منوں مٹی تلےدفن ہونے کے باوجود ابھی تک کیوں زندہ ہے؟ آج بھی لوگ بھٹو کے حق اور مخالفت اس طرح ہی گرم گرم بحث کرتے ھیں جس طرح بھٹو کی ذندگی میں کرتے تھے۔کچھ لوگوں نے بھٹو کے بعد بھٹو کی حمایت کر کے عروج حاصل کیا ۔کچھ لوگوں نے بھٹو کے بعد بھٹو کی مخالفت کر کے نام کمایا۔اس کا مطلب ہے بھٹو آج پھی بہت لاکھوں لوگوں کے دل میں ڈھڑکن بن کر ڈھرکتا ہے بھٹو آج بھی زندہ ہے آج اس کی وجہ کیا ہے ۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ھے غریب سے عشق
دنیا بھر کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی سیاستدان کے لیے جان نثار کرنے کا کا کوئی واقعہ اس طرح کا نہیں جیسا کے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے خود سازی کارکنوں نے خود سوزی کی ۔ذوالفقار علی بھٹو دنیا کا پہلا سیاسی لیڈر تھا جسکے عشق میں درجنوں کارکنوں نے خودسوزی کرلی ان کا تذکرہ ان کی قربانیوں کا ذکر کئے بغیر پیپلزپارٹی کی تاریخ نامکمل ہے۔ خود سوزی کرنے والوں میں چند نام عبدالرشید عاجز،اسلم لدھیانوی ،حنیف نارو، منور ، یعقوب مسیح -کیا پیپلز پارٹی کی تاریخ پھانسی کے پھندے کو چوم کر اپنے گلے میں ڈالنے والے لاہور کے محمد ادریس اور عثمان غنی بھکر کے رزاق جھرنا سندھ کے ایاز سموں بلوچستان کے حمید بلوچ کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے کبھی نہیں نہیں نہیں ۔ یہ لوگ کیوں بھٹو کے لیے خوشی خوشی موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوگۓ۔ کیونکہ بھٹو ان بے آسرا ان بے کسوں سے عشق کرتا تھا- ان سے عشق کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چوم کر امر ہو گیا-بھٹو کے دل میں یہ بے کس لوگ جس کو بھٹو نے آواز ، پہچان اور حق دیا ڈھرکن کی طرح بستے تھے۔بھٹو عوام سے جدائی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے -ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشید بیگم غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی انہوں نے خود کہا تھا کہ میری ماں کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا اور اُن کو دوسرے غریب لوگوں کی غربت بہت کھٹکتی تھی بھٹو کے والد سرشاہنواز بھٹو سندھ کے بڑے وڈیرے جاگیر دار تھے اور جونا گڑھ کے نواب کے وزیراعظم تھے، ذوالفقار علی بھٹو شہید کی غریب نوازی اور عوام دوستی اکتسابی نہیں جبّلی تھی- اُنہیں غریبوں سے محبت اپنی غریب ماں سے مامتا میں ملی تھی’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غریبوں سے بھٹوکی محبت ایک سیاسی چال ہے اُنہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھٹوکی ماں بہت غریب تھی-صدیوں سے غلامی کی زنجیروں سے جھکڑے ہوہے لوگوں ، صدیوں سے غلام بن غلام ابن غلام کو آزادی دلانے کے لیے قدرت نے ترس کھاتے ہوئے قسمت کی لکھیروں سے چرا کر بھٹو ہمیں تحفہ دیا۔جس کی ھم نے قدر نہیں کی۔وہ صدیوں کا بیٹا تھا وہ سقراط کا دوسرا جنم تھا۔ اس نے صدیوں کے کام سالوں میں کیے۔اس کا اہک ہی کارنامہ اس کے کوہ ہمالیہ سے بڑے کاموں پر حاوی تھا۔اپنا حق مانگنا بھٹو نے اپنے حق بآواز بلند مانگنا سکھایا اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا سکھایا
بھٹو صرف سیاستدان نہں تھے ایک دانشور بھی تھے پاکستان کے فلسفی اور پہلے وزیر اعظم بھی تھے جو 5 کتابوں کے مصنف ہیں۔
کتابوں کی تفصیل
1979 If I am assassinated
1969 The myth of independence
1 jan 1977 third world
1971 the great tragedy
1976 BILATERALISM: NEW DIRECTIONS
ذوالفقار علی بھٹو نے جن نامساعد حالات میں حکومت سنبھالی تھی ، پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ 1971کی جنگ کی وجہ سے پاکستان معاشی اور دفاعی طور پر تباہ حال اور سیاسی طور پر یک و تنہا تھا۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح نمو ، تاریخ کی کم ترین سطح 0.47 %فیصد پر تھی۔ بھٹو صاحب نے صرف ایک سال کی محنت و مشقت کے بعد پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی 7.06 %فیصد تک پہنچا دی تھی۔ ان کے پانچ سالہ دور حکومت میں جی ڈی پی کی اوسط شرح 4.12 % فیصد رہی تھی جو اس وقت برصغیر میں سب سے بہترین تھی۔
بھٹو دورحکومت میں پاکستان کی GDP بھارت سے بہتر ہوتی تھی-0 سے 7% فیصد تک-
بھٹو نے عام آدمی کو سوچ اور اظہار کا وہ گُر سکھایا کہ سیاست عوام کی خواہشات کے تابع ہو گئی اور محلوں والے جھونپڑیوں کے سامنے بھکاری بن کر کھڑے ہو گئے۔جب بھٹو نے قرار دیا کہ غریب کا مقدر صرف ٹھوکریں نہیں اصل میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ عوام کا بھٹو قائد ِعوام بن کر عوام کی خدمت میں مصروف ہوگیا۔ مساوات ، آزادی محروم طبقات کے حقوق کی جنگ میں عوام بھٹو بن گئے اور بھٹو خود عوام ہو گیا۔
بھٹو سے قبل سیاست معاشیت صرف 22 خاندانوں کے گرد گھومتی تھی۔بھٹو سیاست کو عام آدمی کی جھونپڑيوں میں لے آیا۔ اس نے کہا جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہیں۔ لیکن سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہیں۔ کوئی اس وقت تک عظیم نہں ہو سکتا جب تک عوام کے قدموں کے نچے مٹی کو چھو نہیں لیتا۔ اس کی ہر سانس عوام کی امانت تھی۔۔عوام سے جداہی کا تصور بھی بھٹو نہں کر سکتا تھا۔ عوام سے رومانس بھٹو کا اٹوٹ رشتہ تھا بھٹو کی زندگی تھی۔ اس نے 3 سالوں میں پاکستان کو اسلامی دنیا کا لیڈر ۔تیسری دینا کا رہبر بنا دیا۔یہی اس کی شہادت کا باعث بنا۔ ایک کرنسی تمام اسلامی دنیا کا منفرد آیڈیا تیل بطور ہتیار بھی شہادت کا باعث بنا-6 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ میں آینی عذرداری داخل کی اس میں لکھا کہ میں غلاموں اور نوکروں کا نماہندہ ہوں میں مفلوک الحال اور عوام کا نماہندہ ہوں۔تم پاکستان کو غرناطہ بنانا چاہتے ھو یا کربلا۔ میں ملک کے بھوکے ننگے اور بے گھر عوام کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کی کوشش کی ہے – عشق مں شرک اور محبت مں بے وفائی کی معافی نہیں ہوتی۔ محبت بھی روزے کی طرح ہوتی ہے ۔ بے وفائی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ بھٹو نے عوام سے عشق یا ور جواب میں عشق کی انتہا کر دی۔ بھٹو کا روزہ اس کی شہادت تک قایم ہے۔ بھٹو جیسے وفادار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ صدیوں کا بیٹا تھا ۔ وہ غریب ماں کا عظیم بیٹا تھا۔ اس کا عوام سے عشق پھانسی کا پھندا بھی نہیں چھین سکا-
جو شخص دوسروں کے لیے سُولی پر چڑھ جائے، اس سے عشق نہ کیا جائے تو کتنی کم ظرفی ہوگی۔ سولیوں پر چڑھنے والے انقلابیوں سے عشق کرنا بہادری ہے، بزدلی نہیں بھٹو اور سقراط کے آخری لحمے ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ بھٹو نے بھی پھانسی سے قبل کہا تھا میں خوبصورت چہرے کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا چاہتاہوں۔ سقراط نے بھی زیر پینے کے بعد کہا میری موت کو بدصورت نہ کرنا میں بہادری کے ساتھ مرناچاہتا ہو ں ۔موجودہ دور کا سقراط بھٹو ہے
درداں دی ماری دلڑی علیل ہے
راولپنڈی جیل میں موت کی کوٹھڑی میں بھٹو نے پاکستان کے عوام سے اپنا عہد مرنے سے پہلے۔ یوں بیان کیا کہ پاکستان کے عوام سے میرا عشق میری روح کا ہے اور یہ میرا ایک ناقابل تنسیخ ورثہ ہے۔ میرا خون پاکستان کی زندگی کے ساتھ دوڑتا ہے میں اس کی خاک اور خوشبو کا حصہ ہوں۔ لوگوں کے دکھوں میں میں ان کی آنکھوں سے بہتا ہوں اور جب وہ مسکراتے ہیں تو ان کے چہروں سے چمکتا ہوں۔ دریا اپنی روانی بدل سکتے ہیں لیکن میں یہ سب نہیں چھوڑ سکتا۔

بشکریہ فیسبک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں