ہراسگی یا ہراساں کرنا/شہناز احد

ہمارے سماجی ڈھانچے میں گزشتہ چند سالوں کے دوران عام بول چال کی زبان میں جن چند نئی اصطلاحات کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ہراسانی، ہراساں کرنا،ذہنی تشدد جیسی اصطلاحات اب ہماری روز مرہ کی زبان کا مکمل حصہ بن چکی ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ان اصطلاحات کا استمعال زیادہ تر انگریزی کے الفاظ میں ہوتا ہے۔ جیسے sexual harassment,mental harassment,oral harassment etc.
ہم جس دور میں زندہ ہیں اور ہمارا معاشرتی نظام جن خطوط پر چل رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک مردانہ معاشرہ ہے۔ جہاں ہر مرد چار شادیوں اور وہ بھی سولہ سالہ لڑکیوں کے سنگ کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے۔ خواہ وہ خود ساٹھ سال ہی کا کیوں نہ ہو۔ وہ اپنی عمر کے ہر دور میں ہر عمر کی حوا کی بیٹی پر گرے سا گرا جملہ کہنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
جس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سیاستدان، ہماری اسمبلیاں اور ہماری سینٹ ہے۔
اور اس سے بھی دکھ کی بات وہ خواتین ہیں جو اپنی ہم جنسوں کے بارے میں گھٹیا الفاظ سنتی ہیں اور مسکرا کے سر جھکا لیتی ہیں۔ اگر ایک بار بھی وہ اپنے اندر ایوان میں کھڑے ہوکے مذمت کرنے کی اخلاقی جرات پیدا کرلیں تو شاید ان بدزبان مردوں کو غیرت آجاۓ۔
بچیوں ، لڑکیوں اور خواتین کو زبانی ، کلامی اس ہراسیگی کا سامنا زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ اس ہراسانی کی اشکال بدلتی رہتی ہیں لیکن اس کا وجود برقرار رہتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ہراسیگی شکلیں بدل بدل کے آج زیادہ مضبوط اور عام ہوگئی ہے۔

آج جب کہ اکیسویں صدی کا چوتھائی حصہ مکمل ہونے کوہے۔ ہمارے اس مردانہ معاشرے میں صنف مردانہ کسی بھی عمر کی بچی ، لڑکی یا عورت کو ہاتھ لگانے، فحش گیت گنگنانا ، گھٹیاجملہ کہنے کی یہ ذہنی آوارگی یا ذہنی عیاشی خوب دل کھول کے ہر جگہ کر رہے ہوتے ہیں۔ موقع محل کے حساب سے ان کی ہراسانی کا طریقہ واردات البتہ بدلتا رہتاہے۔ فیکٹریوں، چھوٹے دفاتر میں کام کرنے والی لڑکیوں کو آوارہ مرد شادی کا جھانسہ دے کر پھانستے ہیں، دفاتر میں اسی نسل کے مرد ترقی کے خواب دکھا رہے ہوتے ہیں،تعلیمی اور پروفیشنل ادروں میں کامیابی، بہت اچھی کامیابی کے رنگ دکھاۓ جاتے ہیں۔

یوں تو بچیوں ، لڑکیوں کو ہراسیگی یا ہراسانی کاسامنا اپنے گھروں سے لے کے مسجد کے منبر تک ہر جگہ ہے۔اور اس ہراسانی کی اتنی اقسام ہیں کہ میں انھیں بیان کرنے لگی تو اصل موضوع سے بہت دور نکل جاؤنگی اور شاید موضوع کو سنبھال بھی نہ سکوں۔

ہم سب اس بات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ مخلوط اداروں میں کام کرنے، پڑھنے،اُٹھنے، بیٹھنے والیوں کو اپنے ماحول کو متوازن اور مناسب رکھنے کے لئے ساتھ کام کرنے، اُٹھنے، بیٹھنے والے صنف مخالف کی بہت سی باتوں کو برداشت اور نظر انداز کرنا پڑتا ہے جن کے دماغ میں شیطان ہوتا ہے۔

سُن کے اَن سنا بننے کی اداکاری کرنی پڑتی ہے،کندھا چھونے، ہاتھ لگانے جیسے اقدام پر یہ ظاہر کرنا پڑتا ہےکہ آپ کو اس عمل کا احساس نہیں ہوا۔ آپ کا لباس بہت اچھا ہے، یہ رنگ تو لگتا ہے آپ ہی کے لئے بنا ہے، لپ اسٹک کا شیڈ تو غضب ڈھا رہا ہے،اُف پرفیوم کی خوشبو نے تو پاگل کردیا، تم ٹراؤزر ہی پہنا کرو،
چلو چاۓپیتے ہیں، لنچ کرنا ہے تو کمرے میں آجاؤ، امتحان کی تیاری کیسی جارہی ہے، مدد لے سکتی ہو وغیرہ وغیرہ

ان تمام معصوم جملوں میں بظاہر نہ تو راکٹ پھنسا ہے نہ ہی بم بندھا ہے لیکن کہنے والے اور سننے والے خوب جانتے ہیں کہ ان باتوں کا مطلب کیا ہے۔ اس نوعیت کے جملے کہنے والےاتنے ڈھیٹ ہوجاتے ہیں کہ صنف مخالف کی خاموشی اور نظراندازی کو رضامندی سمجھتے ہوۓ دست درازی سے بھی باز نہیں آتے۔
اور اس صورت حال میں ناکامی یا منہ کی کھانی  پڑ جاۓ تو وہ صنف مخالف کی کردار کشی پر کمر کس لیتے ہیں۔

میں نےہراسگی اور ہراسانی سے متعلق اتنی لمبی تمہید اس لئے باندھی ہے کہ کراچی کا سب سے بڑا ہسپتال جسے جناح ہسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج کل ہراسگی کے ایک ایسے ہی واقعے سے گزر رہا ہے۔

جناح ہسپتال کے شعبہ یورولوجی کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد علی نے چند ماہ قبل اپنے شعبے میں زیر تربیت ایک ڈاکٹر کو پہلے تفریح کے کچھ پیغامات بھیجے بعد ازاں ایک رات دیر گۓ موصوف وارڈ میں آۓ اور اس ڈاکٹر کو مریضوں کی فائل کے ساتھ کمرے میں بلایا اور دست درازی کرنے کی کوشش کی۔ متعلقہ ڈاکٹر نا صرف گھبرا کے باہر نکل گئی ،اس نے ساتھی ڈاکٹروں کو تمام واقعہ بھی من وعن بتادیا۔
ہسپتال میں موجود نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوۓ اس واقعہ کی تحقیقات ، ڈاکٹر کی بر طرفی کا مطالبہ کیا۔
مفادات کی چین میں بندھی ہسپتال انتظامیہ نے وقتی طور پر ڈاکٹر شہزاد کو وارڈ میں آنے سے روک دیا لیکن وہ ہسپتال سے متعلقہ میڈیکل کالج میں برابر تشریف لا رہے ہیں۔

ہمارے ہسپتالوں کی زندگی میں یہ کوئی پہلا واقعہ یا حادثہ نہیں ہے۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ ، حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے اس قسم کے واقعات کا اتنا رگ مرول بناتی ہے کہ واقعہ کو پھپھوند لگنے لگتی ہے،متاثرین واقعہ دوڑتے دوڑتے تھکنے لگتے ہیں۔

اس کی کتنی ہی مثالیں اندرون سندھ میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والی بچیوں کی اموات کی شکل میں موجود ہیں۔

معاشرہ ، قانونی ادارے، سماجی تنظیمیں سب بھول گئیں کہ ان واقعات کا انجام کیا ہوا۔

ڈاکٹر شہزاد علی کے وارڈ کا بھی یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ موصوف اس سے قبل بھی اس نوعیت کے کارنامے انجام دیتے رہے ہیں۔ بس اس بار بازی پلٹ گئی ہے۔

اس واقعہ کی مضبوطی کا سب سے اہم کردار اس لیڈی ڈاکٹر کے اہل خانہ  کا ہے
جو نہ صرف اپنی بچی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں انھوں نے ہراسانی کے اس واقعے کو انجام تک پہنچانے کا عہد بھی کیا ہوا ہے۔

میرے خیال میں یہاں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ حکومت سندھ اور اس کے محکمہ صحت کا کردار اس نوعیت کے واقعات میں ہمیشہ زیرو ہوتا ہے۔

ڈاکٹر موصوف خود کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے اس واقعہ کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بہت ہی افسوس اور دکھ کے ساتھ مجھے یہ بھی لکھنا پڑ رہا ہے کہ ڈاکٹر شہزاد کی زوجہ محترمہ بھی شوہر کو معصوم ظاہر کرنے کے لئے اس بچی کی کردار کشی میں پیش پیش ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم سب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم سب کے دائیں، بائیں، دور نزدیک بچیاں لڑکیاں ہیں۔
اور بچیاں لڑکیاں تو سانجھی ہوتی ہیں، ان کے دکھ درد، ان کی عزت عصمت،ان کی مسکراہٹیں ، سب سانجھے ہوتے ہیں۔
ان کو دکھ دے کہ کوئی کیسے سکون سے رہ سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply