سچائی کی گونج/ یوسف خان

پاکستانی سیاست کے افق پر مولانا فضل الرحمٰن ایک ایسا درخشندہ ستارہ ہیں، جس کی روشنی فہم و فراست، تدبر و حکمت اور اصول پرستی سے منور ہے۔ وہ ایک ایسے سیاستدان ہیں، جو محض الفاظ کے جادوگر نہیں، بلکہ اپنی حکمت عملی سے تاریخ کے صفحات پر ناقابلِ فراموش نقوش ثبت کر چکے ہیں۔ ایوانِ اقتدار ہو یا میدانِ سیاست، ان کی موجودگی ہمیشہ ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ ان کی بے باک گفتار، دوٹوک مؤقف، اور نظریاتی استقامت ہی ان کی سیاست کی پہچان ہے۔

مولانا کی سیاسی بصیرت پر مبنی فیصلے اس امر کے شاہد ہیں کہ انہوں نے جمعیت علماء اسلام کے نظریے اور اس کے مقصد کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیا۔ وہ پاکستانی سیاست کی وہ بلند قامت شخصیت ہیں، جو داخلی سیاست کی پیچیدگیوں، خارجہ پالیسی کے نشیب و فراز، دہشت گردی کے مضمرات اور ریاستی امور کی نزاکتوں پر نہایت گہری نگاہ رکھتے ہیں۔

حال ہی میں ابصار عالم کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کا ایک انٹرویو منعقد ہوا، جو محض سوال و جواب کی ایک رسمی نشست نہ تھی، بلکہ اس میں مولانا کے طویل سیاسی تجربے کی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ ان کے الفاظ میں سچائی کی گونج تھی، جو ایک مدبر سیاستدان کی بصیرت کا آئینہ دار تھی۔

جب ملک میں جاری دہشت گردی پر گفتگو ہوئی تو مولانا نے اس مسئلے کی تاریخی جڑوں کو نہایت واضح انداز میں بیان کیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو پاکستان نے اپنی ریاستی پالیسی کے تحت ایک مخصوص بیانیہ اختیار کیا، مجاہدین   کی تربیت کی گئی، اور انہیں عالمی سطح پر مزاحمت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا، پاکستان نے اپنی پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا۔

یہاں مولانا نے وہ بنیادی تضاد بے نقاب کیا جو پاکستانی ریاستی بیانیے میں در آیا،جب روس کے خلاف لڑنے کو جہاد  کہا گیا، تو پھر امریکہ کے خلاف لڑنے والے دہشت گرد کیسے قرار پائے؟ اس اچانک تبدیلی نے عام پاکستانی کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا، اور یہی وہ لمحہ تھا جب ریاستی مؤقف اپنی قوتِ استدلال کھو بیٹھا۔ مولانا کے بقول، اصل مسئلہ یہی ہے کہ پاکستان میں ریاستی پالیسی میں استحکام کا فقدان ہے۔ کبھی جنگ کا اعلان ہوتا ہے، تو کبھی امن کی بات کی جاتی ہے، اور یہی عدم تسلسل ریاستی کمزوری کی سب سے بڑی علامت ہے۔

ابصار عالم نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردی کی فضا میں علمائے کرام کو ہی کیوں مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اس پر قائدِ جمعیت نے ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ انہی علمائے کرام کو راستے سے ہٹایا جا رہا ہے، جنہوں نے ہمیشہ اعتدال پسندی اور صلح کا درس دیا۔

مولانا حسن جان شہید، مولانا نور محمد، مولانا معراج الدین، اور دیگر سینکڑوں جید علماء کی شہادتیں اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان انہی علماء کا ہوا، جو نہ ریاستی جبر کے قائل تھے اور نہ ہی انتہا پسندی کے۔ مولانا نے کہا:

“علمائے کرام کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ اعتدال کی راہ دکھاتے ہیں۔ وہ نہ شدت پسندی کے حامی ہیں اور نہ ہی مغربی بیانیے کے تابع، اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہر فریق کو کھٹکتی ہے۔”

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر تاریخ کبھی خاموش نہیں رہ سکتی، کیونکہ علمائے کرام نے ہمیشہ توازن و تحمل کا پیغام دیا اور ہر قسم کی انتہا پسندی کی مخالفت کی ہے۔

ملک میں جاری سیاسی بے یقینی اور اسٹیبلشمنٹ کے دوغلے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ اقتدار میں کون ہے اور اپوزیشن کون کر رہا ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار کس کے پاس ہے؟

“ہم سیاستدان ایوان کے اندر ہوں یا باہر، ایک دوسرے کے گریبان چاک کرنے  میں مصروف رہتے ہیں، جبکہ اصل فیصلے کہیں اور کیے جا رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے والوں کو بھی مینج کیا جاتا ہے، اور اپوزیشن میں بیٹھنے والوں کو بھی۔ ان حالات میں کیا موجودہ سیٹ اپ کو عوامی نمائندگی کا نظام کہا جا سکتا ہے؟”

یہ وہ تلخ سچائی ہے جسے سننے کو کوئی تیار نہیں، لیکن یہی پاکستان کی سیاست کا سب سے بڑا نوحہ ہے۔ایک ایسا نوحہ جو ہر عہد میں گونجتا رہا ہے، مگر جسے سننے والا کوئی نہیں۔

بلوچستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے ایک نہایت سنجیدہ مؤقف اختیار کیا۔

“جب کوئی علاقہ چالیس پچاس برس تک مسلسل جنگ میں جلتا رہے تو یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ وہاں جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر افغانستان اپنی وحدت برقرار رکھ سکتا ہے، تو ہم کیوں کمزور ہوتے جا رہے ہیں؟ ہماری ریاست کی رٹ دن بدن کیوں کمزور پڑ رہی ہے، اور اگر ہم نے جلدی فیصلہ نہ کیا، تو بہت دیر ہو جائے گی۔”

یہ الفاظ محض ایک تجزیہ نہیں، بلکہ ایک تجربہ کار سیاستدان کی طرف سے ایک سنگین وارننگ ہیں مولانا وہ شخصیت ہیں جو حالات کو نہایت قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور جو جانتے ہیں کہ اگر آگ پھیل جائے تو اسے بجھانا آسان نہیں ہوتا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا یہ انٹرویو محض سیاسی گفتگو نہیں، بلکہ پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کو سمجھنے کے لیے ایک فکری رہنمائی ہے یہ ایک ایسی آواز ہے جو مصلحت کی زنجیروں سے آزاد ہو کر سچائی کا علم بلند کر رہی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کا محور ہمیشہ ایک ہی رہا،بردباری، حکمت، اور استقامت۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاست میں ان تینوں چیزوں کے لیے کوئی جگہ باقی بچی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی وہ سوال ہے جس کا جواب وقت ہی دے گا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply