کراچی کے باسیوں کے بجلی کے بلوں میں شامل ہر ماہ کی 50 روپے کی ٹی وی لائسنس فیس کا کیا جواز ہے؟
یہ سوال آج کل کے ڈیجیٹل دور میں اور بھی گمبھیر ہوچکا ہے، جب سیٹلائٹ، کیبل، اور یہاں تک کہ روایتی ٹی وی بھی ماضی بن گیا ہے۔ آج ہر گھر میں انٹرنیٹ کی بنیاد پر سٹریمنگ سروسز، اسمارٹ ٹی وی، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا راج ہے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کے الیکٹرک نام کی ایک نجی کمپنی عوام سے ٹی وی لائسنس کے نام پر ماہانہ کروڑوں روپے وصول کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیس آخر کس قانونی یا اخلاقی بنیاد پر عائد کی جاتی ہے؟ اور یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟
دیکھا جائے تو ٹی وی لائسنس فیس کی تاریخ دراصل ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ابتدائی دور سے جُڑی ہے، جب حکومتیں اسے عوامی نشریات کے فنڈز کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ مگر کراچی میں یہ فیس آج بھی ایک پراسرار ٹیکس کی صورت میں موجود ہے، حالانکہ دنیا بھر میں یہ نظام ختم ہوچکا ہے۔ کراچی کے عوام اس فیس کا الیکٹرک کے ذریعے وصول کرنا اور حکومت نیپرا کی خاموشی اپنی نوعیت کا منفرد اور سوالیہ نشان ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کا ٹی وی لائسنس سے کیا تعلق؟ حالانکہ یہ کمپنی کراچی کے عوام کو بجلی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اور ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس شہر کے شہری بدترین لوڈ شیڈنگ برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ پچاس روپے فی بل شاید ایک انفرادی سطح پر معمولی رقم لگے، لیکن کراچی جیسے 2 کروڑ سے زائد آبادی کے شہر میں یہ ماہانہ 10 کروڑ روپے سے زیادہ اور سالانہ 120 کروڑ روپے بنتی ہے۔ یہ اندازہ محض موجودہ شرح کے حساب سے ہے، جبکہ گزشتہ دہائیوں میں یہ رقم اور بھی زیادہ رہی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ یہ خطیر رقم کس ٹی وی لائسنس کے نام پر جمع کی جارہی ہے؟ کیا کے پی کے کے علاوہ کسی اور صوبے یا شہر میں یہ فیس عائد ہے؟ اگر نہیں، تو پھر کراچی کے شہریوں کو ہی اس ٹیکس کا ہدف کیوں بنایا گیا ہے؟
اس حوالے سے پہلی بار گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں سوال اٹھایا گیا، مگر جواب میں خاموشی یا الجھے ہوئے بیانات کے سوا کچھ نہیں ملا۔ حکومت کے پاس نہ تو یہ بتانے کا کوئی میکانزم ہے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہورہی ہے، نہ ہی اس کے خاتمے کا کوئی لائحہ عمل۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک نجی کمپنی عوامی فنڈز اکٹھے کرے اور کسی کو جوابدہ نہ ہو؟ کیا یہ ریاستی اداروں کی ناکامی نہیں کہ وہ عوام کے پیسے کی نگرانی کرنے سے قاصر ہیں؟ یہ معاملہ محض پچاس روپے کا نہیں، بلکہ اصولوں کا ہے۔ اگر یہ فیس غیرقانونی ہے، تو سالوں سے وصول کی جانے والی رقم کا حساب کون دے گا؟ اگر قانونی ہے، تو پھر اس کا جواز اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت کیا ہے؟ کیا کبھی کسی عدالت یا پارلیمنٹ نے اس کی توثیق کی؟ ان سوالات کے جوابات نہ ہونا دراصل عوامی دولت کی لوٹ مار کی سب سے بڑی علامت ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری اس معاملے پر آواز بلند کریں۔ سول سوسائٹی، میڈیا، اور سیاسی جماعتیں اس پر بحث کا آغاز کریں۔ عدلیہ کو ازخود نوٹس لے کر اس رقم کے مصرف اور قانونی حیثیت کی وضاحت طلب کرنی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر، کے الیکٹرک کو چاہیے کہ وہ عوام کے سامنے شفافیت سے کام لے اور یا تو یہ فیس فوری ختم کرے، یا پھر اس کی وصولی کا قانونی جواز پیش کرے۔ کیونکہ پچاس روپے کی یہ فیس دراصل پاکستان خاص طور پر صوبہ سندھ کر دارالخلافہ کراچی میں بدانتظامی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ جب تک عوام اپنے حقوق کے لیے جاگ نہیں جاتی، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ یاد رکھیں، ہر روپے کی واپسی ممکن ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خاموشی توڑیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں