بھلے وقتوں میں کسی نے اُلانگتے پھلانگتے ککو کی نکّی پر لِسّا ماڑا چاند چڑھتے دیکھ لیا تو با آواز بلند پارے ڈھاکے والوں کو خبر کردی ۔ اُنہوں نے ڈھٹّھے کھُو والوں تک بَھنڈی سرکا دی ۔ یوں منہ و منہ خبر پھیلتی چلی گئی۔ تاہم کوئی نہ کوئی جنگل بیلا ، ڈھاکا ٹھہرا رہ ہی جاتاتھا۔ اب بَھنڈی ڈالنے کے نت نئے آلات ایجاد ہو چکے ہیں ۔ بادلوں سے اوپر کوئی نیا چنّ چڑھنے کی سوچتا بعد میں ہے ، رویت ہلال کمیٹیاں چاپڑ ڈھا کر بیٹھ پہلے جاتی ہیں ۔۔
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیرہمیں اٹھائے کیوں؟
کرلوجو کرنا ہے۔ کئی کئی تکڑی رویت ہلال کمیٹیاں یہاں وہاں تھاں تھاں ملک کی بلند ترین عمارتوں پر جدید ترین ٹی وی کیمروں کے روبرو دور بینیں تان کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور اک دوجے کے چاند پر شک کے داغ داغنے لگتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو مارشل لا ءکے موسم کے سوا کبھی ملک میں ایک چاند چڑھا نہ ایک عید برپا ہوئی ہے۔ادھر لہور میں دور بینوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈلی ہیں ، اُدھر پشور میں خوردبینوں کے کُندے پِیڑے پڑے ہیں ۔ جس نے پہلے پٹاخہ پھوڑا وہی جیتا۔ اتفاق سے امسال بھی ملک مارشل لاء سے محروم ہے۔ چنانچہ “اخپل بندوبست ” کے تحت بیگم کا متروک کنٹھا بطور تسبیح تان کر ہم بھی گھر کی چھت پر اپنی الگ رویت ہلال جما کربیٹھ رہے ۔ نیچے کچن سے بیگم کی سرپرستی مسلسل اُبل رہی تھی۔۔ “سامنے والوں کی چھت پر چڑھے چاند کو ہاتھ کے چھجےکی اوٹ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ عید اور دید دونوں حرام ہو جاتی ہیں۔ پھرکرنی خدا کی کہ سیڑھیوں سے پھسل کر چنگا بھلا بندہ چار ماہ کے لئے پلسترائے پڑا، ہِنگے ہِنگے کرتا رہتا ہے۔”
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
مرگوں پر “ابّا پکنے ” سے لےکر پڑوسی کی کُتّے کھنگ جگنے تک کسی طرف سے خیر کی کوئی خبر نہیں آئی۔ ٹی وی پر بھی کمیٹی کے بڑے بڑے بقلم خود تین تین منزلہ ٹوپیوں سے اپنا قد بُت بلند تر کئے بیٹھے تھے ۔طاقتور ترین دُور بینوں کی بینائیاں بھی “تِرمِرے” اور چپّہ چپّہ “جھانولے”(پرچھائیاں) دکھا رہی تھیں۔کہیں سے خیر کی کوئی خبر نہیں آ رہی تھی۔ تنگ آ کر بیگم جان نے موبائل کے ذریعہ نوید سنائی کہ وہ سونے جا رہی ہیں ، ہم بھلے کوئی نیا چاند چڑھا کرہی کوٹھے سے اُتریں ۔ وما علینا الا البلاغ المبین ۔ جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ ہم چھت پر ہی مورچہ بند رہیں ۔ اور تب تلک محاذ پر ڈٹے رہیں جب تک چاند کی کوئی اک دوئی ہو نہیں جاتی۔ ہم اپنے مورچے سے نرسل کی کھونٹی کے ذریعہ نوزائیدہ چاند کو دھرو کر بیگم کے قدموں میں لا ڈالنے کا عزم صمیم کئے ہوئے تھے ۔ عزم کسی وجہ سے کچھ زیادہ ہی باٹا ساٹا ہو گیا۔ جس کے نتیجہ میں کچّے چاند کی نوکیں ٹوٹ گئیں ۔ یعنی چاند کھنڈا ہو گیا ۔ (ہماری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے کی ضرورت نہیں، راستے میں حائل کسی بیگ بیگانی “مِلکی وے” سے ٹھیل ٹکّر کے نتیجہ میں نوزائیدہ چاند کھنڈا ہوا ہو گا۔اپن کا کوئی دوش نہیں۔ تاہم اُدھر اپنے وطن مالوف راولاکوٹ میں ایسے ایسے مستری پائے جاتے ہیں جو ہوا کی لہروں کو بھی ٹانکے لگا کر شیشے میں اُتار دیتے ہیں ۔ لیکن رمضان کے چاند کے باب میں وہ بھی ہم پر ہی شک کی نطر رکھ رہے تھے ۔ بیگم کے موُڈ کے پیشِ نظر ہم نے رویت ہلال کمیٹی کے متوازی ذاتی کمپنی کھڑی کی اور فوراً اس کا جلسہ کھڑکا ڈالا۔ موسم بھی موزوں تھا اور ہمارے حوصلے بھی قدرے جواں ۔ ہم نے ساڑھے تین ڈانگ لمبی دوربین تانی تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے “ککو کی نَکّی” عملا” ڈھونگی پھیر کر بیٹھی تھی ۔ معلوم ہوا سِٹھنیاں گانے پر وہ مقامی”لاہڑیوں” سے خفا تھی۔:”لاہڑپاہڑیاں کہیں کی”۔ من کیا بیچ میں پڑ کر صلاح صفائی کرا ہی ڈالیں لیکن ٹھیک اسی وقت بیگم گُڑکیں ، چمکیں۔۔ : “کیا ہوا ؟، بقدم خود چاند پکڑ لانے ٹُر پڑے ہو کیا؟؟؟”

ہم ہڑبڑا گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اُوپر سے برف کی گگّی، نیچے کُہرےکا کہرام ۔ سیدھا سادا اللہ میاں کا بندہ جائے تو کہاں جائے۔ سوچا ، سمجھا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ “ڈو ایز دی رومن ڈوُ”۔ لیکن رومن کیسے کرتے ہیں ؟ کِس سے پوچھیں۔؟؟۔ وہ تو چاند پر تھوکتے تک نہیں ۔ بھلا ہو اپنے پیر و مُرشد عطا الحق قاسمی کا،کہ یاد آگئے۔ پوچھا عید کے چھوٹے موٹے آسمانی چاند کو کیسے گرفتارِ بلا کرتے ہیں؟۔سگریٹ کے کش سے روزہ افطار کرتے ہوئے فرمایا ، ” پہلے تو چاند کو دانہ ڈالو،چُگ گیا تو چنگو چنگا، بصورت دیگر ڈھنگا ڈالو۔ گھر میں اپنے”دادا بھائی” کا ترِنگل، درانتی،کلہاڑا اور “بدّر”(ربر؟) نمائش کے لئے دھر رکھا ہے کیا ؟۔ جنے کا پُتر بنو اور “ہل للّ لا” کر کے پڑ جاوء “۔ ہمیں پڑ جانا تو کچھ کچھ آتا ہے لیکن “ہل للّ لا”کرنے کا ہُنر نہیں آتا۔بولے “اتنا سا کام نہیں آتا تو پنگے کس برتے پر لیتے ہو۔۔؟” ۔ اتنا کہہ کر پیر و مُرشد نے لمبا سوُٹا مارا، پرانے زمانے کی ریل گاڑی جتنا دھواں چھوڑا اور اسی دھویں میں غائب ہو گئے۔ آنکھیں مَل کر دیکھا تو ریل گاڑی “پھجّڑ کا ٹیشن ” بھی پارچکی تھی۔ ہم نے دوڑ لگائی اور “پارے ڈھاکے” سے پہلے پہلے پٹڑی پر پٹاخہ نصب کر دکھایا۔ اُدھر ریل گاڑی کا ڈرائیور بھی کوئی اُستاد گتّوُ نکلا ۔۔ ایسا لمبا ہارن بجایا جس سے بے بوُجھ کے کان بھی کھڑے ہو گئے۔ ایک زور دار دھماکا ہوا ۔اور ہم دوُر بین سے بچھڑ کر نجانے کیسے الف ننگے گراونڈ فلور پر “بے رِتھیا”(بے یار و مدد گار) پڑے تھے۔اس سے آگے کی ہم سے متی پوچھیں۔ بس اتتنی سی گذارش ہے کہ دھرتی پر رہیں ، پرائے چاند ستاروں پر ہاتھ نہ ڈالیں۔۔ بیگانے نظامِ “فلکی ” کو چلنے دیں۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں