پیارے شاعر، نگاہ ِمہر آشنا، آشنائے رموز شعر و ادب عالیہ،
نظارہ ِچمن ِناآفریدہ، گلہ گزارِ زمانہ کہاں رہ گئی وہ رنگین شام جو اب ایک پھانس کی طرح اب حلقوم ِذبیحہ میں اٹکی ہوئی ہے۔ وہ شام کا دھندلکا جب ہم تم ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے تھے اب بھی یاد آتا ہے اور بزبان ِخموشی یادوں کا سلسلہ آغاز ہو جاتا ہے۔ وہ خوشی کے آنسو بھی بھلائے نہیں جا سکتے جو تمہاری چشمِ نم سے ابھرتے چلے آ رہے تھے اور رکے بھی تو اس وقت جب عرض کیا کہ صحرا نورد ِجدید تم سے رابطہ کبھی نہ توڑے گا اور گاہے ماہے خط کے ذریعے آدھی ملاقات ہوتی رہے گی۔
امید ہے تم خیریت سے ہو گے مگر زیادہ امید یہی ہے کہ تم مجھ سے خفا ہی ہو گے۔تمہیں معلوم ہے کہ ہم دونوں نے شاعری کا “یکدم” آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔کیا زمانہ تھا کہ ہماری آپس میں گہری چھنتی تھی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے۔وقت بدلا اور ہماری راہیں جدا ہوتی چلی گئیں۔سچ مانیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔تمہیں یاد ہے کہ تم نے مجھے شعر کہنے کا ایک خفیہ طریقہ بتایا تھا مگر میں بھی اپنی ہٹ کے پکا نکلا اور آج عالم یہ ہے کہ خود مجھے تمہاری دنیا سے نکلنا پڑا۔تم نے آخری بار مجھے کہا تھا کہ” دیکھنا چند سالوں میں میرا ذکر فیض اور فراز کی جگہ پر ہو رہا ہو گا۔لوگ باگ ان دونوں کو بھول چکے ہوں گے۔ویسے میرا دل کہتا ہے کہ آدھے لوگ تو ان کو بھول چکے ہیں اب آدھے ہی رہ گئے ہیں”۔
اور ایک زمانہ تھا کہ ہم دونوں غالب کے قتیل تھے اور
نالہ تا گم نکند راہِ لب از ظلمتِ غم
جاں چراغیست کہ بر راہگذر داشتہ ایم
اور ہم ایسے شعر گنگناتے تھے۔
(ترجمہ: ہم نے زندگی کو چراغ بنا کر راہگذر میں رکھ دیا ہے۔ غم کے اندھیرے میں ہماری فریاد دل سے لب تک آتے ہوئے راستہ نہ بھول جائے۔)
یاد ہے میں نے بتایا تھا کہ یہ ترجمہ صوفی غلام مصطفیٰ کا کیا ہوا ہے اور تم نے ناک بھوں چڑھاتے کہا تھا کہ ہوش کے ناخن لو اور ایسے ناکارہ لوگوں کو سر پر نہ چڑھاؤ۔بس کافی ہے کہ غالب کا شعر ہے، اتنا بتا دینا اور کہنا ہی کافی ہے۔ ویسے اس بڈھے کا نام لینا بھی ضروری نہیں اور اس کی شاعری کا ذکر اذکار بھی اپنی زبان سے دور رکھو۔جب بھی غالب کا ذکر آئے تو اتنا کہنا کافی ہے ہاں ہاں وہی مزاحیہ خطوط والا غالب۔اور اگر اس کے خطوط مزاحیہ نہیں بھی تو نوآموز شاعر کا دھیان اس کی شاعری کی طرف نہیں جائے گا۔مزید براں مرید ِہندی کی اصطلاح بھی تم نے رواج دینے کی سعی ِمشکور کی تھی۔جب میں نے مرید ِہندی کی بجائے شاعر ِمشرق کہا تو تم ہی تھے جس نے کہا تھا کہ اس کی فارسی شاعری کا ذکر کیا کرو تا کہ مرید ِہندی کی اردو شاعری ہماری شاعری کے مقابلے میں کھڑی نہ ہو سکے۔
میں نے اس قسم کی باتوں سے تنگ آ کر صحرا کی طرف نکلنے کا ارادہ کر لیا تھا۔میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ شاعری چھوڑ کر نثر کے میدان میں طبع آزمائی کروں اور شاعری کا میدان تمہارے لیے رہنے دوں۔تم نے میری اس تجویز پر فوراً آمنا و صدقنا کہا اور میری کامیابی کے لیے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے۔جب میں نے تم سے پوچھا کہ نثر کے میدان میں کس شعبہ کا انتخاب کروں تو تم نے بلاتامل تنقید کا میدان منتخب کرنے کا مشورہ دیا۔ابھی میں شش و پنج میں ہی تھا کہ تنقید کے لیے تو بہت مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت ساری کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں تو تم نے کہا تھا کہ تمہارا ایک شعر کئی کتابوں پر بھاری ہے۔بس بسم اللہ کرو اور مجھی پر پہلا مضمون لکھ کر ادب کے تالاب میں پتھر پھینک دو۔وہ دن اور آج کا دن ہے کہ ایک وحشت ہے جس کی تاب لانے کی مجھ میں سکت نہیں ہے۔
پہلے میں سمجھا کہ شاید تمہیں میرا امتحان مقصود ہے مگر میرا اس وقت دل ڈوبنے لگا جب تم نے کچی پنسل سے لکھے کاغذات کا ڈھیر میرے سامنے رکھ دیا۔میں نے انجانا سا بن کر ان کاغذات کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا تو تم نے خود پر ایسی علمی سنجیدگی طاری کر لی کہ توبہ ہی بھلی۔ وہ آخری گھڑی میں کبھی نہیں بھول سکتا جب تم نے اسی سنجیدگی سے کہا ادب ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے اپنے ٹوٹے پلنگ کے بچھونے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
میں نے اپنی خیریت تو بتا دی مگر تف ہے مجھ پر کہ تم سے ابھی تک یہ نہیں پوچھا کہ شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔کیا اپنی علم پرور رہائش گاہ میں اکیلے ہی رہتے ہو یا کسی نوآموز ِسخن سے صحبت رہتی ہے۔جو بات نوآموز سنتا ہے اس کا مزا ہی اور ہے اور جس طرح وہ معصومیت سے بھرا ہوتا ہے اس کو شیشے میں اتارنا کس قدر روح افزا نظارہ ہوتا ہے۔
یاد کرو وہ گھڑی جب میں نے تم سے تنقید کے میدان سے الگ کوئی کتاب لکھنے کا ارادہ ظاہر تو کیا تو تم نے کہا دو باتیں پلے باندھ لو، اوّل اس کتاب کا ڈیلیکس ایڈیشن آنا چاہیے اور دوئم تم صحرا نورد کے خطوط جدید کا ڈول ڈالو۔میں نے تخلیقی ترکیب “ڈول ڈالو” سن کر بیہوش ہونے ہی والا تھا مگر پوچھ لیا بندہ خدا شہرہ آفاق صحرا نورد کے خطوط تو مرزا ادیب مری پیدائش سے پہلے لکھ چکے تھے تو تم نے اپنا سر علم کی کڑاہی میں ڈبویا، آہستہ سے سر اٹھایا، (ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی راز، کوئی کشف تمہارے اندر بے چین ہو رہا ہے)ادھر ادھر دیکھا اور مجھے نزدیک آنے کا کہا۔جب میں تمہارے قریب آیا تو تم گویا ہوئے
“اے بیوقوف میں نے ہی تو اسے خواب میں یہ خطوط لکھنے کا اشارہ کیا تھا۔”

اب اجازت چاہتا ہوں۔صحرا میں آئے ہوا تھوڑا وقت ہی ہوا ہے۔ ابھی تمہارے علم اور ذوق کے بے پایاں ہونے کی طرح مجھے اس صحرا کی بھی وسعت کا کچھ اندازہ نہیں۔
تمہارا
صحرا نورد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں