کچھ بڑا ہونے والا ہے، کیونکہ ریاستی اداروں کے بقول ملک کو “فتنۂ خوارج” کی طرز کی دہشت گردی نے جکڑ لیا ہے۔ دہشت گردی کے متعدد واقعات، خاص طور پر خیبرپختونخوا، سابقہ فاٹا، بلوچستان اور پورے ملک میں پھیل چکے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے تشدد میں اضافہ کرتے ہوئے 16 مارچ 2025 کو بلوچستان کے علاقے نوشکی میں فوجی قافلے پر خونریز حملہ کیا۔ BLA نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 90 فوجی ہلاک ہوئے، جبکہ پاکستانی فوج کے سرکاری بیان میں صرف 7 فوجی شہادت اور 21 زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ تضاد تنازعات کے علاقوں میں معلومات کی تصدیق کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔
مشہور مذہبی شخصیات کے قتل نے ملک میں عدم استحکام کو مزید بڑھا دیا ہے۔ عالم دین اور لشکرِ اسلام کے بانی مفتی منیر شاکر کو 15 مارچ 2025 کو پشاور میں ایک مسجد کے باہر بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا۔ مفتی صاحب ریاست پاکستان کے نظام کو چیلنج کرنے والے ایک بے باک آواز تھے، جو پسے ہوئے طبقے، قوم پرست اور مذہبی حلقوں میں مؤثر اثر رکھتے تھے۔ اسی طرح، مفتی نور الحق نور زئی سمیت متعدد دینی علماء کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ ہفتوں میں پاکستان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہونے والے خودکش دھماکے میں مولانا حامد الحق سمیت 8 افراد شہید ہوئے۔ دھمکیوں اور دہشت گردی کا یہ سلسلہ جاری ہے، جس نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں پاک فوج سے دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کی اپیل کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف تیز رفتار اقدامات کرنے کے قابل ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ خیال یہ ہے کہ وہ پراکسی جنگ کو روکنے میں ناکام ہیں، کیونکہ دہشت گرد پورے خطے میں وائرس کی طرح پھیل چکے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں کی مدد چاہتی ہے، لیکن پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں گہرے اختلافات موجود ہیں۔ پی ٹی آئی عدلیہ سے اپنے رہنما عمران خان کی رہائی کی درخواست کر رہی ہے، جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے قید ہیں۔ 26 نومبر 2024 کے قتل عام اور 9 مئی 2023 کے واقعات کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا گیا ہے، جسے تحریک انصاف کی پارٹی مسترد کرتی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مشینری کسی ایک پارٹی کے خلاف ہو اور ملک کی صورتحال کو جان بوجھ کر نظرانداز کر رہی ہو، تو پھر کیا کیا جائے؟ کیا دہشت گردی کا مقابلہ ممکن ہو پائے گا؟ ریاستی سلامتی داؤ پر لگ گئی ہے۔ بلوچستان میں BLA جیسی مسلح تحریکیں ریاستی اداروں کو نشانہ بنا رہی ہیں، جو ملک کی خودمختاری کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان ستمبر 2023 سے 190 ملین پاؤنڈ کے جعلی کرپشن کیس میں سزا یافتہ ہیں۔ ان کی گرفتاری نے کشیدگی بڑھا دی ہے، جبکہ PTI کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے۔ پارٹی 9 مئی 2023 کے فسادات میں ملوث ہونے سے انکار کرتی ہے، جن میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے۔ 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں PTI حامیوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ حکومت نے اعداد کم بتائے، لیکن آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ میڈیا پر پابندی اور طاقت کے زیادہ استعمال کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے باوجود خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو وسائل پر اختیار نہیں دیا جا رہا۔ فیڈریشن پر عوامی اعتماد کم ہو رہا ہے، جبکہ فاٹا اور بلوچستان کے عوام جمہوریت سے مایوس ہو کر غیر سیاسی (اور بعض اوقات مسلح) تحریکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
اس نسبت 18 مارچ 2025 کو قومی اسمبلی کی خفیہ سلامتی بریفنگ میں دہشت گردی کے خلاف مربوط حکمت عملی پر غور ہوا۔ تاہم، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور پارٹیوں کے درمیان عدم اعتماد رکاوٹیں ہیں۔ کیا پاکستان ان چیلنجز پر قابو پا سکے گا؟ جواب سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور شہری معاشرے کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اجتماعی کوشش کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن لگتا ہے۔
پاکستان کو داخلی اختلافات سے بالاتر ہو کر بیرونی خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ فوج پر سیاسی مداخلت کے الزامات اور 9 مئی/26 نومبر کے واقعات پر سوالات نے ریاستی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آزاد عدالتی انکوائریز ناگزیر ہیں۔

یہ وقت یکجہتی کا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر عوام کو نظرانداز کیا گیا، تو نہ صرف موجودہ بحران گہرا ہوگا، بلکہ ملک کی خودمختاری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں