ایک لڑکی نے لکھا کہ اسے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اہلکار نے روکا اور پوچھا کہاں جانا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ لندن جا رہی ہے اور برطانوی شہریت کی حامل ہے۔ اہلکار نے اسے کہا آپ تو بڑی پیاری ہیں، مجھے اپنا نمبر دے دیں!
ہسپتال ہو، دفاتر ہوں، کوئی اور ادارہ ہو۔ جہاں بھی مرد عورت اکٹھے کام کر رہے ہیں یا مرد کا سامنا عورت سے ہو رہا ہے وہاں یہ ڈراما چل رہا ہے۔ لگ بھگ 80 فیصد عورتیں اس سے تنگ ہیں کہ مرد راہ چلتے نمبر کیوں مانگتے ہیں، لائن کیوں مارتے ہیں۔ انہیں سہی طور پر اس سے تنگی ہوتی ہے۔ مغرب میں یہ کم کیوں ہے اور پاکستان میں زیادہ کیوں؟
ذرا ایک منٹ کے لیے اسے مرد کے اینگل سے دیکھیں۔ آپ نے ایک پریشر کوکر کو آگ پر چڑھایا ہو، چولہا مسلسل تیز کر رہے ہوں، لیکن اس کی سیٹی نکلنے نہ دے رہے ہوں تو کیا ہو گا؟ اس وقت ہم جس دور میں زندہ ہیں، مرد بالغ ہوتے ہی ہر قسم کے جنسی تحریک پیدا کرنے والے مواد سے براہ راست ایکسپوز ہے۔ موبائل، لٹریچر، بِل بورڈز اور ہر ادارے میں خواتین۔ مغربی مرد بلوغت کے ساتھ ہی اپنی جنسی زندگی کا آغاز کر دیتا ہے۔ اسے عورت تک پہنچنے کے لیے دفتر، ورک پلیس یا کسی ادارے میں چھچھور پن کرنے کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ اس کام کے لیے وہاں کلبز و دیگر لوازمات موجود ہیں جہاں وہ ہر شام کو جا کر اپنی بھوک پیاس مٹانے کا بندوبست کر سکتا ہے۔
پاکستانی مرد کو تمام “مشینری” مغربی مرد والی لگی ہوئی ہے اور مواد بھی سب مغربی مرد والا دکھایا جا رہا ہے لیکن اس کے پاس عورت تک رسائی کے لیے کیا مواقع مہیا ہیں؟ یعنی اگر کسی کو بہت زور سے ٹھرک آئی ہو تو وہ کہاں جا کے نکالے گا؟ اس کا کوئی جواب عورتوں کے پاس موجود نہیں۔ لیکن پاکستانی مرد کے پاس سادہ سا جواب ہے: وہ فیس بُک پر لڑکی کی تصویر دیکھ کر میسج کرے گا، سڑک پے چلتی لڑکی کو روک کے ساتھ بیٹھنے یا نمبر دینے کی درخواست کرے گا، ایئر پورٹ پے لائن کرائے گا، دفتر میں تاڑے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ کچھ خواتین ہاتھ پکڑا دیں گی، باقی جل بھُن کے خاموش رہیں گی یا فیس بک پے پوسٹ لگا دیں گی یا مرد کو غلیظ تصور کر کے فیمنسٹ ہو جائیں گی۔ کہانی ختم!
یا تو آپ جنسی تحریک پیدا کرنے والے مواد کے ساتھ کامل ترین جنسی آزادیاں بھی فراہم کریں، وہ نہیں کر سکتے تو یہ سمجھیں کہ آپ پریشر کُکرز کے درمیان زندہ ہیں۔ کوئی سیٹی بجائے گا کوئی سیدھا پھٹے گا! اگر آپ ایک سمجھدار مرد ہیں اور ان حقائق سے آشنا ہیں تو اپنی خواتین کو پریشر کُکرز کے دیس میں حتی المقدور پبلک پلیسز پہ اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ اپنی ذات کی حد تک ضبط اور شائستگی کا دامن تھامے رہیں گے اور اپنے اندر کے حیوان کو رسی ڈال کر اپنی ذات سے باقیوں کو محفوظ رکھ لیں گے۔ لیکن باقی سب سے یہ توقع یا امید لگانا غیر حقیقی و غیر فطری ہے۔ مسئلے کا اصل حل ایک سائیڈ (یا پورا مغرب یا پورا اسلام) چُننا ہی ہے۔ وہ ابھی ہونے کا نہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں