چوہدری صاحب کی پوسٹنگ اونچے نیچے ٹیلوں والے قصبے میں ہوئی رہائش کے لئے مکان کا بندوبست کرکے وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر آئے تو ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور ڈیڑھ دو سال کی بیٹی تھی چند ماہ بعد ان کے دو چھوٹے بھائی بھی ان کے پاس آگئے جنہیں چوہدری صاحب نے سکول میں چوتھی اور چھٹی جماعت میں داخل کرادیا چار بڑوں کے درمیان پانچویں چھوٹی سی منی ان سب کا کھلونا تھی ماں اسے گڑیا کی طرح سجا بنا کر رکھتی دونوں چچا سکول سے آکر منی کو گود میں اٹھانے کے لئے آپس میں جھگڑتے اسے اٹھا کر باہر لے جاتے بازار کی رونق دکھاتے شام کو چوہدری صاحب آکر اپنی بیٹی کے لاڈ اٹھاتے منی اسی لاڈ اور پیار کی چھاؤں میں پرورش پارہی تھی یہاں آنے کے سال بھر بعد چوہدری صاحب کے ہاں بیٹے نے جنم لیا مگر اس کی عمر چند سانسوں تک محدود رہی سب کو دکھ تو بہت ہوا مگر اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر لیا گیا سب کچھ دن سوگوار رہے پھر منی میں مگن ہوگئے اس کے بعد اوپر نیچے تین بار پیڑ پر پھل تو لگے مگر کچے ہی گر گئے اب کچھ لوگوں اور رشتہ داروں نے دبی دبی زبان میں چوہدری صاحب کو باور کرانا شروع کردیا کہ اس بیوی سے انہیں اولاد کی امید چھوڑ کر کچھ اور سوچنا چاہئیے یہ باتیں انہیں سخت ناگوار گذریں انہوں نے بڑی سختی سے اس خیال کو رد کردیا ان کا کہنا تھا کہ میری بیٹی کو اسی بیوی نے جنم دیا ہے اللہ نے مزید اولاد میرے مقدر میں لکھی ہوگی تو اسی بیوی کی گود بھرے گی اور اگر نہیں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں اللہ نے مجھے بیٹی کی رحمت سے نواز رکھا ہے الحمدللہ میں صاحب اولاد ہوں چوہدری صاحب کے اس دوٹوک مؤقف نے سب کی زبانیں بند کر دیں اللہ تعالی کو چوہدری صاحب کا یہ توکل اللہ کی ذات پر بھروسہ اور بیٹی جیسی رحمت کی قدر دانی کا بڑا انمول صلہ دیا وہ ماشااللہ چار خوبصورت بیٹوں اور ایک اور بیٹی کے باپ بنے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بیٹے پاکر انہوں نے بیٹی کی قدر میں کوئی کمی کی ہو اسے ہمیشہ اچھا کھلایا پہنایا اعلی تعلیم دلائی بیٹوں کو کبھی اس پر ترجیح نہیں دی
شہر شہر گھومتے چوہدری صاحب کی پوسٹنگ ایک اور قصبے میں ہوئی دفتر کے ساتھ ہی رہائش کے لئے چھوٹا سا گھر تھا ہمسائے میں کافی افراد پر مشتمل گھرانہ رہتا تھا ایک دن فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد ہمسائیوں کے گھر سے خواتین کے رونے کی آوازیں آنے لگیں عورتیں بین ڈال ڈال کر رو رہی تھیں اس خیال سے کہ جانے ان پر کیا مصیبت آ پڑی ہے کہیں انہیں کسی مدد کی ضرورت نہ ہو چوہدری صاحب نے ان کے گھر جا کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کے ہاں چوتھی بیٹی پیدا ہوئی ہے چوہدری صاحب تو یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اولاد خواہ بیٹی ہی ہو اس کی پیدائش پر اس طرح بھی واویلا مچایا جاتا ہے بیٹی کا باپ اور دادا ایک دوسرے کے گلے لگ کر اس طرح رو رہے تھے جیسے گھر میں خدا نخواستہ کسی کی موت ہوگئی ہو عورتوں نے الگ کہرام مچایا ہوا تھا یہ منظر دیکھ کر چوہدری صاحب دل برداشتہ ہوکر واپس آگئے وہ سارا دن اور اگلے کئی روز خواتین و مرد ان کے گھر اس طرح آتے رہے جیسے کسی کی وفات پر پرسہ دینے آتے ہیں کچھ روز ٹھہر کر چوہدری صاحب کی اہلیہ ان کے گھر گئیں بچی کو دیکھا گوری چٹی نیلی آنکھوں والی بے حد خوبصورت گڑیا سی بچی دیکھ کر انہیں افسوس ہوا کہ ایسی پیاری بچی کی پیدائش ان لوگوں کے لئے صدمے کا باعث ہے انہیں سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے اولاد تو اولاد ہوتی ہے اس میں بیٹی بیٹے کی تفریق کیوں یہ بات اللہ کو ناپسند ہے لیکن بچی کی دادی کی تیوریوں کے بل نہ کھلے بولیں تو یہ کہ میرے بیٹے کے دونوں کندھے بیٹیوں کے بوجھ سے جھک گئے ہیں جب کہ بچی کی ماں چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھی ٹکر ٹکر ہر ایک کا منہ دیکھتی رہی
وہاں رہتے ہوئے اللہ نے چوہدری صاحب کو دوسری بیٹی سے نوازا تین بیٹوں کے بعد پیدا ہونے والی بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھ کر چوہدری صاحب بہت خوش تھے اسی خوشی میں محلے کے حلوائی سے لڈو بنواکر انہوں نے اپنے ملنے والوں اور محلے کے چند گھروں میں بھجوائے اگلے دن یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کچھ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبائے کھسر پھسر کرتے پائے گئے کہ چوہدری صاحب کو دیکھو بیٹی کی پیدائش پر مٹھائی بانٹ رہے ہیں توبہ توبہ
جہاں بیٹی پیدا ہونے پر لوگ موت کی طرح تعزیت کرنے آتے ہوں وہاں یہ چوہدری صاحب خوشیاں منا رہے تھے لڈو بانٹ رہے تھے یہ انہونی ہی تو تھی
اس خطے کے لوگوں پر صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کے رسوم و رواج کا غلبہ رہا ہے اسلام کی تعلیمات صرف عبادات تک ہی محدود رہیں رسوم و روایات پر یہ تعلیمات خاطر خواہ اثرانداز نہیں ہوسکیں اگرچہ اب لڑکیوں کے مخالف رویوں میں وہ شدت نہیں رہی اگر ایک طرف بیٹی کی پیدائش پر رونے دھونے کی جہالت موجود ہے تو دوسری طرف چوہدری صاحب جیسی روشن خیالی بھی ہے اور بیٹی کو اولاد سمجھتے ہوئے شفقت پیار عزت اور احترام کی حقدار سمجھنے والے لوگ بھی موجود ہیں
یہ اسلام کا پیغام ہے کہ جو لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر غم مناتے اور بیٹیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں روز حساب ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ہمارے علما کو چاہئے کہ وہ اسلام کا پیغام عام کریں اور مسلمانوں کو یوم آخرت کی روسیاہی سے بچنے کا راستہ دکھائیں اور یہ بھی بتائیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس شخص نے اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کی انہیں اچھے طریقے سے پالا پوسا وہ جنت کا حقدار ہوگا
اے عالمان دین تمہارا یہ فرض ہے
ماں بہن اور بیٹیوں کا تم پہ قرض ہے
قرآن اور حدیث کا منشا بیاں کرو
نسوانیت کے شرف کو سب پر عیاں کرو
افضل حقوق اللہ سے حق العباد ہے
ظلم و جبروجہل سے جنگ بھی جہاد ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں