دھوئیں اور گرد و غبار کے بادل روازنہ ابھرتے آفتاب کی نقاب پوشی کرتے۔ دن بھر فضائے آسمانی پر یہی چھائے رہتے۔ شام کو دبیز دھویں کی سحابی فوج تحت الثریٰ کی طرف جاتے سورج کی روشنی ڈھلنے سے بہت پہلے چھین لیتی۔ رات کو یہ سموگ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی تو میرا کام مزید آسان ہو جاتا۔ تمام علاقہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ عمارتیں عجب ہیبت کذائی کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔ چہار اطراف پھیلی بدترین تاریکی میری ہم نوا ہو کرمبہم شور میں ٖخوف کا عنصر پیدا کر رہی تھی۔
سراسیمگی پھیلانے میں دھیرے دھیرے بڑھتے میرے قدموں کا ہم پلہ کوئی بھی نہیں تھا صرف حشرات الارض تھے جو ماتمی جلوس کی شکل میں میرے ہم رقاب رہتے۔
میری کاروائی شروع ہونے سے پہلے ہی، رات کا سکون تباہ ہوتا دیکھ کر، تنفر و ناگواری سے بھری ستاروں کی ڈوبتی نگاہوں میں ناامیدی اور مایوسی چھا گئی اور انہوں نے دھند میں منہ چھپا لیا۔
لوگ اپنے ٹوٹے پھوٹے اندھیرے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ دھند سایہ شب کے ساتھ کثیف ہوتی جارہی تھی۔ فاصلہ کی چیزیں مبہم اور پراسرار صورتیں اختیار کیے ہوئے تھیں۔ کہیں سے کوئی آواز ابھرتی سنائی دیتی، نہ کسی گھر سے روشنی کی کوئی کرن دکھائی دے رہی تھی۔ میرے آنے کی ہیبت سے سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔
بہت پہلے تو عوام الناس میں اتنی سراسیمگی نہیں تھی۔اب میری دہشت میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی تو لوگ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میرے سامنے آ کھڑے ہوجاتےتھے۔ لڑائی ہوتی، وہ مقابلہ کرتے۔ میرے کام میں رکاوٹ ڈالتے۔ میں بھی اپنی دھن کی پکی تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بہت مشکل ہوتی مجھے اپنے ساتھیوں کو مدد کے لیے بلانا پڑتا۔ وحشت وبربادی اور مار کاٹ میں اصل لوگوں کے علاوہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچ جاتا۔جگہ جگہ گوشت کےلوتھڑے بکھر جاتے۔ زمین خون سے رنگین ہو جاتی۔ گرچہ مجھے سالم مال نہ ملتا، ٹوٹی پھوٹی چیزیں لے کر لوٹنا پڑتا لیکن کامیابی ہمیشہ میری ہی ہوتی۔
میری فتح اور ان کی شکست کے بعد ہر طرف نوحہ ماتم کی صدائے جگر دوز سنائی دیتی۔ میری کامیابیوں کا ذکر رنج و الم کی داستانوں میں ملتاہے آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
مجھے خود اپنا کام نہیں بھاتا۔ لیکن مجبوری تھی کہ اس کے علاوہ اور کیا کرتی؟ مجھے یہی سکھایا گیا تھا۔ بلکہ یہ تو میری سرشت میں شامل تھا۔
کبھی کبھی تو لوگ اتنے مجبور ہو جاتے کہ خود ہی مجھے بلانے لگتے، میری مدد کرتے۔ لیکن اب تو ہر طرف میرے خلاف نفرت ہی نفرت پھیلی ہوئی تھی۔
میں بھرپور کوشش کرتی کہ میرا کام بھی ہو جائے اور لوگوں کو تکلیف بھی کم سے کم ہو۔ بعض مرتبہ لوگ خود کو یا دوسروں کو ایسی اذیت میں ڈال دیتے کہ مجھے دکھ ہونے لگتا۔ میرا دل بھی خون کے آنسو روتا۔ زندگی میں ایسے مواقع بھی آئے کہ اس دکھ بھرے کام کو چھوڑنا چاہا۔ سوچا کہ میں یہ کام نہیں کروں گی۔
آج رات بھی میری یہی حالت تھی۔
مجھے ایک سکول سے کچھ بچوں کو اٹھا کر لانا تھا، معصوم بچوں کو۔ میں کٹھور روپ اور دھندلے ذہن کے ساتھ غبار آلود راستوں پر چلتی ہاسٹل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میں نے بہت سے غلط کام کیے لیکن یہ مجھے ہمیشہ بہت دکھ دیتا۔ اسی لیے میں نے اندھیری رات کا انتخاب کیا تاکہ میرے ظلم کو لوگ نہ دیکھ سکیں۔ وہ سوئے ہوں اور میں کام کر کے چلتی بنوں۔ ان کو پتا چلے گاتو دکھی تو ہوں گے لیکن کسی کی آنکھوں کے سامنے اس کے پیارے کو اٹھا لے جانا زیادہ درد ناک فعل ہے۔
میں دئیے گئے وقت سے پہلے وہاں پہنچنا چاہتی تھی تاکہ اس ظلم عظیم کے لیے خود کو تیار کرلوں۔ مجھے حوصلہ اکٹھا کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے تھا۔
***
رات انتہا درجہ تاریک تھی اور کمرہ مضطرب کن سکون میں ڈوبا ہوا۔ بچیاں سو رہی تھیں۔ میں نے اپنا حلیہ بدل لیا۔ کوشش کی کہ میرے چہرے پر نرمی اور پیار کی جھلک نظر آئے۔ میں بچوں کی بیچ ہی لیٹ گئی اور گنگناتے ہوئے انہیں پیار سے سہلانے لگی۔ ان کے چہرے اتنے سپید، ملائم اور نازک تھے جیسے موسم بہار کی نورانی صبح میں کھلے ہوئے سفید گلاب کے پھول۔ ایک بچی میرے ٹھنڈے لمس کو پاتے ہی جاگ گئی۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘ اس کے لہجے میں اضطراب کی جھلک اور چہرے پر بے چینی صاف نظر آ رہی تھی۔
’’تمہاری پیاری آنٹی۔‘‘
’’آنٹی آپ ہمارے بیڈ پر کیوں لیٹی ہیں؟‘‘
’’یہ جگہ اچھی نہیں. میں تمہیں ان مشکلات سے نکالنا چاہتی ہوں۔‘‘
میرے لہجے میں رحم اور ہمدردی کا احساس دیکھ کر اس کا خوف رفع ہو گیا لیکن پریشانی برقرار تھی۔
’’آنٹی، کیا دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہمیں سکون مل سکے گا؟‘‘
’’ہاں میں تمہیں ادھر ہی لے جا رہی ہوں۔‘‘
ہماری گفتگو سن کر باقی بچے بھی جاگ گئےاور غور سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔
آج میں سفید کپڑے اوڑھ کر، خوبصورت حلیے میں ان کے سامنے آئی تھی۔ میری چال کامیاب ہو گئی۔ سب بچے مجھے پیار کررہے تھے شاید انہوں نے میرے جیسی خوبصورت اور صاف ستھری دوسری کوئی ہستی دیکھی ہی نہیں تھی۔ میں نے ان کو پریوں کے دیس کی کہانیاں سنائیں۔ پرندوں کی خوبصورتی، نہروں کی روانی اور ٹھنڈی چھاوں تلے کھیل تماشے کی باتیں کیں۔ انہیں خوبصورت کھلونوں، کھانوں اور کپڑوں کے بارے میں بتایا۔ یہ صرف شیرینِ گفتار نہیں، سچ بھی تھا: انہیں بہت اچھی زندگی ملنے والی تھی۔
میں نے پوچھا کہ اب چلیں؟
سب تیار تھے۔ میں ان کا ساتھ پا کر ہواؤں میں اڑنے لگی۔
بھولے بھالے بچے مجھ پر اعتماد کر رہے تھے۔
سب اپنے بستروں سے نکل کر کھڑے ہو گے۔ کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور کسی نے دامن۔
بستر ویسے ہی تھے۔ ان پر گندے کمبل پڑے تھے اور ان بستروں میں اب کوئی ہل جل نہ تھی۔
’’آنٹی میرے بابا نہیں ہیں۔ میری ماں کو بھی ساتھ لے چلیں۔ وہ اکیلی روئے گی۔‘‘ ایک بچی بولی۔
’’یہ ممکن نہیں۔‘‘
’’پھر میں بھی نہیں جاؤں گی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے منہ پھیر لیا۔
سب اس کے ہم نوا ہو گئے۔
کسی کی ماں نہیں تھی، کسی کا باپ اور کوئی باکل لاوارث۔
باقی بچوں نے بھی میرا دامن چھوڑ دیا۔ مجھے تو صرف بچوں کو لانے کا کہا گیا تھا۔
میرے سینے میں شدید ٹیس اٹھی۔ میں ان معصوم بچوں کو لے جانے پر کیسے تیار ہو گئی تھی؟ انہوں نے اس دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا؟ ان کی ماؤں کا کیا حال ہوگا؟ دھول مٹی، بھوک افلاس، ڈر خوف میں پلنے والے ان بچوں کو میری اصلیت کا پتا چلے گا تو کیا سوچیں گے؟ ان کی مائیں بہنیں اور رشتہ دار مجھے کوسیں گے۔ لوگ ناخنون سے اپنے چہرے نوچیں گے، پتھروں سے سر پھوڑ لیں گے۔ ویران اجڑے راستے سینہ کوبی کرنے والوں سے اٹ جائیں گے۔ سارا شہر ماتم کدہ ہوگا۔ہر گلی ہر گھر میں بچوں کا سوگ منایا جائے گا۔حلقہ حلقہ لوگ ہوں گے، نوحہ ہوگا۔ مہذب دنیا والے تا قیامت مرثیہ خوانی کریں گے۔ دردناک صدائے ماتم اور نوائے سینہ زنی کی گونج ہر طرف پھیل جائے گی۔ دھرتی چیخ اٹھے گی اور آسمان خون کے آنسو برسائے گا۔
آج تک میں نے جو بھی کیا یہ ان سب سے گھناؤنا فعل تھا۔ مجھے خود سے گھن آ رہی تھی۔ اس کام سے کراہت میں اضافہ ہو گیا۔
میں نے فیصلہ کر لیا کہ بس بہت ہو چکا، اب یہ کام نہیں کروں گی۔
میں دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ پیاری بچی کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا۔ اس کے پاک، معصوم اور خوبصورت چہرے پر پیار کرتے ہوئے لوری دینے لگی۔ بے حس و حرکت سر میں جنبش پیدا ہوئی اور وہ واپس آ کر اپنے بستر میں دراز ہو گئی۔ باقی بچے بھی اپنے کمبلوں کے اندر چلے گئے۔ سینے کے زیر و بم سے نظرآ رہا تھا کہ مردہ پڑے بچوں میں سانس چلنا بحال ہو گیا ہے۔ کچھ نے کروٹ بدلی اور میری طرف مشکور لہجے میں دیکھتی ہوئی سو گئیں۔
***
یہ تلون میری فطرت نہیں تھا۔ خون ریزی، دکھ درد، مصائب اور دیگر ساتھی خجالت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے حکم دیا
’سب واپس چلیں‘
اور ہاسٹل سے باہر نکل آئی۔
عین اسی وقت آسمان سے گھن گرج اور شعلے ٹپکنے لگے۔ ہر طرف دھماکے شروع ہو گئے۔طیاروں کی ایک ٹولی جاتی تو دوسری آ جاتی۔ ہاسٹل کی عمارت کوخصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ میں نے تو ہمت کر لی تھی لیکن ان بچوں پر طاری نحوست طالع کا یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں تھا۔ غزہ کا مقدر بارود اور آگ و خون سے لکھا گیا تھا۔ اس تفتہ زمین کے مکینوں کی قسمت میں صدائے یاس کے دردناک نغمے تھے، خونریزی تھی؛ در بدر کی ٹھوکریں اور بے بسی تھی، موت تھی۔
مسلسل بمباری سے ساری عمارت زمین بوس ہو گئی تھی۔
میں اپنا کام سمیٹنے کے لیے ساتھیوں سمیت دھول، آگ اور دھویں سے اٹے اس کھنڈر میں داخل ہو گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں