صوفی بزرگ میاں علی رحمت اللہ علیہ نے کبھی یہاں پڑاو ڈالا تھا۔ قدرت نے ان کے نام کو بقائے دوام بخشی اور اب یہ شہر انہی کی نسبت سے “میاں والی” کےنام سے جانا جاتا ہے۔ ہم میاں علی رحمت اللہ علیہ کی اسی میاں والی کے مرکزی چوک میں کھڑے تھے۔ یہ ضلعی صدر مقام تھا جہاں ضلعی انتظامی دفاتر اور قریب ہی ضلعی انتظامی افسران کے سرکاری بنگلے، کوٹھیاں تھیں۔ کسی بھی ضلع کا صدر مقام چونکہ بیوروکریسی کا مسکن ہوتا ہے تو یقینی طور پہ صاف ستھرا اور خوب صورت ہونا لازم ہے۔ بس بڑے صاحب خوش رہیں، عوام کا کیا؟
کاشف صاحب نے گاڑی اسٹارٹ کی اور کالاباغ روڈ پہ ڈال دی۔ اب ہوا یہ کہ علی خان کو سگریٹ کی طلب ہوئی مگر رسد نہ دارد۔ سگریٹ والی تمام دکانیں دائیں جانب تھیں اور سڑکے پہ ٹریفک کے بہاؤ سے دوسری جانب جانا اتنا مشکل تو نہ تھا لیکن بائیں جانب ہی دوکان تلاش کرنا قدرے زیادہ آسان تھا۔ جب بھی کوئی دکان آتی تو کاشف صاحب اور میں یہ کہہ کر گاڑی سڑک کے اس پار لے جانے سے انکار کر دیتے کہ “ہم بائیں بازو کے ہیں میاں’ ہمیں غلط راستے پہ مت ڈالو۔” اب ہوا یہ کہ بائیں جانب جو ایک دو دکانیں موزوں نظر آئیں ان پہ مطلوبہ برانڈ کے سگریٹ نہ تھے۔ خدا خدا کر کے ایک پیٹرول پمپ آیا تو علی خان کے مطلوبہ سگریٹ دستیاب ہوئے۔
اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہم نے میانوالی کے صاحبان علم و فن بارے بات شروع کی۔ یادوں کی پٹاری سے ذرا گرد جھاڑی تو ذہن کے نہاں خانوں سے ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی کا نام سامنے آیا۔ “بے نیازیاں” کے نام سے لکھے ان کے کالم اور ان کا روایتی لباس دونوں ہی کمال تھے۔ خداوند کریم مغفرت فرمائے۔ ہم دوستوں نے منیر نیازی، مولانا کوثر نیازی کو بھی یاد کیا۔ ان رفتگاں کے لئے کلمات خیر کہتے کاشف صاحب نے ہمیں اس کے بعد آنے والے مشہور شہروں کے بارے میں بتایا تو ایک خوبصورت فہرست بنی۔ ہمارے راستے میں موچھ، داود خیل، روکھڑی اور عیسی’ خیل پڑتے تھے۔ موچھ کے ذاکر اھلبیت (ع) سید ریاض حسین شاہ موچھ ایک عظیم ذاکر امام حسین علیہ السلام تھے اپنے منفرد انداز میں امام عالی مقام علیہ السلام کا ذکر کرتے تو ہر آنکھ اشک بار ہوتی۔ ان سا خراج عقیدت و ہدیہ تعزیت شاید ہی کسی نے آج تک امام کی بارگاہ میں پیش کیا ہو۔ اس وقت آج کی مانند فرقہ واریت کی وبا زیادہ نہیں پھیلی تھی۔ سنی ‘ شیعہ مل کر اپنے پیارے نبی کی آل ع سے محبت کرتے اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف عزائی احتجاج کرتے۔ مگر پھر ہمارا پرامن معاشرہ پراکسی وار کا میدان جنگ ٹھہرا جس نے بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی فضاء کو گرد آلود کر چھڑا۔ اسی راہ پہ داود خیل پڑتا ہےذاکر سید علی رضا داود خیل کا مسکن، آپ بہت پیارے سید’ ذکر اھلبیت (ع) کی دنیا کا ایک نفیس نام اور مثبت چہرہ ہیں۔ یہ بہترین انسان اعلی شخصیت کے مالک ہیں جنہیں عالم با عمل کہنا قطعی غلط نہ ہوگا۔
روکھڑی شہر کے شفاء اللہ روکھڑی مرحوم اور ان کے صاحب زادے ذیشان روکھڑی کے سروں کی تعریف کے بعد ہم سب نے اپنے پسندیدہ فوک گلوکار لالا عطاء اللہ خان عیسی خیلوی کو خراج تحسین پیش کیا تو کاشف صاحب نے ان صاحبان فن اور میانوالی کے ان نگینوں کی نسبت سے کیا خوب جملہ کہا کہ،
“بھائیو اگر میں یہ کہوں کہ ہم سریلی سڑک پہ سفر کر رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔”
ہماری دائیں جانب روشنیوں کا ایک شہر دکھا معلوم پڑا کہ یہ ماڑی انڈس ہے اور روشنیوں سے نہائی میپل لیف سیمنٹ فیکٹری تھی۔ کاشف صاحب گویا ہوئے، “عبداللہ حسین نے اپنا شہرہ آفاق ناول اداس نسلیں اسی سیمنٹ فیکٹری اور آس پاس کے علاقوں میں بیٹھ کے مکمل کیا جب وہ یہاں انجینئر تھے۔”
ہماری یہ علمی، ادبی، روحانی گفتگو رات کے اندھیرے میں سڑک پہ فراٹے بھرتی گاڑیوں کو کراس کرنے، کچھ کو راستہ دینے اور کہیں آگے لگے ٹرک کی بتی سے جان چھڑانے کی مڈھ بھیڑ کے دوران جاری تھی۔ سامنے سے آنے والی گاڑی کی تیز روشنی آنکھوں کو چندھیا دیتی تو کاشف صاحب اس ڈرائیور کے اوصاف حمیدہ پہ خوب روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس کو کچھ ایسے غیر پارلیمانی الفاظ سے نوازتے جو مکمل پیکا ایکٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔
ہم آگے بڑھتے ہی جا رہے تھے کہ سامنے ایک سیاہ پہاڑ نے ہمیں اچانک اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ پہاڑ کالاباغ کے حسن کو اپنے پیچھے چھپائے کھڑا تھا۔ راستہ روکے کھڑے اس پہاڑ کے ساتھ بائیں جانب سڑک کا موڑ مڑا تو ہر دو اطراف میں اسی طرح کہ پہاڑوں نے ہمیں اپنے دامن میں لے لیا۔ کچھ ہی سفر کے بعد ہم ان پہاڑوں کے دامن سے نکلے ہی تھے کہ ہماری دائیں جانب “سندھ” دریا باہیں پھیلائے ہمیں خوش آمدید کہنے کو بے تاب تھا۔ یہ اماوس کی رات تھی۔ چاندنی ہوتی تو سندھو بھی اپنی موج میں ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا۔ ہم دائیں جانب سندھو کے پاٹ کا اندازہ لگانے کی کوشش میں اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے تھے کہ سامنے لگے بیرئیر نے پھر چونکا دیا۔ یہ کالاباغ میں داخل ہونے کے لئیے سندھو دریا کو عبور کرنے والے پل پر سے گزرنے کا “ٹیکس” تھا۔ ایک بار پھر یہاں نہ کاشف صاحب کی “چارٹرڈ اکاؤنٹنسی” کام آئی اور نہ میری “ٹیکس کی پریکٹس”۔ ہمیں پاکستان کا معزز ٹیکس دہندہ ہونے کے باوجود جب کوئی رعائت نہ ملی تو بادل نخواستہ ہی سہی مبلغ “ساٹھ روپیہ” ادا کرنا پڑے۔
گاڑی لوہے کے بنے پل پر چڑھ چکی تھی۔ ہمارے میزبان صحافی جنید خان نیازی اسی پل کی دوسری جانب سے ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ “سندھو” دریا کے اس پار کالاباغ شہر میں دریا کنارے بنے گھروں کے برقی قمقموں کی روشنیوں کا عکس سندھو پہ پڑ کے ایک انتہائی خوبصورت رومانوی منظر پیش کر رہا تھا۔ ہمارے دونوں اطراف دور تک خاموشی سے بہتا سندھو کبھی یہاں آنے والوں کا راستہ روک لیتا ہوگا۔ انگریز نے انیسویں صدی عیسوی میں یہاں پل تعمیر کر کے سندھو کے اس غرور کو خاک میں ملا دیا تھا۔ مگر پھر بھی سندھو سے اس کا قدرتی حسن نہ چھن سکا۔ بائیں جانب دور روشنیوں کی ایک طویل قطار نظر آئی۔ سمجھ نہ آئی کہ کیا شے ہے تو اپنے تئیں اندازہ لگایا کہ شاید کوئی پل ہو جسے برقی قمقموں سے سجایا گیا ہو کہ اسی دوران ہمارے میزبان ہمیں دوسری جانب سے ہماری طرف بڑھتے دکھائی دئیے۔ رسمی سلام دعا کے بعد گاڑی میں بٹھایا اور چل دئیے۔ انہوں نے کوشش کی ہمیں کچھ اس پل یا دریا بارے بتا پائیں لیکن ہم نے ان کی اس کوشش کو یہ کہہ کر وقتی طور پہ ناکام بنا دیا کہ ہم گاڑی کھڑی کر کے واپس اس پل پہ چہل قدمی کریں گے۔ پل ختم ہوا اور ہم باقاعدہ کالاباغ کی حدود میں داخل ہو گئے۔ کبھی اس ریاست پہ نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کے نام کا سکہ چلتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اب پل کے دوسری جانب وردی میں ملبوس ایک پولیس اہلکار کھڑا تھا جہاں کبھی نواب صاحب کی ملائشیا فورس کا کوئی جوان کھڑا ہوتا ہوگا۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی پولیس چوکی بنی تھی۔ ہم نے وہ چوکی عبور کی اور قریب ہی واقع ایک گیسٹ ہاوس میں جا رکے۔ گیسٹ ہاوس میں ہمیں جو کمرہ دیا گیا اس کے سامنے برآمدہ، آگے بہترین لان اور لان کے ساتھ ہی سندھو دریا بہہہ رہا تھا۔ گویا ہم رات سندھو کے کنارے اس کے مہمان تھے۔ کیا ہی خوب صورت رات ہماری منتظر تھی۔ لان میں لگی کرسیوں سے چند قدموں پہ سندھو دریا بہہ رہا تھا۔ دریا کے پانی سے مس ہوکے جب ہوا کے جھونکوں نے ہمارے گالوں کو چھوا تو ساری تھکن بھی ہوا ہوگئی۔ گیسٹ ہاوس کے لان سے سیڑھیاں سندھ دریا میں اترتی تھیں۔
گیسٹ ہاوس کے مینیجر نے ہمارے کمرے کی چابی ہمارے حوالے کرتے ہوئے ہم سے ناشتے بارے ہدایات لیں اور چلتا بنا۔ ہمارے میزبان کے بہترین انتظامات نے ہمیں جب تازہ دم کر دیا تو ہم ان کو لے کر پل کی طرف نکل پڑے۔ یہ علاقہ میانوالی لاری اڈا کہلاتا ہے جہاں نوابین کے قدیم بنگلے، بازار، اور کچھ انتظامی دفاتر موجود ہیں۔ رات کے اس پہر یہاں سنسانی نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کوئی شاز و ناذر ہی دوکان کھلی ملتی تو کوئی اکا دکا گاڑی بھی آتی جاتی دکھ جاتی۔ ہم باتیں کرتے کرتے کالاباغ پل پہ جا پہنچے۔ یہ پل ایک کلو میٹر لمبا ہے مطلب کبھی سندھو کا پاٹ بھی اتنا ہی ہوتا ہوگا۔ ہم نے پل کی تصویریں بنائیں۔ پل کو بنے سو سال ہونے کو تھے۔ مگر یہ اب بھی مزید سو سال ایسے ہی رہنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ دائیں جانب جو دور روشنیاں ہمیں آتے ہوئے دکھائی دی تھیں ان کے بارے میں ہمیں جنید خان نے بتایا کہ وہ جناح بیراج ہے جسے کچھ سال قبل جب سیلاب آیا تو دھماکوں سے اڑا دیا گیا تھا تاکہ پانی کے بہاو میں خلل نہ آئے اور کالاباغ بڑی تباہی سے بچ جائے۔ جنید خان نے مزید بتایا کہ ہمارے گیسٹ ہاوس سے کچھ ہی دور ایک بحری جہاز بھی کھڑا ہے جو اس وقت کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے سندھ دریا کے لئیے بطور خاص بنوایا تھا تاکہ اس بحری جہاز کو تجارتی کام میں لایا جا سکے۔ پانچ کروڑ سے بننے والا ہاتھی نامی بحری جہاز کارگر ثابت نہ ہوا اور اب پانی میں کھڑا گل سڑ رہا ہے۔ اور ہمارے حکمرانوں اور سرکاری افسران کا منہ چڑا رہا ہے جنہوں نے پہلے یہ نہ سوچا کہ اس سفید ہاتھی کی کامیابی کے کتنے امکانات ہوں گے۔
کالاباغ پل پہ چہل قدمی کرتے ایک عجیب سکوت میں سندھ دریا کے بہنے کی ہلکی آواز گویا مدھ بھری موسیقی کی مانند کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ مجھے آج سے قریب ڈیڑھ برس قبل وادی نیلم کی رتی گلی جھیل کے بیس کیمپ میں گزاری وہ راتیں یاد آئیں جب اسی طرح ہمارے خیموں کے قریب سے بہتے چشموں کی گود سے پھوٹنے والے نالوں نے رات بھر ہمیں اپنی دھنوں میں مست کئیے رکھا تھا۔ وہ میری ذندگی کا سب سے یادگار سفر تھا۔ اور پھر اس کے بعد کالاباغ کی یہ رات تھی جس کے سحر نے مجھے جکڑ لیا تھا۔ ایک خوب صورت رات، بہترین دوستوں کا ساتھ، دریائے سندھ کا کنارہ پانی کی شاں شان کرتی آواز جیسی لوری گو مجھے اپنی باہوں میں سلانے کی کوشش کر رہی ہو۔
ہم کالاباغ کے تاریخی پل کی چہل قدمی سے واپس اپنے گیسٹ ہاوس آ چکے تھے۔ لان میں بیٹھ کے دریائے سندھ کے پانی کو مس کر کے آتی ہوا جب ہمارے گال چھوتی تو ایک عجیب سرور کا احساس اندر تک سرائیت کر جاتا۔ ہم سندھو کے مشرق سے طلوع آفتاب کا منظر دیکھنے کا پلان ترتیب دے کے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ گہرے سکوت میں کہیں دور سے گزرتی ریل گاڑی کی سیٹی سنائی تو اس منظر سے جڑی ہجر و وصال کی کئی کہانیاں ذہن کے دریچوں سے جھانکنیں لگیں اور نہ جانے کب ہم نیند کی گہری وادیوں میں چلے گئے پتہ ہی نہ چلا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں