گھر سے دربدر ہونے تک/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

پریشان چہرے دیکھے ہیں کبھی؟ جن کی بجھی ہوئی رنگت چیخ چیخ کر ان کے ٹھیک نہ ہونے کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔ لکشمی چوک کے پاس وہ دونوں ایسے ہی چہرے لیے سڑک کنارے بیٹھے ہوئے تھے جب میں چلتے چلتے ٹھٹھک کر ان کے پاس رک گیا۔ ایک چھوٹا سا بیگ ایک طرف زمین پہ دھرا ہوا تھا اور وہ دونوں اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ ایک خالی خالی نظروں کے ساتھ فضا کو گھور رہا تھا اور دوسرا گھٹنوں پہ چہرہ رکھے زمین کو تکے جا رہا تھا۔ ان دونوں کی عمر مشکل سے پندرہ سولہ سال ہو گی۔

یہ 2020 کی بات ہے۔ کرونا کا زور تقریباً ٹوٹ چکا تھا۔ میں لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا اور میو ہسپتال میں مفت کی ہاؤس جاب ختم ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے۔ وہی ہاؤس جاب جس پہ مٹھی بھر مسیحائی نامی کتاب لکھ دی۔ میں اس روز صبح سے سستی کے ساتھ کمرے میں ہی لیٹا ہوا تھا۔ ہاؤس جاب ختم ہو چکی تھی، کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ بس لیٹے لیٹے آگے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ دوپہر ڈھل چکی تھی اور میں نے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔

پیٹ میں دوڑتے چوہوں نے جب انتڑیاں نوچنی شروع کیں تو میں اٹھا اور سوچا کہ انارکلی جاتا ہوں، وہاں سے کچھ اچھا سا کھانا کھاتا ہوں۔ میں پیدل ہی ریلوے اسٹیشن سے انارکلی کی طرف نکلا تو گوالمنڈی والا رستہ جو چھوٹا تھا، اسے اختیار کرنے کے بجائے لکشمی چوک والے رستے پہ ہو لیا۔

لکشمی چوک سے گزر کر کچھ آگے گیا تھا جب وہ دونوں سڑک کنارے بیٹھے نظر آئے۔ ان دنوں کرونا کے بعد ابھی لاہور کی چہل پہل پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی تو رش کم ہوتا تھا۔ اس لیے وہ دونوں آسانی سے نظروں میں آ گئے اور میں نے بھی پوری توجہ سے انھیں دیکھا۔

میں ان کے پاس رکا تو دونوں میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے سلام کیا اور پوچھا :

“کیوں پریشان بیٹھے ہوئے ہو؟”

بولے “نہیں نہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔”

مگر ان کا لہجہ چغلی کھا رہا تھا کہ وہ اصل بات نہیں بتا رہے۔ ان کے لہجے میں اعتماد نہیں تھا، چہروں پہ رونق نہیں تھی۔

میں نے پوچھا:

“کہاں رہتے ہو؟ ”

کہنے لگے “ادھر لاہور میں ہی کسی عزیز کے پاس رہتے ہیں”

میں نے کہا

“میں کھانا کھانے جا رہا ہوں، آؤ اکٹھے کھانا کھاتے ہیں”

بھوکی انتڑیوں کا خالی پن ان کے چہرے پہ دکھ رہا تھا لیکن انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر میری آفر قبول کرنے کے بجائے شکریہ ادا کرتے ہوئے انکار کر دیا۔ میں نے دوبارہ اصرار کیا کہ پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں، مجھے اپنا بھائی ہی سمجھو۔ یہاں پاس ہی انارکلی بازار ہے، صبح سے بھوکا بیٹھا ہوں اب وہاں سے کھانا کھانے ہی جا رہا ہوں، اکیلے کھانے کا کیا مزہ آنا ہے۔ آپ لوگ بھی آ جاؤ اکٹھے کھانا کھائیں گے تو مجھے زیادہ خوشی ہو گی۔

ان دونوں نے دوبارہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا، جیسے دونوں چاہتے ہوں کہ آفر قبول کر لی جائے لیکن خودداری اجازت نہ دے رہی ہو۔ پھر بالآخر برف پگھلی اور وہ دونوں راضی ہو گئے۔ بیگ اٹھا کر ساتھ چلنے کو کھڑے ہو گئے۔ ہم آہستہ آہستہ چلتے انارکلی بازار پہنچے اور ہلکی پھلکی گفتگو کرتے رہے۔

انھوں نے بتایا

“ہم دونوں دوست ہیں، کلاس فیلو ہیں اور سکول پڑھتے ہیں۔ غالباً والی بال کا بھی بتایا تھا کہ ہم والی بال کھیلتے ہیں۔” میں نے کوئی مشکل سوال نہیں پوچھا۔

ہم انارکلی فوڈ سٹریٹ میں اسلام آباد ہوٹل پہ جا بیٹھے کیوں کہ ہاؤس جاب میں اکثر توقیر عباس، قاسم حیات اور حمزہ یعقوب کے ساتھ اسی ہوٹل پہ بیٹھا کرتا تھا، اس لیے اس ہوٹل سے شناسائی سی محسوس ہوتی تھی۔ کھانے کا آرڈر دے کر ہلکی پھلکی باتیں چل رہی تھیں جب میں نے پوچھا کہ اچھا اب بتاؤ مسئلہ کیا ہے۔ آپ دونوں کس پریشانی میں ہو؟

تب تک انھیں کچھ اعتماد ہونے لگا تھا تو انھوں نے کہا

“ہم لاہور کام کی تلاش میں آئے ہیں۔ کام تو کوئی ملا نہیں اور کھانے کے پیسے بھی پاس نہیں تھے، رہنے کو کوئی جگہ بھی نہیں تھی، اس لیے پریشان بیٹھے ہوئے تھے۔”

ویٹر کھانا لے آیا تھا، اس نے میز پہ لگا دیا جب چپ بیٹھے لڑکے نے دوسرے نے ہلکا سا ٹہوکہ مارتے ہوئے کہا، سچ ہی بتا دو

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آنکھوں میں کچھ باتیں ہوئیں اور پھر خاموشی سے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ میں نے بھی کچھ نہیں پوچھا۔

کچھ نوالے لینے کے بعد ایک خود ہی کہنے لگا

“گھر سے بھاگ کر آئے ہیں” لہجے میں شکستگی تھی۔

اس کے بعد ہم تینوں کے درمیان کوئی اور بات نہیں ہوئی۔ کھانا ختم ہوا تو چائے کا آرڈر دے دیا۔ شائد ایک نے چائے نہیں بوتل منگوائی تھی۔ تب میں نے پوچھا “گھر سے کیوں بھاگے؟ ”

کہنے لگے “ہر وقت گالیاں دیتے رہتے تھے۔ ہر بات پہ ذلیل کرتے ہیں۔ جب دل کرتا ہے مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔”

اس کی آواز میں تلخی گھلی ہوئی تھی۔ چائے کی بھاپ میں دھندلائے اس کے چہرہ پہ تکلیف کے آثار تھے یا شائد بس مجھے ایسا لگ رہا تھا۔

” بہت برداشت کیا لیکن صبح شام گالیاں اور مار پیٹ کوئی کب تک برداشت کرے۔ بس کل رات ہم نے فیصلہ کر لیا کہ اب یہاں نہیں رہنا۔ رات کو بیگ میں کپڑے رکھ لیے تھے اور صبح صبح وہاں سے نکل آئے تھے۔ اب تو خوش ہوں گے نا وہ، جان چھوٹ گئی ان کی”

“صبح سے لاہور آ کر کیا کرتے رہے؟” میں نے پوچھا

کہنے لگے “مینار پاکستان دیکھا، پھر وہاں سے پیدل داتا دربار چلے گئے۔ پھر وہاں سے پیدل ہی چلتے چلتے یہاں آ گئے۔ بس اب تھک گئے تھے اور سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ کہاں جائیں اور کیا کریں تو وہاں بیٹھ گئے”

میں نے گھر کے متعلق مزید تفصیل پوچھی تو پتا چلا دونوں قریب ہی رہتے ہیں، کلاس فیلو اور دوست ہیں اور دونوں کو ہی گھر والوں کی طرف سے بےجا سخت رویے اور تذلیل کا سامنا ہے، جس سے تنگ آ کر ان دونوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

جب میں نے پوچھا کہ آپ دونوں کی امی کا کیا حال ہو گا، وہ کتنی پریشان ہوں گی تو ان دونوں کے چہرے پہ کئی رنگ آ کر گزر گئے۔

میں نے پوچھا اب کیا کرو گے تو کہنے لگے یہاں لاہور میں کوئی کام دیکھیں گے، پھر کام کریں گے اور یہیں رہیں گے۔

میں نے بتایا کہ لاہور انسانوں کا ایسا جنگل ہے جہاں کتنے ہی لوگ کانٹے بنے گھوم رہے ہیں۔ آپ دونوں تو چھوٹے سے ہو، ایسے لوگ آپ کو بڑی آسانی سے شکار کر لیں گے۔ اتنی آسانی سے کام نہیں ملے گا اور جو کام ملے گا وہ آپ سے پورا فائدہ لیں گے۔ اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہیں، کوئی جسمانی و جنسی فائدے لینے کی کوشش کرے گا تو کوئی چودہ پندرہ گھنٹے کی مزدوری کروائے گا۔ آپ دونوں کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں، آپ دونوں گھر واپس چلے جاؤ۔

گھر والوں کا رویہ واقعی ٹھیک نہیں لیکن آپ دونوں انھیں یقیناً بہت عزیز ہو۔ وہ نہیں سمجھتے کہ آپ کی عزت نفس مجروح نہیں کرنی، وہ نہیں سمجھتے کہ آپ کی تذلیل نہیں کرنی۔ ان کی ناسمجھی کی انھیں اور خود کو اتنی بڑا سزا نہ دو۔ آپ دونوں کی مائیں پتا ہے کس حال میں ہوں گی، انھوں نے تو شائد صبح سے کوئی سکون کا سانس بھی نہ لیا ہو، کچھ کھایا بھی نہ ہو۔ ان کے اوپر اتنا ظلم نہ کرو، اپنی زندگی برباد نہ کرو۔ گھر واپس چلے جاؤ۔

وہ دونوں چپ کر کے سنتے رہے۔ میں نے انھیں ساتھ لیا اور وہاں سے رکشے میں بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن میرے کمرے میں آ گئے۔ تب تک میں نے ان کے ذہنوں میں جاری کشمکش میں کوئی خلل نہیں ڈالا، انھیں خاموشی سے سوچنے دیا۔ جب کمرے میں پہنچے تو میں نے کہا اب گھر فون کر دو۔ انھیں بتا دو کہ تم دونوں خیریت سے ہو۔

ان کے چہرے پہ رضامندی تھی، شائد وہ دیکھ چکے تھے کہ گھر سے بھاگ کر کتنی خواری سہنی پڑتی ہے۔ انھوں نے کچھ دیر بعد فون کرنے کی حامی بھری۔ میں نے بھی زیادہ زور نہیں دیا اور انھیں کچھ وقت مزید دے دیا۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ان سے کہا کہ رات ہو چکی ہے، اب گھر فون کر دو۔ پھر ان میں سے ایک نے میرے فون سے اپنے چاچو کو کال کی۔ پریشان بیٹھے گھر والوں کے لیے یہ فون کال کسی خزانے سے کم نہیں تھی۔ معلوم نہیں کتنی ہی سانسوں میں اس ایک کال سے سکون اتر گیا ہو گا۔ اس نے فون پہ انھیں بتایا کہ لاہور ہیں اور کسی کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔

تب تک رات کے آٹھ نو ہو چکے تھے۔ اس کے چاچو نے کہا کہ جس کے پاس ہو، اس سے میری بات کروا دو۔ میں نے بات کی، اپنا تعارف کروایا تاکہ انھیں حوصلہ ہو کہ ان کے بچے کسی ٹھگ کے ہتھے نہیں چڑھے ہوئے۔

انھوں نے بہت ممنونیت سے میرا شکریہ ادا کرنے لگے اور کہنے لگے کہ آپ بس کسی طرح انھیں گھر واپس آنے کی گاڑی میں بٹھا دیں۔ میں نے کہا کہ اس وقت آپ کے گاؤں کی گاڑی تو مشکل سے ملے گی، آپ چاہیں تو میں ان کے یہاں رات گزارنے کا بندوبست کر دیتا ہوں۔ صبح انھیں گاڑی پہ بٹھا دوں گا۔

وہ کہنے لگے “اس کی ماں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور وہ اسے دیکھے بغیر کچھ کھائے گی بھی نہیں، آپ انھیں فلاں جگہ کی بس پہ بٹھا دیں۔ وہ انھیں موٹروے پہ اتار دے گی۔ ہم وہاں سے جا کر لے آئیں گے۔”

میں نے ان سے مزید تفصیلات پوچھیں اور فون بند کر کے لڑکوں سے کہا کہ چلو بھائی نکلنے کی تیاری کرو۔ انھوں نے کہا کہ وہ خود چلے جائیں گے لیکن میں نے رسک لینا مناسب نہیں سمجھا، اس لیے ان کے ساتھ ہی نکل آیا۔

ریلوے اسٹیشن سے رکشے میں بیٹھ کر لاری اڈے پہنچے تو وہاں رونقیں قائم تھیں۔ بسوں کے ہارن، مسافروں کی بھاگ دوڑ ، آوازیں لگاتے کنڈکٹروں کا شور اپنے جوبن پہ تھا۔ لاری اڈے سے جب انھیں اپنی بس ملی تو رات کے دس بجنے والے تھے۔میں نے انھیں کرایہ دیا اور سختی سے کہا کہ گھر پہنچتے ہی مجھے خیریت کی اطلاع کر دینا۔ انھیں چھوڑ کر واپس کمرے میں آیا اور سوچنے لگا کہ ایک فارغ دن کا کیسا اچھا مصرف نکالا میرے خدا نے۔

رات کے شائد ایک بجے ہوں گے جب انھوں نے رابطہ کیا اور خیریت سے گھر پہنچنے کی اطلاع دی۔ یوں ایک ایسا دن اپنے اچھے اختتام کو پہنچا جس نے دو گھروں کا سکون برباد کر دیا تھا، جس نے دو زندگیاں دربدر ہوتے دیکھی تھیں لیکن خدا نے شائد ماؤں کی دعائیں سن لیں کہ صبح کے بھولے ان کے بچے شام. کو خیریت سے گھر آ گئے۔

ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

(نوٹ : یہ ایک سچا واقعہ ہے اور ان دونوں میں سے ایک لڑکا میرے پاس فیس بک پہ ایڈ بھی ہے لیکن میں اس کا نام اور اس کی شناخت ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتا)

جمال احسانی نے لکھا تھا

بھٹکے ہوؤں کو راہ دِکھانے کو کم نہیں

ٹُوٹے ہوئے دِیے کا کنارا زمین پر

باقی تو جو بھی کچھ ہے اضافی ہے سب یہاں

اِک آنکھ ہے اور ایک نظارا زمین پر

Advertisements
julia rana solicitors london

آتھر پروفائل ل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply