استعمار کی نفسیات (2،آخری حصّہ)-محمد عامر حسینی

اختر علی سید کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کی تشکیل کے بعد جو ‘سماجی صورت حال ‘ سامنے آئی اس کا ‘پوسٹ کالونیل سائیکو اینالاسز’ نہ تو ہوسکا اور نہ ہی اس کی کوئی روایت سامنے آسکی ۔
میرا خیال یہ ہے کہ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پاکستان میں جو سماجی دانشور تھے وہ مابعد نوآبادیاتی سماج کی سماجی صورت حال میں نفسیاتی صورت حال کی اہمیت سے واقف نہیں تھے یا انھوں نے اپنے تجزیے میں اسے مناسب جگہ ‘لاعلمی’ کے سبب نہیں دی بلکہ پاکستان کی سماجی صورت حال کا ‘ترقی پسند تجزیہ’ کرنے کی جو روایت ہارے ہاں تشکیل پائی اس کی داغ بیل پاکستان میں ان دانشوروں نے ڈالی جو برٹش ہندوستان میں ابھرنے والی کمیونسٹ تحریک سے وابستہ تھے اور اس کی رہنمائی کمیونسٹ پارٹی پاکستان- سی پی پی کررہی تھی جو بجا طور پر مارکس ازم کے مارکسی – لیننی طریقہ کار پر مبنی تھی –
اس دانشورانہ تحریک کا پاکستان کی سماجی صورت حال کا تجزیہ کرنے کا جو طریقہ کار تھا اس کی بنیاد تاریخ کے مادی جدلیاتی طریقہ کار پر تھی جس میں سب سے بنیادی اہمیت ‘مادی حالات اور اس سے جنم لینے والی طبقاتی جدوجہد’ پر تھی ۔
وہ سماجی صورت حال میں کار فرما جو علامتی، نفسیاتی اور ثقافتی اثرات تھے انہیں وہ مادی حالات اور طبقاتی صورت حال کے تابع خیال کرتے تھے ناکہ انہیں ان سے الگ کرکے اصل بنیاد قرار دیتے تھے۔
پوسٹ کالونیل دانشور جو تھے وہ نوآبادیاتی نظام اور اس سے جڑے نفسیاتی مسائل جیسے بیگانگی، محکومیت، خود کو کمتر جاننا، خود سے نفرت ، کمتر بنائے جانے کا نفسیاتی و ثقافتی میکنزم اسے سماجی اور معاشی حالات کی پیداوار قرار نیں دیتے نہ ہی وہ نوآبادیاتی نظام کی اصل جڑ’سرمایہ داری اور اس کی انتہائی ترقی یافتہ شکل اور مرحلے’سامراجی نظام’ اور اس سے ابھرنے والے استحصال کو سمجھتے ہیں ۔
وسائل کی لوٹ مار، محنت کے استحصال اور منافع کے حصول جیسے عوامل ان کے ہاں ثانوی حثیت قرار پاتے ہیں اور یہ اپنے پوسٹ کالونیل نفسیاتی تجزیہ میں ‘نوآبادیاتی جبر’ کو بنیادی طور پر ثفافتی شناخت۔ نسلی تعلقات یا ذاتی نفسیات کے تناظر میں دیکھتے اور اسی تناظر میں اس کی تشریح کرتے ہیں اور ان کے نزدیک نوآبادیاتی نظام اور اس کی مابعد نوآبادیاتی صورت حال کی وضاحت اور تشريح طبقاتی جدلیات پر نہیں ہوتی ۔ یا یہ جنسی و ثقافتی جبر کو طبقاتی جدلیات کا نتیجہ قرار دینے سے انکار کرتے پائے جاتے ہیں۔
ہمیں اختر علی سید کے ہاں بھی اگرچہ کھلا انکار تو نہیں لیکن ان کے تجزیے میں کہیں بھی ‘استعماریت’ کا تجزیہ کرتے ہوئے استعماریت کی وضاحت میں ‘طبقاتی جدلیات’ بنیادی حثیت کے طور پر نہیں ملتا ۔ (اور جیسا کہ انھوں نے اس کتاب کے دیباچہ میں وضاحت بھی کی کہ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف نفسیاتی تجزیہ ہی ہے۔)
ان کے مضامین کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے کہ ‘استعماریت’ کی اصل ‘طبقاتی نظام’ کی ہے جس میں نوآبادیاتی حاکم طبقات (جنھیں مارکس وادی ‘سامراجی حکمران طبقہ’ سے تعبیر کرتے ہیں) یا کالونیل بورژوازی اور نوآبادیاتی محکوم طبقات/ کالولائزڈ پرولتاریہ کے درمیان بنیادی تضاد معاشی تضادات ہیں اور جبکہ جو ثقافتی، نفسیاتی ، قومیتی ، نسلی ، لسانی ، مذہبی جبر پر مبنی تضادات ہیں وہ انہی بنیادی معاشی تضادات کا زائدہ ہیں۔
ھومی کے بھابھہ کے ہاں جو ‘تھرڈ سپیس’ / تیسری دنیا کو لیکر
Hybridity
Ambivalence
Mimicry
یا گائتری چکرورتی اسپویک کے ہاں
Epistemic Violence
Strategic Essentialism
Marginalized Voices
یا ولہم رائخ کے ہاں ‘ماس سائیکولوجی آف فاشزم’ میں ‘جنسی جبر’ اور ‘ پدر سری خاندان’ کو ‘فاشزم’ کی بنیادی پیداوار قرار دیا گیا یا ایڈورڈ سعید کا ‘اورئنٹل ازم ‘ ہے ان سب میں ہمیں ‘مابعد نوآبادیاتی سماجی صورت حال’ کے فکری اور نظریاتی تجزیے میں سماجی اور معاشی عوامل کا ان کے نفسیاتی ، ثقافتی و ديگر عوامل سے تعلق سطحی اور ثانوی نظر آتا ہے۔
یہ طبقاتی اور سرمایہ داری کے بحران کو ‘جڑ’ ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کا نظریہ نوآبادیاتی تسلط کو صرف اقتصادی یا سیاسی استحصال کے بجائے ثقافتی پیچیدگی اور علامتی طاقت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔
سماجی صورت حال کا نفسیاتی تجزیہ ‘استعمار گردی’ کے شکار خطے یا سماج میں تاریخ اور سماج کی ترقی کو مادی حالات کے تضادات کے تابع نہیں کرتا۔ اور استعمار گردی کے تحت ہونے والے جبر کی مختلف اقسام کو تاریخی جدلیات کے تناظر میں سمجھنے سے انکار کرتا ہے۔
اس طرح کے تجزیے کی ایک اور بڑی خامی پوسٹ کالونیل دور میں ہونے والے جبر سے مظلوموں کی آزادی کے لیے’اجتماعی انقلابی تحریک’ کی ضرورت پر زور نہ دینا ہے۔
نہ ہی اس کے نزدیک اس طرح کے جبر کے خاتمے کا راستا طبقاتی شعور کو پیدا کرنا اور سامراجی نظام کے خاتمے کے لیے انقلابی تنظیم اور طبقاتی اتحاد پر زور دینا ہے-
یہ تجزیہ سامراجیت کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے ایک اگلے ترقی یافتہ مرحلے کے طورپر بیان نہیں کرتا اور اس بنا پر کمزور اقوام کے مسائل اور محنت کے استحصال کے معاشی پہلو کو نظر انداز کردیتا ہے۔
اس کے نزدیک استعمار گردی کےشکار نوآبادیاتی عوام کی طبقاتی شناخت اور ان کے استحصال سے آگہی سے کہیں زیادہ ان کی مجبور و محکوم ‘ثقافتی شناخت’ اور ‘خود کی بازیابی ‘ بطور ایک مجبور و محکوم نسلی ، لسانی ، مذہبی شنآحت کے ان کی طبقاتی شناخت کے اہم ہوتی ہے۔
مارکس وادنظریہ کے مطابق ثقافت کا کردار اہم تو ہے لیکن یہان کے مادی حالات کے تابع ہوا کرتا ہے۔
ثقافتی آزادی کا سوال ہو یا حقیقی آزادی کا سوال یہ معاشی آزادی اور سیاسی خود مختاری سے براہ راست جڑے سوال ہیں جبکہ پوسٹ کالونیل دانشور ‘ثقافتی شناخت’پر زور دیتے ہوئے نوآبادیاتی مظلوموں کی جدوجہد کو مادی بنیادوں کی بجائے علامتی سطح پر محدود کرتا ہے۔
مابعد نوآبادیاتی نظام/ نیو کالونیلزم کے وقت جو حالات ہوتے ہیں یہ انہیں سمجھنے میں اس لیے ناکام رہتا ہے کیونکہ سامراجی طاقتوں کے معاشی ڈھانچوں کے زریعے تسلط برقرار رکھنے کی صورت حال کا تجزیہ نہیں کرتا –
پوسٹ کالونیل نفسیاتی تجزیہ نوآبادیاتی جبر کے انفرادی تجربے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اجتماعی محرومی اور استحصال کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ نفسیاتی جبر کی جڑیں معاشی اور مادی حالات میں ہیں، جنہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔
نوآبادیاتی نظام کے اصل تضادات طبقاتی ہیں، جنہیں پوسٹ کالونیل نظریہ اکثر نظرانداز کرتا ہے۔ ثقافتی شناخت پر زیادہ زور، مادی استحصال کو کم اہمیت دیتا ہے۔ سامراجی نظام کی اصل بنیاد، یعنی معاشی استحصال، کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔

اختر علی سید کے ‘استعمار کی نفسیات’ کے عنوان سے پاکستانی سماجی صورت حال کے نفسیاتی تجزیہ کے تحت مختلف مسائل پر اظہار خیال میں بھی ہم ان تمام نقائص کو پاتے ہیں جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ دیا ہے۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اختر علی سید نے ‘استعماریت کی نفسیات’ کے عنوان سے پاکستان کی سماجی صورت حال کا جو ‘نفسیاتی تجزیہ’ کیا اور اسے ایک مربوط اور منظم شکل میں پیش کیا اس کی کوئی حثیت اور اہمیت نہیں بنتی؟ کیا سماجی صورت حال کا نفسیاتی پہلو ہمارے علمیاتی شعور کی پرداخت میں موجود ‘استعمار گردی’ کو سمجھنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا؟ کیا اس طرح کے تجزیے کی کوئی اہمیت نہیں بنتی؟
تو میرا جواب ان سب سوالوں کے بدلے میں یہ ہے کہ بالکل اس کام کی اپنی ایک منفرد خثیت اور اہمیت بھی ہے۔ اور یہ استعماریت ، مستعمر اور استعمار تینوں کا نفسیاتی تناظر ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ پاکستان کے سماج کی سماجی صورت حال میں اس کام نے وہ راستا ہموار کرنے کی کوشش کی ہے جو کم از کم پاکستان میں کسی پوسٹ کالونیل دانشور نے ان سے پہلے کبھی نہیں ہموار کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
یہ مضامین اوکتاف ، البرٹ میمی ، فرانز فینن ، ھومی بھابھہ کی طرز پر پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام کے عام باشندوں کی نفسیات پر استعماریت کے اثرات کا ایک جامع اور تحقیقی کام کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اور اس حوالے سے اختر علی سید کا شمار اولین خشت رکھنے والوں میں ہوگا۔
میں نوجوان ساتھیوں کو اس کتاب کو پڑھنے کو کہوں گا ۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply