ّتپن بوس۔دہلی میں کشمیر کیلئے دھڑکتا دل رک گیا(3،آخری حصّہ)-افتخار گیلانی

اسی طرح رپورٹ کے مطابق یکم مارچ1990 کو نصف ملین سے زیادہ افراد سری نگر کی سڑکوں پر تھے ۔ اس دن تین مختلف مقامات ،زکورہ، ٹینگ پورہ،بمنہ بائی پاس، اور شالیمارپر بھارتی نیم فوجی دستوں نے لوگوں پر گولی چلائی، جس سے بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔بچ جانے والوں میں سے ایک، 30 سالہ محمد اسلم نے اس ٹیم کو آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہا کہ فوجی گاڑیوں نے ان کی بس روکی، مسافروں کی تمام منت سماجت نظر انداز کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین نے فوجی اہلکاروں کے بچوں کو لے جانے والی ایک گاڑی پر پتھراؤ کیا تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں نے اس رپورٹ کو سراسر جھوٹ قرار دیا، کیونکہ اس وقت وادی میں تمام سکول سرمائی تعطیلات کے باعث بند تھے۔ مزید برآں، فائرنگ کے مقام کے قریب کوئی فوجی سکول موجود نہیں تھا۔ زخمیوں میں شامل 22 سالہ بشیر احمد نے اس ٹیم کو بتایا کہ فوجی گاڑیاں زبردستی جلوس میں گھس آئیں اور سب مشین گنوں سے فائرنگ کی۔ اس کے دائیں بازو کی کہنی بری طرح چکناچور ہو گئی۔فوجی اہلکاروں میں سے ایک نے جلوس کے آگے چلنے والے ایک بزرگ شخص کے ہاتھ سے جھنڈا چھین لیا۔ اس کے فوراً بعد، فوجی اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس سے کئی افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ پھر مزید فوجی جوانوں نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔ یہ تپن بوس اور اس کی ٹیم کی تیار کردہ رپورٹ کے بس چند اقتباسات تھے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود کشمیری مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں سے مسلسل دور رکھنے کی کوشش کئی گئی تھی۔ ان کے مطابق 1990میں کل 12,323 گزیٹڈ ملازمتوں میں ہندو 51.18فیصد ہیں، جبکہ آبادی میں ان کی شرح 28سے 29فیصد ہے۔ ریاست میں مرکزی سیکٹر کی کل 1,928 افسرانہ ملازمتوں میں ہندو 83.66فیصد اور مسلمان6.89فیصد تھے۔ حتیٰ کہ کلرک کی آسامیوں پر بھی 79.27فیصد ہندو اور کلاس فورتھ میں بھی ہندووں کی تعداد 72.87تھی۔ یعنی مسلمانوں کیلئے ملازمتوں کے دروازے مرکزی سیکٹر میں کم و بیش بند تھے۔ تپن بوس پاکستان ۔انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی(پی آئی پی ایف پی ڈی) کے بانیوں میں سے تھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی روابط کے حوالے سے یہ ایک سنجیدہ اور زمین سے جڑا ہوا فورم تھا۔ بعد میں بطور فیشن سیفما اور امن کی آشا نے اس کی بھونڈی نقل کرنے کی کوشش کی، مگر چونکہ یہ اشرافیہ کی فورمز تھیں، ان کا ناکام ہونا طے تھا۔ عوامی رابطوں کو مستحکم کرنے کے بجائے یہ ایک طرح کی ٹریول ایجنسیاں تھیں، جو اشرافیہ کیلئے بھارت اور پاکستان کے ٹور کے انتظامات اور ان کو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرانے کے انتظامات کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ پی آئی پی ایف پی ڈی کا ایک بڑا کنونشن 1996 دسمبر 28۔31 کو کولکتہ میں منعقد ہوا تھا، جس میں چار سو سے بھی زائد مندوبین پاکستان سے شریک تھے۔ آئی اے رحمان، نرمل مکرجی، ایڈمیرل رام داس ، مبشر حسن کی موجودگی اس فورم کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی تھی۔ تپن کی موت پر کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے جنگ کے خلاف ایک اور جنگجو کو کھو دیا ہے۔وہ ایک تحریک کا سرچشمہ اور حکمت کا سمندر تھے، ان کا آہنی عزم، ان کی توانائی اور ایک آزاد خیال عالمی نظام کے لیے ان کا واضح نظریہ، وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے انہیں بہت سے لبرلز، کارکنوں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں کے لیے ایک روشن ستارہ بنا دیا تھا۔‘‘ بطور فلم ساز بہار کے بھاگل پور میں پولیس کی طرف سے نابینا کرنے کے واقعات اور بھوپال گیس سانحے پر ان کی فلمیں، دنیا بھر میں لوہا منوا چکی تھیں۔ ان کو کئی عالمی ایوارڈز سے نوازا جا چکا تھا۔انہوں نے بے خوفی سے بھاگلپور میں پولیس کے ہاتھوں زیر حراست افراد کو بینائی سے محروم کیے جانے کے مظالم کو دستاویزی شکل دی اور بھوپال گیس سانحے کے پیچھے کارپوریٹ کردار اور حکومتی غفلت کو بے نقاب کیا۔وہ پیپلز ٹریبیونل آن ایودھیا کا بھی حصہ تھے، جس نے بابری مسجد کی مسماری کے پیچھے فرقہ وارانہ سیاست کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ان کا انصاف کے لیے عزم 2002 کے گجرات قتل عام کے بعد بھی برقرار رہا، جہاں انہوں نے متاثرین کے ساتھ مل کر جوابدہی اور بحالی کے لیے کام کیا۔ ان کی وسیع معلومات، واضح نظریہ اور زبردست خطابت بے حد متاثر کن تھی۔وہ ہمیشہ کہتے: ’’آپ صحیح وقت کے انتظار میں تبدیلی کے لیے کام شروع کرنے میں دیر نہیں کر سکتے۔ آپ کو اسے ممکن بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تبھی حالات بدلیں گے۔‘‘ ان کے خیالات سننا ہمیشہ ایک خوشگوار تجربہ ہوتا تھا، اکثر ان کی گفتگو میں مزاح اور ظرافت شامل ہوتی۔ اپنے مرتبے کے باوجود، وہ نہایت صبر و تحمل سے سننے والے تھے۔ وہ ایک نوجوان کارکن یا طالب علم کو بھی اسی سنجیدگی سے لیتے جیسے کسی سینئر ساتھی کو۔ مجھے یاد ہے کہ 2016میں کشمیر ٹائمز کے بانی وید بھیسن کی پہلی برسی کے موقع پر لیکچر دینے وہ جموں آئے تھے۔ جموں میں ہندو انتہاپسند نظریات اپنے عروج پر تھے۔ مگر تپن نے کوئی مصلحت نہیں برتی۔ انہوں نے ہندو اکثریتی سیاست کے خلاف کھل کر بات کی، عوامی سطح پر امن کے قیام کی وکالت کی، اور بھارت-پاکستان امن میں کشمیر کی مرکزیت پر زور دیا۔انہوں نے ریاستی سطح کے امن اور عوامی سطح کے امن میں اہم فرق کو واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا حکومت کوئی بھی ہو، ان کی طرف سے تھوپا گیا امن سطحی ، کمزور اور غیر مستحکم ہوتا ہے، حقیقی اور دیرپا امن عوامی سطح پر ہی قائم کرنا ہوگا۔ دہلی میں دوستوں کا کہنا تھا کہ تپن کی صحت مسلسل گرتی جار ہی ہے اور وہ کئی بار اسپتال میں داخل رہے ہیں، مگر ان کا وژن اب بھی اتنا ہی واضح اور ان کے دلائل اتنے ہی مضبوط ہیں۔ ان کی اہلیہ اور معروف صحافی ریتا منچندا، ان کی بیٹی مشتی، ان کے پوتوں رودرا اور سومنش کو دلاسا دینے اور تعزیت کیلئے مجھے الفاظ ہی نہیں مل رہے ہیں۔ تپن ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے، ہمارے ذہنوں میں ان کے الفاظ موجود رہیں گے۔ان کا وژن ہمیشہ ہمارے درمیان رہیگا۔حالانکہ وہ حالیہ برسوں میں کئی بیماریوں سے نبرد آزما تھے۔کئی برسوں سے اب ان کے ساتھ تعلق نہیں رہا تھا۔ ان کی عدم موجودگی نے جنوبی ایشیا میں امن، انسانی حقوق اور انصاف کی جدوجہد میں ایک بڑا خلا پیدا کیا ہے، جس کو پر کرنا ناممکن ہے۔ الوداع ! تپن بوس ، دہلی میں کشمیر اور کشمیریوں کیلئے دھڑکتا دل ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply