کیا مابعد نوآبادیاتی نفسیاتی تجزیہ ہمارے کام آسکتا ہے؟
اختر علی سید کا شمار ہمارے سماج کے ان ‘دانشوروں’ میں ہوتا ہے جن کے شعور کا خمیر 80ء کی دہائی تک سماج میں سرگرمی سے موجود اس نظریاتی جدال میں پروان جڑھا جس میں ایک طرف تو بائیں بازو کی روایت اور لبرل روایت کے باہم گھلے ملے رجحانات کا زور تھا اور پوسٹ ماڈرن ازم بھی ہلکے ہلکے سر اٹھا رہا تھا۔ دوسری طرف دائیں بازو کے نرم گرم رجحانات پر مشتمل روایت تھی اور ساتھ ہی ان کی انتہائی خوفناک شکلیں اپنا سر اٹھا رہی تھیں – آج روشن خیالی اور ترقی پسند کے نام پر زیادہ تر پوسٹ ماڈرن ازم کا غلبہ ہے اور دوسری طرف دائیں بازو کی بربریت اور سفاکیت پر مشتمل روایت غلبہ کیے ہوئے ہے۔ جبکہ دوسری ہماری ریاست پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک اور حکمران طبقات کا استحصال اور جبر قریب قریب غیر مثالی صورت اختیار کر چکا ہے۔ غنمیت ہے کہ وہ مکالمے اور نظریاتی جدال پر یقین رکھتے ہیں۔
کچھ روز قبل ، اختر علی سید کے مضامین کے مجموعے پر مشتمل شاعع ہونے والی کتاب موصول ہوئی ۔ کتاب کا نام ہے’استعمار کی نفسیات’ ۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہ یہ مضامین لکھنے پر مجبور کیوں ہوئے؟
[پاکستان کے حقیقی بحران پر برس ہا برس سے جاری گفتگو میں سیاسی ، اقتصادی،سماجی اور مذہبی حوالوں کی بھرمار ہے مگر ہماری صورت حال کا نفسیاتی تجزیہ مقفود ہے]
ان کے نزدیک اس کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں لیکن اصل سبب ماہرین نفسیات کا اس طرف متوجہ نہ ہونا ہی قرار پائے گا۔
ان کی رائے میں جو خطے استعماریت/ نوآبادیاتی ںظام کا حصّہ رہے وہاں کی سیاسی صورت حال کے نفسیاتی تجزیے کا جو طریقہ کار پوسٹ کالونیل / مابعد نوآبادیات دانشوروں نے بنایا وہ طریقہ کار آج بھی ہمارے خطے کی صورت حال کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہے۔
وہ اس سلسلے میں خصوصی طور پر چند اہم مابعد نوآبادیاتی دانشوروں کا زکر کرتے ہیں- ان کے خیال میں کسی نوآبادیاتی خطے کے نفسیاتی تجزیے کا بنیادی طریقہ کار اولین طور پر دو بڑے ماہرین نفسیات نے وضع کیا تھا۔ ان میں ایک فرانسیسی ماہر نفسیات ہے اور دوسرا الجزائر سے تعلق رکھنے والا ماہر نفسیات تھا-
اوکتاف مانونی (29 آگست 1899-30 جولائی 1989)
Octave Mannoni
فرانز فینن (20 جولائی 1925- 6 دسمبر 1961)
Frantz Omar Fanon
یہ جو نوآبادیاتی آقا / حاکم اور نوآبادیاتی غلام / محکوم یا اختر علی سید کے ہاں مستعار لیے گئے الفاظ کی روشنی میں استعمار اور مستعمر کی جو نفسیات ہے اس کا پہلا تفصیلی اظہار اوکتاف مانوی کی کتاب:
Prospero and Caliban: The Psychology of Colonization
میں پڑھنے کو ملی تھی ۔ ‘استعماریت کی نفسیات’ کی پہلی پہل بنت کاری ہمیں اوکتاف مانونی کے ہاں اس کتاب میں ملتی ہے۔ اگرچہ اوکتاف مانونی کے نظریات پر ان کے معاصرین اور بعد میں آنے والے پوسٹ کالونیل دانشوروں نے تنقید کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ وہ ‘محکوم / مستعمر’ کی نفسیات کو غیر سیاسی پن کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے اوکتاف مانونی کے نظریہ
Dependency Complex
کے نظریے کو اپنی کتاب ‘ریچڈ آف دا ارتھ’ (ہمارے ہاں پروفیسر باقر سجاد رضوی صاحب نے اس کا انتہائی شاندار ترجمہ “افتادگان خاک” کے نام سے کیا تھا۔) میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔
یہآں میں ایک اورافریقی ادیب اور دانشور کا خصوصی زکر کرنا چاہوں گا اور وہ ہے:
البرٹ میمی (15 دسمبر 1920- 22 مئی 2020)
Albert Memmi
اگرچہ اختر علی سید نے اپنے طریقہ کار کی وضاحت میں اہن کا زکر نہیں کیا لیکن میں نہیں سمجھتا کہ وہ پوسٹ کالونیل اسٹڈیز میں نفسیاتی و ثقافتی تجزیہ کاری کے اتنے اہم دانشور اور اس کے کام سے نا واقف ہوں گے جس نے خود فینن کی سوچ اور اس کے خیالات پر دیرپا اثرات مرتب کیے تھے۔ تیونس میں پیدا ہونے والا البرٹ میمی کا باپ ‘کرسچن عرب’ اور ماں ‘ یہودی عرب’ تھی – اور اس نے اپنی ابتدائی زندگی انتہائی کسپمرسی میں بسر کی تھی- ان کی 1957ء میں پہلی کتاب شاعع ہوئی جس کا عنوان
The Colonizer and the Colonized
اس کتاب کی اشاعت کے چار سال بعد 1961ء میں فینن کی کتاب ‘ریچڈ آف دا ارتھ’ شائع ہوئی جس پر البرٹ میمی کی کتاب کے اثرات بہت واضح تھے۔ اس سے پہلے 1952ء میں فنین کی کتاب فرانسیسی زبان میں ‘پہ نواغ، ماسک بلانک” ( کالی جلد، سفید نقاب) کے عنوان سے شائع ہوچکی تھی ۔ فینن نے اس کتاب میں دکھایا تھا کہ کیسے نوآبادیات میں رہنے والے لوگ نوآبادیاتی قبضے کے دوران کیسے ایک کمتر مخلوق سے آگے ‘سفید فام’ ہونے کی اداکاری کرنے لگتے ہیں۔ فینن کا خیال تھا کہ جب نوآبادیاتی باشندہ سفید فام حکمرانوں کی زبان استعمال کرنے لگتا ہے اور ان کی اداکاری کرتا ہے تو سفید فام حکمران طبقہ اسےمثبت تبدیلی کی بجائے خطرناک عمل گردانتا ہے۔ اور ساتھ ہی کالی جلد والے باشندے کا سفید فام نقاب اوڑھ لینا اور ان کی نقالی کرنا خود اپنے بھائی بندوں کے لیے کس قدر خطرناک ہوجاتا ہے اور ان پر زبردست جبر کا سبب بنتا ہے۔ اوکتاف مانونی پر تنقید کرنے والوں میں ہندوستان سے اشیش نندی ، گائتری چکرورتی اسپویک اور فلسطینی عرب نژاد دانشور ایڈورڈ سعید بھی شامل تھے۔ دیکھا جائے تو بنیادی طور پر پوسٹ کالونیل دانشوروں نے پوسٹ کالونیل / مابعد نوآبادیات دور میں سابقہ نوآبادیاتی خطوں اور ممالک کی سماجی صورت حال کے نفسیاتی تجزیے کی تشکیل میں ‘سگمنڈ فرائد’ کے تصور جنس سے مدد لی ۔ ان میں ولہم رائخ ، ایرک فرام ، میشل فوکو اور خود ھومی کے بھابھہ شامل تھے۔ اور اختر علی سید نے ‘پاکستان کی سماجی صورت حال’ اپنے مضامین میں جو مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا وہ بنیادی طر پر انہی مابعد نوآبادیاتی دانشوروں کے طریقہ کار اور اخذ کردہ نظریات پر ہی مبنی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اختر علی سید جسے ‘استعمار کی نفسیات’ کے عنوان سے پاکستانی تناظر کو جو زیر بحث لائے ہیں وہ ‘مابعد نوآبادیاتی نفسیاتی تجزیے’ پر مشتمل طریقہ کار ہے جسے انگریزی میں ‘پوسٹ کالونیل سائیکواینالاسز’ کہتے ہیں ۔ اور یہ سامراج ، نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کے تحت فرد اور معاشرے کی ‘نفسیاتی حالت’ کو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا فریم ورک ہے جو نوآبادیاتی جبر کے ثقافتی، نفسیاتی اور علامتی اثرات کا تجزیہ کرتا ہے۔ اس میں خود کی نفرت، اپنی بے گانگی اور شناخت کے بحران کو زیر بحث لایا جاتا ہے ۔جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں