نوآبادیاتی شغل (کتاب) میلے/ ذوالفقار علی زلفی

بلوچستان میں کتاب میلوں پر پنجابی نوآبادکار کو کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ـ یہ کتاب میلے عموماً سیاسی دباؤ کم کرنے اور نوآبادکار کا بیانیہ پھیلانے کا کام کرتے ہیں ـ عام طور پر ان میلوں میں سندھ و پنجاب کے “شہری بابو” خصوصی طور پر بلائے جاتے ہیں جو پاکستان اور بلوچ کے نوآبادیاتی رشتے کو احساس محرومی، پس ماندگی اور ناانصافی جیسے اصطلاحات کے پیچھے غائب کردیتے ہیں ـ یہ “شہری بابو” جو دراصل خود نوآبادکار جیسی احساس برتری کے حامل ہوتے ہیں نوآبادی بنائی گئی قوم کو انہی کے قومی مسئلے پر لیکچر دیتے پائے جاتے ہیں ـ بعض “شہری بابو” بلوچ جہدِ آزادی کو دہشت گردی اور نوآبادیاتی فوج کی وحشت ناک دہشت گردی کو آپریشن قرار دے کر مسئلے کے پرامن حل کی تجاویز بھی دیتے ہیں ـ

بلوچستان کے کتاب میلوں کی دوسری بڑی اکثریت نوآبادیاتی دانش وروں سے دوستی کا دم بھرنے والے “بلوچ لیفٹ اسٹ دانش ور” ہوتے ہیں ـ یہ طبقہ اسلحہ پر کتاب کو ترجیح دینے کا بظاہر خوش نما پروپیگنڈہ کرتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے بلوچ سرمچار ایک ان پڑھ اور گنوار وحشی ہے جس کا کتاب سے کوئی رشتہ و ناطہ نہیں ہے ـ یہ طبقہ چوں کہ فکری طور پر پنجابی نوآبادکار کے دانش وروں کا ساتھی ہوتا ہے اس لئے یہ بلوچ مسئلے کا حل بھی انہی کی دانش ورانہ سرگرمیوں میں تلاش کرتا ہے ـ یہ نوآبادیاتی نظام کے رد میں ابھرنے والی قوم پرست تحریک کو نسل پرستی قرار دے کر پاکستان کے دیگر اقوام کے محنت کش طبقوں سے جُڑت اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب بپا کرنے کا عجیب مشورہ بھی دیتا رہتا ہے ـ بلوچستان کا لیفٹ اسٹ گروہ گوکہ ایک اکائی نہیں ہے یہ مختلف گروہوں میں منقسم ہے لیکن مسلح قوم پرست تحریک سے ان کی بیزاری مشترک ہے ـ

“بلوچ دانش وروں” کا یہ گروہ اپنے نظریے کی حقانیت اور درستی کے لئے نوآبادیاتی دانش وروں سے خوشہ چینی کرتا ہے ـ جس طرح نوآبادیاتی دانش ور بلوچ مسلح جدوجہدِ آزادی کو وفاق کی ناانصافیوں کے ردعمل میں ہونے والی دہشت گردی قرار دے کر ہم دردی کے پردے میں اس جدوجہد کو گم راہی کا نام دیتا ہے ـ ٹھیک اسی طرح “بلوچ دانش ور” بھی یہی نظریہ اچک کر اس پر رومانی قوم پرستی کی پالش کرکے پاکستان کی فوجی کنٹرول پر مبنی جمہوریت کے ذریعے بلوچ مسئلے کے حل پر زور دیتا ہے ـ

بلوچستان کے کتاب میلوں میں شرکت کرنے اور علم پھیلانے والا تیسرا گروہ نوآبادیاتی اسمبلیوں اور اداروں میں جگہ پانے کی تمنا میں مبتلا پارلیمانی قوم پرستوں کا ہے ـ اس گروہ کا طریقہِ وردات یک سر مختلف ہے ـ یہ بلوچستان کے قومی ابھار برائے قومی آزادی کو حالات کی خرابی سے تشبیہہ دے کر پاکستانی فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر بلوچستان کی نوآبادیاتی حیثیت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے ـ یہ گروہ جمہوریت، انسانی حقوق، آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کے تقدس کی دہائی دیتا رہتا ہے ـ

گوادر، تربت، خضدار یا کوئٹہ میں منعقد ہونے والے بڑے بڑے کتاب میلے اسی قسم کی نوآبادیاتی سرگرمیاں ہیں ـ ان میلوں ٹھیلوں میں مقامی اور نوآبادکار کے درمیان موجود مخاصمانہ تضاد کو غائب کرکے مسئلے کو نوآبادیاتی دانش وروں کی نگاہ سے دیکھا اور دکھایا جاتا ہے ـ نوآبادیاتی دانش ور مہمان خصوصی بن کر ان شغل میلوں میں آتے اور انسان حقوق کی بدترین پامالی؛ جبری گم شدگی، مسخ لاشوں اور اجتماعی قبروں کو ایک مخصوص ادارے کے چند جرنیلوں کی غلطی قرار دیتے ہیں ـ ان شغل میلوں میں شریک بلوچ انٹیلی جنشیا (جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے) اس بیانیے کی جگالی میں لگا رہتا ہے ـ حالاں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرتشدد نوآبادیاتی مشین میں فیڈ کیا گیا سفاک عمل ہے جس کا ایک ادارے کے چند جرنیلوں کی “غلطی” سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ـ

اخبارات میں بڑھک بازی پر مبنی خبریں شائع کی جاتی ہیں کہ جی بلوچستان کے فلاں شہر کے کتاب میلے میں 30 لاکھ کی کتابیں بِک گئیں ـ نوآبادیاتی دانش سے متاثر بلوچ انٹیلی جنشیا بھی بڑے فخر و انبساط کے ساتھ ان خبروں کو آگے پھیلاتا رہتا ہے ـ پروپیگنڈے کے اس گھٹاٹوپ جنگل میں یہ سوال کوئی نہیں اٹھاتا کہ جس ریاست کو تربت و خضدار کے چھوٹے چھوٹے کتاب فروشوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ ان شغل میلوں میں تیس تیس لاکھ کی کتابیں فروخت ہونے پر ٹس سے مس کیوں نہیں ہوتا؟ ـ آخر ایسا کیا ہے جو “یہاں پیو تو حرام ہے جو وہاں پیو تو حلال ہے” ـ

شغل میلوں کی اجازت دینے والے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے کتاب کاروان سے پریشان کیوں ہیں؟ ـ طلبا کو گرفتار کرکے کتابیں ضبط کیوں کی جا رہی ہیں؟ ـ چند سال قبل بلوچستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں چھاپہ مار کر کتابیں ضبط کی گئیں ـ آخر ایسا کیا ہے جو شغل میلوں اور طلبا کی کتابوں میں فرق پیدا کرتا ہے؟ ـ

بلوچ قوم پرست طالب علم ایک مخصوص نظریہ رکھتا ہے جو اس کے وطن پر جاری جبری قبضے، وطن زادوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے مشتق ہے ـ طلبا نوآبادیاتی نظام کا رد اور مزاحمت کا فلسفہ بیچتے ہیں ـ وہ سرکاری بیوروکریٹ بننے کے نسخے، افلاطونی عشق و عاشقی کے قصے، بے روح شاعری اور پاکستانی برانڈ اسلام کے فضائل کا نشہ فروخت نہیں کرتے ـ

قوم پرست طلبا گلی محلوں میں جاکر اسٹال لگاتے ہیں جس سے عوام کا صرف کتاب سے ہی نہیں بلکہ ان طلبا سے بھی ایک فکری تعلق بن جاتا ہے ـ طلبا کے کتاب اسٹالوں پر بھانت بھانت کی بولیاں، شغل میلے، سستی تفریح اور یاوہ گوئی کے بجائے فکری مکالمے کی فضا نظر آتی ہے ـ گلی محلوں میں طلبا کا اکٹھ ایک فکری و نظریاتی اجتماع ہوتا ہے جس میں نوآبادکار کے بیانیے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ـ یہی وجہ ہے کہ نوآبادکار اس سرگرمی کو “منفی” قرار دے کر اس پر روک لگانے کی کوشش کرتا ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب میلوں کا “بلوچ دانش ور” سستی جذباتیت اور غیر حقیقی رومان پسندی پھیلا کر داد بٹورتا اور چادر جھاڑ کر اگلے میلوں کی تیاری میں جت جاتا ہے ـ طلبا کے ہاں تجسس، غور و فکر، مزید جاننے و سمجھنے کی چاہت اور عوام سے جُڑت کی منہ زور تمنا ہوتی ہے ـ وہ داد و تحسین کی بھوک سے بے نیاز اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے ـ اس فرق کو نوآبادکار بخوبی سمجھتا ہے اس لئے کتاب میلے نوآبادیاتی طاقتوں کی آشیرباد سے “کامیاب” جب کہ کتاب کاروان انہی قوتوں کے حکم پر سبوتاژ کئے جاتے ہیں ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply