شاعری ایک ایسا اظہار ہے جس کے ذریعے جملہ انسانی جذبات و احساسات اور روئیوں کو زبان دے کر انسانوں کے مابین تعلقات کو نئے سرے سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ شاعری کے علاوہ نثر میں یہ کام ہو سکتا ہے اور بہت عمدہ انداز میں ہوتا ہے لیکن جو شدت اور متاثر کرنے کی استعداد شاعری میں ہے وہ نثر میں نہیں ہے۔ ایک شعر بعض دفعہ انسانی جذبے کا ایسا عکاس بن جاتا ہےکہ صدیوں گزرنے کے بعد شعر کی اثریت کم نہیں ہوتی۔ بعض مصرعے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں جن میں زمانی و مکانی تفاوت کے باوجود کائناتی سچائی کا آفاقی عنصر مدغم ہو تا ہے۔
اُردو شاعری کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ اس میں ولی دکنی سے مرزا غالب اور علامہ اقبال سے فیض احمد تک اور احمد فراز سے جون ایلیا تک ایسے خوبصورت اور ناقابلِ فراموش شاعر اُردو زبان کو نصیب ہوئے جنھوں انسانی جذبات و احساسات اور روئیوں کو کھل کر شاعری کی زبان میں بیان کیا۔ انسان جذبات و احساسات اور روئیوں کا مجتمع ہوتا ہے ۔ جذبات کا انسانی روئیے کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ رویہ سے مراد انسانی طرزِ کلام و پیش گفتار ہے جو اسے ایک دوسرے سے بُعد و قُرب کے ذرایع مہیا کرتی ہے۔
یہ روئیے اپنی ذات میں مثبت او ر منفی دونوں قسم کے رجحانات لیے ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے اپنے معیارِ زیست ہوتے ہیں جن پر عمل داری وہاں کے باسیوں پر ضروری قرار دی گئی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک معاشرے میں رہنے والا شخص اسی معاشرت کے اُصول و قوانین کو اپنے فعل سے منہدم کر ڈالے اور یہ جواز فراہم کرے کہ میں ایسے ہی یہاں زیست کرنےکا رویہ اختیار کیے رکھوں گاکہ مجھ پر کسی بیروانی پابندی کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ نعمان الحق “ہمارے رویے کی تشکیل ” میں لکھتے ہیں:
“اگر کوئی پوچھے کہ زندگی میں سب سے اہم چیز کیا ہے؟ تو اس کا جواب ہے ”رویہ”، جسے انگریزی میں attitude کہتے ہیں۔اب رویہ یعنی “ایٹی چیوڈ” کے بارے میں عوام الناس کی معلومات کا عالم یہ ہے کہ اسے “تکبر” کے معنوں میں لیا جاتا ہے، یعنی اکثر مغرور لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں میں بڑا’ ایٹی چیوڈ ‘ہے۔ حالانکہ تکنیکی طور پر یہ جملہ بالکل غلط ہے۔ذرا سوچیے، جو قوم زندگی کی اہم ترین چیز سے متعلق ایسے غلط تصورات رکھتی ہو، اس کے افراد اپنی زندگیوں میں کیسی کیسی حماقتوں اور نادانیوں کے مرتکب ہوتے ہوں گے۔
کسی بھی معاشرے کے افراد کا مجموعی رویہ اس قوم کی پہچان ہوتا ہے۔ اگر ہم تعلیم یافتہ اورباشعور لوگ ہیں تو اس کا اظہار ہمارے رویوں سے ہونا چاہیے۔ ہمیں کوئی کام اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ سب ہی کررہے ہیں، بلکہ اس لیے کرنا چاہیے کہ وہ درست کام ہے ، اگر بیشتر لوگ کوئی غلط کام کررہے ہوں تو بھی ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے عمل اور رویوں سے ثابت کرنا چاہیے کہ ہم باشعور قوم کے افراد ہیں۔ یہ رویے ہی دنیا میں ہماری پہچان اور شناخت بنتے ہیں۔
اُردو شاعری میں شعرا کے ہاں سماجی روئیوں پر کھل کر اظہارِ خیال ہوا ہے ۔ کلاسیکی شاعری سے لے کر جدید اُردو غزل تک جملہ شعرا نے ا نسانی رویوں کی متنوع صورتوں کو شعر کی زبان عطا کی ہے۔ شاعر اپنے سماج کا نباض ہوتا ہے اور وہ حساس ہونے کی وجہ سے ایک عام انسان کی نسبت زیادہ گہرائی اور گیرائی سے انسانی روئیوں کی نفسیات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جون ایلیا کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے ہاں انسانی سماجی روئیوں کی ترجمانی ناقدانہ انداز میں ہوئی ہے۔ ان کے ہاں انسانی روئیے تجسیم ہو کر شاعری کے کینوس پر اس طرح پوٹریٹ ہوئے ہیں کہ انسانی نفسیاتی کی پیچدہ گھتیوں کے سلجھاؤ کا جملہ سامان فراہم ہو گیا ہے۔ جون ایلیا کے ہاں انسانی روئیوں کی بازگشت سخت تنقیدی انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ جون ایسا شاعر ہے جس نے اپنی ذات کےنہاں خانوں کو جلاوطنی کی صورت اپنے باطن پر جھیلا ہے۔ اس شخص نے برصغیر کی مجموعی تہذیب کو تنزل سے آشکارا ہوتے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ پاکستانیت کے تصور کو ہجرت کے المناک سانحے سے متصل کر کے اس کا نوحہ لکھا ہے۔
جون ایلیا کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدم بیزار شاعر ہے جسے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی ۔اس کے ہاں کسی چیز کی کشش اور اپنائیت موجود نہیں ہے۔ یہ شخص نرگسیت کا مارا ہوا ہے ،اس شخص کو اپنے سوا ہر چیز میں نقص دکھائی دیتا ہے۔ اس شخص کی طبیعت میں یاسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔
جون ایلیا کے ہاں مذکور تاثر کی بابت ان کی ذاتی زندگی کے سانحات کے علاوہ بیرونی احوال کا تنزل شدہ باہمی امتزاج بھی ہے۔جون کے ہاں انسانی روئیوں کی متنوع صورتیں دکھائی دیتی ہیں جن سے جون کی ذاتی عدم دلچسپی منافرت کی حد تک پائی گئی ہے۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
خاموشی کی اس دبیز صدائے احتجاج کو محسوس کر کے دیکھیے۔ جون نے آسانی سے یہ نہیں کہا ہوگا۔ مستقل بولنے کی اذیت سے زیادہ تکلیف دہ عمل خاموش ہو جانے کا۔ محبت ہونے کےباجود گلہ نہ کرنے کی خواہش میں چھپی اذیت کو ملاحظہ کیجیے۔جون جب کہتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہونے کے احساس سے ڈر لگنے لگا ہے تو ذرا محسوس کیجیے کہ ایسا کیوں ہے ۔یہ کون سا سماجی رویہ ہے جو اپنے اندر اطمینان کی جگہ خوف اور اندیشے کو چھپائے ہوئے ہے۔
دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
زندگی کو بے معنی قرار دینے والا زندگی کو گل و گلزار ہونے کی وجہ ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ بے اطمینانی،بے چینی اور اضطراب کو ایک حساس کے ہاں تسلسل سے دیکھنے پر جگر کٹتا محسوس ہوتا ہے۔ شاعر الفاظ و احساس کے سہارے زندگی کا سفر کاٹتا ہے ایسے میں جب خواب دکھانے والے تعبیر کے حصول میں آنکھیں چھین لیں تو انسان سوائے ماتم سرائی اور خاک پیمائی کے اور کیا کر سکتا ہے۔جون کے ہاں خوابوں کے بیچنے اور آرزؤں کے قتل ہونے کا سماجی المیہ جا بجا نظر آتا ہے جو سماج کے اخلاقی تنزل کا شاخسانہ ہے۔
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
یاد ،اُسے ہم انتہائی کرتے ہیں
سو ہم اُس کی برائی کرتے ہیں
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اُس سے جلتے ہیں
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
خطرہ نہ ہونے کےباوجود سبھی کو سبھی سے خطرہ ہونے کا اندیشہ سماجی انحطاط کا نوحہ ہے جسے جون کے ہاں جابجا دیکھا جا سکتا ہے۔ جون نے تقسیم کے بعد بننے والے نئے وطن میں زندگی کے مثالی تصور کا خواب دیکھا تھا ۔ تعبیر کی بھیانک صورت دیکھ کر یہ شخص اوروں کی طرح حواس سے عاری ہو گیا۔ اس کے ہوش مختل ہو گئے اور شعور کو کالی بلی نے زہریلے پنجوں سے ادھیڑ ڈالا ۔ کسی شخص کی بات سے اس حد تک اُکتا جانا کہ بیزاری بھی پناہ مانگنے لگے ،یہ عمل انسانی رویے کی مکروہ ترین مثال ہے۔
اے شخص میں تیری جستجوسے
بے زار نہیں ہوں تھک گیا ہوں
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
اک عجب حال ہے کہ اب اُس کو
یاد کرنا بھی بے وفائی ہے
یہ کیسی تکلیف دہ بات ہے کہ جس شخص کے لیے انسان زمانے سے لڑ جائے ،وہی شخص بے وفائی کے مثالی معیارات متعین کرنے میں اپنے آپ سے گزر جائے۔ جون کے ہاں انسانی سماجی روئیوں پر شدید تنقید کا رجحان اس لیے ملتا ہے کہ اس شاعر کو خواب دکھائے گئے تھے، زندگی کا مثالی تصور سمجھایا گیا ہے۔ زیست کے درخشاں پہلوؤں کا سبق دیا گیا تھا۔ حیات کے لطیف اور دلنشیں تصورات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ محبت پیار امن رواداری او رباہمی افہام و تفہیم کے حیاتی تصورات سے اس کی پرورش ہوئی تھی۔ شعور سنبھالنے کے بعد جب اس شخص نے اپنے ارد گرد دہشت گردی کی منافرانہ کارگزاریوں کو دیکھا تو حواس باختہ ہو کر ہذیان بکنا اور شعور سے عاری گفتگو میں لایعنیت اور قنطوطیت کا اظہار کرنا اس کا تکیہ کلام نہ بنتا تو اور کیا کرتا۔
نہیں دُنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دُنیا کی پروا کیوںکریں ہم
کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مرا طورِ زندگی ہی نہیں
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
ایک ہی تو ہوس رہی ہے ہمیں
اپنی حالت تباہ کی جائے
جون جس ہوس کی خواہش کا ذکر کر رہا ہے،یہ اس کی اپنی یعنی خودساختہ خواہش نہیں ہے بلکہ سماج کے انسانی روئیوں کی دین ہے جس نے جون ایسے بے باک شاعر کو جو تعمیرِ حیات کے فلسفے کا داعی تھا ،تخریبِ حیات کے تصورات کا مبلغ بن بیٹھا۔ اس شخص کو اپنے آپ سے بے وجہ کی منافرت اور بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کے ہاں بیرونی احوال کی مذموم تنزل آمیز کارروائیوںکا بیان ہے جو اس کا اپنا تجربہ ہونے کے ساتھ معاشرے کی اجتماعیت کا المیہ بن گیا ہے۔
جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں
تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سارا سرو ساماں جلاتے جائیے
یہ بہت غم کی بات ہو شائد
اب تو غم بھی گنوا چکا ہوں میں
غم گنوانے کی چیز تھوڑا ہوتے ہیں لیکن شاعر کے غموں کے گنوانے کا فلسفہ بھی اپنے اندر بے حسی و بے مرورتی کے داعیات لیے ہوئے ہے۔ اپنے آپ سے اس قدر بیزاری،اکتاہٹ اور تھکن کا احساس انسان کو انسانوں کے منفی رویوں سے ہوتا ہے۔ انسان معصوم اور فرشتہ سیرت ہو تاہے لیکن انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے اس کی شخصیت میں انسانوں سے بیزاری منافرت اور اکتاہٹ کے عناصر لاشعوری طور پر پیدا ہو جاتے ہیں۔
انسانی سماجی رویوں کی پرورش و پرداخت میں سماج کا حصہ کم اور انسانوں کی شر انگیزیوں کا زیادہ ہوتا ہے۔ سپیرا جب کہتا ہے کہ انسانوں کو سانپوں سے ڈسوانے کا موسم نہیں رہا تو اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ انسانیت اپنی موت آپ مر چکی اور بے غیرتی،بے حسی،بے مرورتی اور بے وفائی کی تشکیل ِ نو کا موسم جوبن پر گل کھلا رہا ہے۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں
یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے
منظر سے ہٹ جانا اور لوگوں سے نہ ملنا،کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ منظر سے ہٹ جانے کا تصور کرنا ایک شاعر کے لیے کتنا اذیت دہ ہو سکتا ہے۔ ایک فنکار کو اس سے زیادہ کس بات کی تکلیف ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے موجود سے بے نیاز ہو جائے اور اپنے فن کی بے توقیری خود اپنی ذات کے آلام سے کرے۔ انسان چاہتا یہی ہے کہ اسے سراہا جائے اس کی تحسین کی جائے اس کے فن کو خراج عطا کیا جائے۔ ایک عام انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کے ساتھ برا سلوک روا رکھا جائے پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی روئیوں کے سانپ حیات ِ انسانی کے تصور کو ڈسنے میں کسی سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے۔
یہ کافی ہے کہ ہم دُشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
سب میرے بغیر مطمئن ہیں
میں سب کے بغیر جی رہا ہوں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
برباد ہونے پر کوئی کیوں خوش ہو گا۔ کسی کی بربادی سے کسی کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ جو ن کے ہاں یہ لایعنی شعر نہیں ہوا بلکہ اس کی تہ میں چھپی ہوئی گہری رمزیہ بات کو سمجھیے کہ انسان کب چاہتا ہےکہ وہ کسی کے لیے برباد ہو جائے اس کے باوجود انسان کو بربادی کے جملہ سامان تراشنا پڑتے ہیں۔ منفی رویوںکی زہر ناکی انسان کو ایسا زہر ناک کر دیتی ہے کہ زہر آلود فضا میں زہریلی کیفیات کے انعکاس کے باوجود بادِ صبا کو صموم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جون کے ہاں یہ بربادی معاشرتی رویوں کے انہدام کا استعارہ بن گئی ہے۔
کیا ہے جو بدل گئی ہے دُنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
ٹھیک ہے ہم خود کو بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
سب سے پُر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
ہے وہ بے چار گری کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں
جون کے ہاں بے چارگی کے احوال کا ماتم سرانہ انداز دل چھلنی کر دیتا ہے۔ انسان کے بس میں کیا رہ جاتا ہے جب اُسے محبت کے تصور سے محروم کر کے زمانے کی نارروائیوں کے سامنے لاچار و بے بس ڈال دیا جائے۔ جون کے ہاں انسانی سماجی رویوں کی تنزل شدہ صورتیں متنوع پہلو لیے ہوئے ہیں۔ جون نے عمر بھر اپنی جداگانہ شناخت کے تصور کا احیا کیا ہے۔ اس شاعر کے ہاں وہ سبھی قباحتیں ملتی ہیں جو زمانے کا دستور رہی ہیں۔
شاعر بہک جاتا ہے ،شاعر ڈی ٹریک ہو جاتا ہے ،شاعر سے کسی بھی عمل کی توقع کی جاسکتی ہے۔ شاعر معاشرے کا ترجمان ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے ،شاعر کے ہاں ترجمانی پیڈ قسم کی نہیں ہوتی۔ شاعر بکاؤ نہیں ہوسکتا۔ ایک عام انسان جب ضمیر کی آواز سنتا ہے اور لبیک کہتے ہوئے اس کے پاؤں جل جائیں یہ پروا نہیں کرتا۔ایسے میں ایک شاعر سے اس کی نظریات کے خلاف کسی تصور کے احیا کی شعوری صدا بلند کروانا ناممکن ہے۔
شاعر جان سے گزر سکتا ہے لیکن اپنے بیانیے کے احیا کے ازن سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ نظم “اجنبی شام” میں مذکور تصور کا شاعرانہ احیا ملاحظہ کیجئے:
دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا ر ُخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کے چراوہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام میں کہاں جاؤں
اجنبی شام میں کہاں جاؤں
اپنے آپ سے فراز اور بیگانگی کا تصور کس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتا ہے یہ اُس شخص سے جانئیے جو اس آلام سے گزرا ہے۔ معاشرتی تفاوت کے کھوکھلے معیارات نے انسانی سماج کو لایعنیت کا گورکھ دھندہ بنا ڈالا ہے۔ جون کے ہاں تخلی حیات کا کڑوا گھونٹ ہر سانس کے ساتھ حلق سے اُترتا دکھائی دیتا ہے۔
شاعر کے لیے یہ چیز انتہائی المناک ہوتی ہے کہ وہ جس سماج میں رہتا ہے وہاں کے انسانی رویوں میں منافقت و نیچ بازاری کا سودا سرِ عام بکتا ہو۔ جہاں مزدوروں کی لاشوں پر سیاست ہوتی ہو، جہاں ووٹ کے ذریعے محلوں کی تعمیر کا نعرہ چلتا ہو، جہاں انصاف کے نام پر بے انصافی کی رسم مستعمل ہو، جہاں حق کےنام پر لوٹ کھسوٹ کی روایت مستحکم ہو، ایسے سوکالڈ ترقی یافتہ معاشرے میں رہنے کا جواز ،ایک مجذوب کی بُڑ کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔نظم:قاتل” کا یہ بند ملاحظہ کیجئے:
کوئی ہوتا ،کوئی تو ہوتا
جو مجھ سے مری سفاک قاتل بے وفائی کی سزا میں
خون تھکواتا
مجھے ہر لمحے کی سولی پہ لٹکاتا
مگر فریاد کوئی بھی نہیں کوئی
دریغ اُفتاد کوئیبھی
مجھے مفرور ہونا چاہیے تھا
اور میں سفاک قاتل بے وفا خوں ریز تر میں
شہر میں خود وارداتی
شہر میں خود مست آزادانہ پھرتا ہوں
ایک ظالم اپنے ظلم کی داستان اس طرح سنائے کہ اس اپنے ظلم کی وحشت سے لطف آنے لگے اور مظلوم کی آہ و بکا سے تلذذ محسوس ہونے لگے تو سمجھ جائیے کہ یہ معاشرہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔ معاشرے انسانوں کی مثبت روی اور تعمیری ذہن کا عکس ہوتے ہیں۔ روئیے انسانوں کے حیاتی تصور کا پیکر ہوتے ہیں۔ انسان باہم ادغام کر کے زندگی کے تصور کو بامعنی بناتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
آج جو جتنا لُچا ہے وہ اُتنا ہی اونچا اور بلند مقام پر متمکن ہے۔ جس کے پاس ظلم کرنے کا اختیار ہے وہ صاحبِ عزت و شرف ہے۔ جس کے پاس غیر قانونی کا م کرنے کی اجارہ داری ہے وہ مسندِ اختیار کا خود کو بے تاج بادشاہ سمجھتا ہے۔ باہمی احترام اور حقِ عدل کے جملہ تصورات کو اس معاشرے میں پس پشت ڈال کر جو تیرا ہے وہ میرا ہے اور جو میرا ہے وہ بھی میرا ہی ہے کا نعرہ اس معاشرے کا بیانیہ بن چکا ہے۔
جون ایلیا ایسا شخص عمر خود کو اذیت میں مبتلا اس لیے کیے رہا کہ یہ ایک مثالی معاشرے کا تصور دیکھتا رہا ہے اور یہ خواہش کرتا رہا ہے کہ میں معاشرے کو اس کی اصل اقدار پر لا کر چھوڑوں میں مگر یہ شاعر ہار جاتا ہے اور اپنی ہار کا اعلان کرتا ہے کہ میں ہار گیا ہوں میں اس سماج کے بیانیے سے ہار گیا ہوں یہ وہ معاشرہ ہی نہیں یہ وہ لوگ ہی نہیں یہ وہ میں ہی نہیں اور میں کچھ بھی نہیں میں شاعر بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں ۔
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کر ذکر

کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں