سفرین کہانی/محمد شاہد محمود

میں زیادہ تر افسانے اور کہانیاں لکھتا ہوں اور پڑھنے میں بھی زیادہ تر افسانے، کہانیاں اور ناولز پسند ہیں۔ سفر نامے چیدہ چیدہ ہی زیر مطالعہ رہے ہیں۔ جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی کتاب “سفرین کہانی” دو سفر نامے ایک ہی جلد میں یکجا شائع ہو رہے ہیں۔ مسودہ پڑھنے کے دوران افسانہ کی چاشنی، تاریخ کے اوراق، ایڈونچر کی سنسنی اور ناول کا تجسّس محسوس ہوا۔ گو کہ میں نے آج کل لکھنے سے عارضی کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے۔ لیکن مسودہ پڑھنے کے بعد رائے اور تبصرہ لکھنے پر آمادہ ہوا۔

اختر شہاب صاحب کی کتاب “سفرین کہانی” کا پیش لفظ متاثر کن ہے۔ ایسا ہے کہ جیسے کوزے میں دریا بند کر دیا گیا ہو۔ سفر نامے اپنی جگہ، لیکن عنوان رکھنے کی خاطر جو تحقیق کی گئی ہے، قابلِ ستائش ہے۔ اس سے قبل اختر شہاب صاحب کی دو تصانیف زیر مطالعہ رہی ہیں۔ باقی سبھی کچھ تو عیاں تھا۔ لیکن محض ایک حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ اس سے قبل آپ کی تحاریر پر جو بھی تجزیہ پیش کیا کافی سوچ بچار اور کتابوں کے مکمل جائزوں کے بعد پیش کیا۔ لیکن محض ایک حتمی رائے قائم کرنے میں گومگو یا تذبذب کا شکار رہا۔” سفرین کہانی” کا مسودہ پڑھنا بالآخر حتمی رائے قائم کرنے میں مددگار اور کارگر ثابت ہوا ہے۔

سفر ناموں کے یادگار لمحات کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر کے، تصاویر کتاب میں آویزاں نظر آ رہی ہیں، جو سفر ناموں کی تزئین و آرائش بڑھا رہی ہیں۔ جن مقامات کے لیے رخت سفر باندھا گیا، ان علاقوں کے نقشے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ جو قارئین کے لیے سفر کی سمت اور مقامات سمجھنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ پہلے سفر نامے میں آپ سگریٹ نوشی کرتے پائے گئے جبکہ دوسرے سفر نامے تک پہنچتے پہنچتے آپ سگریٹ نوشی ترک چکے ہیں، الحمد اللہ۔

پہلا سفر نامہ بعنوان:
“شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ”

پر فضا مقامات تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر سب سے پہلے موٹر گاڑیوں کے ثقیل دھوئیں سے باہر نکلنا ضروری ہے۔اس ثقیل دھوئیں سے باہر نکلنے کی منظر نگاری افسانوی رنگ میں رنگی پڑھنے کو ملتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مکمل سفر نامے میں افسانوی اسلوب اتم موجود و نظر آ رہا ہے۔ اس سفر نامے میں یہ سبق بھی سیکھنے کو ملتا ہے کہ دورانِ سفر گرد و نواح میں لوگوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی پریشانی میں مبتلا ہو اور ہم اس کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں۔ اس سے قبل آپ منفرد نوعیت کا تانیثی ادب مرتب کر چکے ہیں۔ اس سفر نامے کی وساطت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ محض گفتار کے غازی نہیں ہیں۔ جیسا کہ عموماً اور زیادہ تر ہمارے ہاں کے ادباء ہیں۔ اگر آپ نے تانیثیت پر منفرد انداز میں لکھا ہے، تو دورانِ سفر عملاً کر کے بھی دکھایا ہے۔ معلومات اگر زیادہ ہوں تو بسا اوقات، زیادہ معلومات بھی دماغ کے ساتھ الجھن سلجھن کھیلنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ اختر شہاب صاحب کے ساتھ ہوا۔ گرد و پیش کے کئی مناظر علاقائی تاریخ کے پس منظر میں دب گئے۔ پکی سڑک پر رواں سیاح کا ذہن نادیدہ تاتاریوں اور ان کی دہشت و بربریت کے جھنڈے کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں پر گاڑے دیکھتا رہا۔ یہ سفر نامہ محض سفری روئداد ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ سفر نامہ تاریخی اوراق سے مزین نظر آتا ہے۔ جس میں منسوب کوہ قاف کی روائتی کہانیوں سے لے کر حقائق پر مبنی سیر حاصل مواد معلوماتی اضافے کا وسیلہ بن رہا ہے۔
شاید ہی کوئی ایسا سفر نامہ زیر مطالعہ رہا ہو کہ جس میں مقامی یا غیر ملکی دوشیزہ کا تذکرہ نہ ملے۔ یہاں بھی سفر ناموں کی روایات برقرار رکھتے ہوئے ایک غیر ملکی دوشیزہ اور ایک پہاڑی دوشیزہ کا ہلکا پھلکا سا یا شائبہ سا بیان کیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسی کا نام سفر وسیلہ ظفر ہو۔ انہیں دوشیزاؤں کی الجھن میں سیاح علاقہ حویلیاں تک آن پہنچے تھے۔ یہ مسافت طے کرنے میں تقریباً چار گھنٹے لگے تھے۔ اس سفر نامے کا خاصہ یہ بھی ہے کہ سفر کے شائقین کے لیے خاطر خواہ راہنمائی کر رہا ہے۔ ایبٹ آباد میں جب گرمیاں عروج پر ہوں ایسے میں سردی سے ٹھٹھرنے کا لطف کیسے اٹھایا جا سکتا ہے؟ یہ سفر نامہ پڑھنے پر آپ کو بخوبی علم ہو جائے گا۔
اختر شہاب صاحب میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہاں بھی آپ نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے، کہ جب غیر ملکی سیاح اپنے ملک واپس جائیں، ہم وطنوں کے بارے میں اچھی رائے اور خوش گوار تاثرات کے ہمراہ جائیں۔ تاج صاحب جو اختر شہاب صاحب کے ہمسفر رہے، ان دونوں کی نوک جھونک سفر کو مزید دلچسپ بنا رہی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں سے مکالمہ ان سفر ناموں کا اہم جزو ہے۔ جس میں اخذ کرنے والے بہت کچھ اخذ کر سکتے ہیں، جو کہ حقائق پر مبنی ہے۔ شاہراہِ ریشم کا حدود اربعہ تو سفر نامے میں پڑھا جا سکتا ہے۔ یہاں خاص بات یہ کی شاہراہِ ریشم بنانے کے دوران جو آٹھ سو بیاسی افراد نے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اختر شہاب صاحب نے ان تمام شہداء کے کے لئے دعائے مغفرت فرمائی، ایک عام سیاح ایسے لوازمات سے عاری نظر آتا ہے۔ جہاں جہاں سے گزرتے گئے وہاں کے رسم رواج کا مشاہدہ کرتے رہے۔ یہ مشاہدات اہم اور قابل ذکر ہیں۔ جو ان علاقوں میں گیا اور ٹراؤٹ مچھلی نہ کھائی؟ یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ ان دنوں میں کیونکہ شوشل میڈیا نام کی کوئی شے نہ تھی لہٰذا اخبارات باقاعدگی سے پڑھے جاتے تھے۔ آخری پڑاؤ پر اختر شہاب صاحب نے بک اسٹال دیکھنے پر اخبار خریدا اور اخبار پڑھنے کی لت پوری کی۔

دوسرا سفر نامہ بعنوان:
“بارشوں کے شہر میں”

اس سفر نامے کی خصوصیت یہ ہے کہ اختتام پذیر ہونے پر بھی ختم نہیں ہو رہا۔ آخر ایسا کیسے ممکن ہے؟ اسی جائزے کے اختتام پر ملاحظہ فرمائیے گا۔ یہ سفر نامہ کراچی سے انڈونیشیا تک محیط رنگین و سنگین سفری روئداد ہے۔

اختر شہاب صاحب محکمہ موسمیات سے وابستہ و منسلک رہے ہیں۔ حکامِ بالا کی جانب سے موسمی مشاہداتی دورے اور بحیثیت ماہر موسمیات، وہاں پہنچ کر لیکچرز لینے یعنی مزید تربیت یافتہ ہونے کا پروانہ جاری کر دیا گیا کہ آپ انڈونیشیا کے جزیرے پر بوگور (Bogro) نامی شہر روانہ ہو رہے ہیں۔ اس سفر نامے میں بھی مقامی تاریخی اوراق مزین نظر آتے ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزے کے حصول کی خاطر جو پاپڑ بیلنے پڑے، وہ سفر نامے میں الگ سے ایک مکمل کہانی ہے۔ چونکہ انٹرنیٹ کا دور شروع ہوا چکا تھا لہٰذا پاپڑ بیلتے ہی تلے گئے۔ بذریعہ تھائی ائیر ویز بنکاک پہنچے اور پھر ٹرانزٹ فلائٹ سے جکارتہ لینڈ کر گئے۔ اختر شہاب صاحب کا شمار شریف النفس اور پاکیزہ زندگی گزارنے والے افراد میں ہوتا ہے۔ بصورت دیگر جتنی دیر بنکاک رکے Pataya کے دو چکر لگا سکتے تھے۔ سرکاری پاسپورٹ پر سرکاری دعوت پر اس قدر مشکلات درپیش آتی ہیں؟ اس سفر نامے سے پہلے اس کا رتی بھر بھی اندازہ نہ تھا۔ سنجیدہ قسم کا مزاح اس سفر نامے کا خاصہ ہے۔ دورانِ پرواز ہنزہ گاؤں کے مائیکل جیکسن سے ملاقات خاصی دلچسپ ہے۔ بالآخر فلپائن ایئر لائنز کے اتر کر اپنی منزل “سٹی کو” پہنچ گئے۔ جہاں پہنچتے ہی اختر شہاب صاحب کو رین کوٹ تھما دیا گیا۔ جہاں دس روزہ قیام کے دوران پانچ دن بارش برستی رہی۔ اس سفر نامے میں بھی، سفر ناموں کی روایات کی جھلک سی دکھائی دی۔ ایک حسینہ نے حسب دستورِ سفر نامہ، دوران سفر کاندھے پر سر ٹکا دیا۔ ہوٹل میں قیام پذیر رہنے کی داستان سفر نامے کا ایک الگ رنگ ہے۔ وہاں ٹیلی ویژن چینلز عریاں اشتہارات دکھانے میں آزاد ہیں۔ جنہیں توبہ توبہ کا ورد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرینگ سینٹر پہنچنے پر علم ہوا کہ ٹرینرز یا اساتذہ سب کے سب اختر شہاب صاحب سے جونئیر نکلے۔ یعنی آپ استادوں کے استاد بڑے ہی استاد نکلے۔ بوفے اور طعام کے دوران لڑکیوں کا ویسٹ جاوہ کا روائتی “تاری” رقص بھی باعث مجبوری دیکھنا پڑ گیا۔ تربیت یافتہ “تاری” رقاصائیں دورانِ رقص جھینگا لالا جیسی صدائیں بلند کرتی گرد و نواح سے بے خبر محو رقص رہیں۔ وہاں مردوں کو عورتوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ لہٰذا جیسے ہی “تاری” رقص اختتام پذیر ہوا۔ مرد حضرات کی ایک جھرمٹ ویسٹ جاوہ کا قدیم رقص “تاری جیا پونگ” پیش کرنے کے لیے وارد ہو گیا۔ جن میں سے پہلے سے موجود رقاصاؤں نے اپنے اپنے ساتھی کا انتخاب کیا اور اپنے ساتھ رقص کرنے کی دعوت دی اور رقص ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ بعد ازاں مہمانانِ گرامیوں کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی کہ وہ تشریف لائیں اور ہمارے ساتھ مل کر رقص کریں اور گیت گائیں۔ کچھ چلے گئے کچھ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اختر شہاب صاحب تشریف لے گئے یا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے یہ جاننے کے لیے تو آپ کو سفر نامہ پڑھنا پڑے گا۔

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات سے گفت شنید سفر نامے کا دلچسپ حصہ ہے۔ یہاں بھی اختر شہاب صاحب چائے کے باغات میں حب الوطنی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ سفاری پارک کی سیر اور سفاری پارک کے قوانین پڑھنے کے لائق ہیں۔ فلم بینی، ٹرین کا سفر،ڈولفن شو، سی لائن شو اور عجائب گھر میں حنوط شدہ کئی اقسام کی مخلوقات رکھی گئی ہیں۔ کئی قابلِ ذکر شوز کا بھی تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ لکھا ہے کہ “بوٹانیکل گارڈن” کے باہر اصل انڈونیشیا موجود تھا، جہاں مقامی دستکاری کی مصنوعات کی دکانیں ہیں۔ خریداری کے مراکز میں نوک جھونک اور غصہ مسکراہٹیں بکھیر رہا ہے۔

اس سفر نامے میں ایک جملہ جو اختر شہاب صاحب نے دو بار کہا پہلے دھیمی آواز میں اور پھر چلا کر کہا:
“Run for your life.”
آپ کی تائید میں لوگوں کے ہجوم نے کورس کی صورت میں با آواز بلند گانا شروع کر دیا، ماجرا کیا تھا؟ تفصیلات سفر نامے میں پڑھیے۔ یہاں بیان کرنا شروع کیا تو صفحات پر کافی جگہ درکار ہو گی۔ ٹریننگ ختم ہو گئی اور واپسی کے دن گنے جانے لگے۔ سرٹیفکیٹ کسے ملا، کسے نہیں ملا اور کسے کیوں نہیں ملا یہ الگ کہانی ہے۔ الوادعی تقریب اور لمحات پرنم بھی ہیں اور پر جوش بھی ہیں۔

ایڈنا نامی خاتون کون تھیں؟ یاد رہے ایڈنا نے ائیر پورٹ پر الوداع کہنے ہوئے اختر شہاب صاحب کو جوش و جذبے سے گلے لگا لیا تھا اور جاتے جاتے بھی پلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے گئیں تھی۔اختر شہاب صاحب کے مطابق ابھی ایک اور سفر درپیش ہے۔ پھر اس راز سے پردہ اٹھایا جائے گا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اسی تسلسل میں اختر شہاب صاحب کا ناول یا ناولٹ آنا متوقع ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ اختر شہاب صاحب کا اسلوب مد نظر رکھتے ہوئے سبھی کچھ تو عیاں تھا۔ لیکن محض ایک حتمی رائے قائم کرنے سے قاصر رہا۔ آپ کی جو دو تصانیف زیر مطالعہ رہیں، افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل تھیں۔ جس میں طنز و مزاح نگاری کا عنصر کسی حد تک انِ انشاء سے ملتا جلتا تھا۔ سفر نامے پڑھنے کے بعد حتمی طور پر دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اختر شہاب صاحب کا اسلوب ان دو سفر ناموں میں پچانوے نہیں تو نوے فیصد ابنِ انشاء کے اسلوب سے مماثلت رکھتا ہے۔ جنہوں نے ابنِ انشاء کے سفر نامے پڑھ رکھے ہیں۔ واضح طور محسوس کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتاب خریدنے کے لئے اور اپنی کاپی پیشگی بک کرانے کے لئے کتاب کے مصنف اختر شہاب صاحب ( Akhtar Shahaab ) سے رابطہ کیجیے۔ فروری سال 2025 میں اختر شہاب صاحب کی ایک اور کتاب “الحین بھوم” بھی شائع ہونا متوقع ہے، ان شاءاللہ۔ دونوں کتابیں ڈاکٹر عارف حسین عارف صاحب اپنے ادارے “حسنِ ادب پبلشر فیصل آباد” سے شائع کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply