فاشزم کا نمائندہ؛امریکہ یا روس؟-شاداب مرتضیٰ

ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ سوویت یونین نے بھی جرمن فاشزم کے خلاف امریکہ اور برطانیہ سے سمجھوتہ کیا تھا۔ اس لیے اگر روس اور امریکہ کے درمیان سمجھوتہ ہو رہا ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں! اسے سامراج کی پسپائی سمجھ کر خوش آمدید کہنا چاہیے۔ یہ دلیل اس حلقے کی ہے جس کا دعوی تھا کہ پیوٹن کا روس امریکی سامراج کے توسیعی عزائم کے خلاف لڑ رہا ہے، کہ یوکرین کی جنگ سامراجی جنگ نہیں بلکہ سامراج مخالف، فاشزم مخالف جنگ ہے کیونکہ یوکرین امریکی سامراج کی فاشسٹ کٹھ پتلی ہے اور امریکہ اور نیٹو یوکرین کو روس کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

ہم نے روز اول سے یوکرین پر روسی جارحیت کی مخالفت اور مذمت کی تھی۔ اسے سامراجی جنگ قرار دیا تھا اور اپنی ناتواں آواز سے فوراً جنگ بند کرنے کا مطالبہ آگے بڑھایا تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ روس میں ہونے والی داخلی معاشی،سیاسی تبدیلیاں یہ ظاہر کرتی تھیں کہ روس کا اقتدار سرمایہ دار طبقے کے پاس تھا۔ یہ وہ سرمایہ دار طبقہ تھا جس نے سوویت یونین توڑا اور روس میں سوشلزم ختم کیا اور جو سوویت معاشی اداروں پر قبضہ کر کے ارتقاء کے اجارہ دار مرحلے میں پہنچ چکا تھا اور عالمی سامراجی نظام میں اپنا حلقہ اثر بڑھانے کی راہ پر گامزن تھا۔ چنانچہ، ان تاریخی، معاشی اور سیاسی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے “ٹھوس حالات کا ٹھوس” تجزیہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ یہ جنگ اجارہ داریوں کے جغرافیائی معاشی مفادات کے لیے چھڑی تھی۔ تاہم، ہمارے ناقدین کا خیال تھا کہ یہ جنگ ایک منصفانہ اور جائز جنگ ہے کیونکہ یہ سامراجیت اور فاشزم کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔انہوں نے روسی ریاست کی “طبقاتی” نوعیت کو، روس کے مقتدر طبقے کی سیاسی-معاشی نوعیت کو نظر انداز کرتے ہوئے خالصتاً تجریدی انداز سے اس جنگ کی حمایت کی اور اس میں روس کی طرفداری کی۔ جنگ کے وقت یہ احباب بھول گئے کہ اس میں قتل و غارت ہو گا اور دونوں طرف بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔ اب انہیں جنگ بندی کی کوششوں کا ایک فائدہ یہ نظر آنے لگا ہے کہ اس سے امن قائم ہو گا اور انسانی قتل و غارت کا عمل رکے گا۔خطے میں امن قائم ہو گا۔ اب یہ روس اور امریکہ کے درمیان متوقع سمجھوتے کے حامی ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ سوویت یونین نے بھی دوسری عالمی جنگ میں فاشزم کے خلاف امریکہ اور برطانیہ سے یعنی سامراجیوں کے ایک حصے سے سمجھوتہ کیا تھا اور امریکہ-روس سمجھوتے کو بھی اسی تاریخی تناظر میں دیکھنا اور سراہنا چاہیے۔

عرض یہ ہے کہ تاریخی موازنوں کا کوئی سر پیر ہونا چاہیے۔ ان کی کوئی منطق کوئی جواز ہونا چاہیے نہ کہ سبکی سے بچنے کے لیے جو منہ میں آئے کہہ دیا جائے۔ اس موازنے کے اعتبار سے امریکہ یا روس میں سے کون اس وقت حریف سامراجی طاقت اور فاشزم کی نمائندگی کرتا ہے؟ کیا یہ امریکہ ہے؟ اگر ہاں تو پھر امریکہ اور روس کا سمجھوتہ تو حریف اور فاشسٹ سامراج سے سمجھوتا ہے! کیا روس اس وقت ماضی کے سوویت یونین یعنی سوشلسٹ طاقت کی نمائندگی کرتا ہے؟ اگر ہاں تو یہ سمجھوتہ سوشلزم، سامراج اور فاشزم کے درمیان سمجھوتہ ہے! موقع پرستی کا رویہ اسی قسم کی احمقانہ تاویلوں تک لے جاتا ہے۔ مثلاً یہ نمونہ ملاحظہ کیجیے کہ یوکرین کو ہری جھنڈی دکھا کر “ٹرمپ نے سامراج نواز بھیڑیوں کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔”

شاندار! ہم نے غلط تو نہیں کہا تھا کہ ٹرمپ کو “کامریڈ” کا خطاب دینے اور سامراج مخالف کیمپ میں شامل کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو یوکرین-امریکہ جنگ کے وقت امریکہ کو سامراجی طاقتوں کا سرغنہ اور یوکرین میں فاشزم کی پشت پناہی کرنے والی قوت کہتے تھے اور اب یہی لوگ امریکہ کو سامراجی جنگیں روکنے والی اور سامراجی بھیڑیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملانے والی قوت، یعنی سامراج مخالف قوت، کہہ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ہے “ٹھوس حالات کے ٹھوس تجزیے” کی جگالی کرنے والوں کا “ٹھوس تجزیہ”۔ وقت و حالات کی مناسبت سے سامراجی طاقتوں کی حکمت عملی میں، داؤ پیچ میں، پالیسی میں تبدیلی کو، ان کے درمیان سمجھوتہ ہونے یا ٹوٹ جانے کو، سامراج کی پسپائی یا شکست سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ سامراج کی پسپائی یا شکست کا تعلق سوشلسٹ قوتوں کے ساتھ اس کی جدوجہد سے اور سامراجی اور سوشلسٹ قوتوں کے مابین طاقت کے توازن کی حالت سے ہے نہ کہ سامراجیوں کے درمیان طاقت کے باہمی توازن سے۔ یقینا ًسامراجی طاقتوں کے مابین لڑائی، تنازعے، محاذ آرائی اور جنگیں سامراجی نظام کو نسبتی طور پر کمزور کرتی ہیں تاہم اس کمزوری کو سامراج کی عمومی پسپائی یا شکست میں تبھی بدلا جا سکتا ہے جب سوشلسٹ طاقتیں منظر عام پر موجود ہوں اور سامراجی تضادات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply