زندہ ہے جمیعت زندہ ہے۔۔۔انعام رانا

جب مجھے یقین ہو گیا کہ معصوم افسردہ شکل بنا کر گورنمنٹ کالج کی پراسپکٹس کو دیکھنے اور آہیں بھرنے کی اداکاری کے باوجود میرے والد اپنے تعلقات لڑا کر میری کوئی مدد نہ کریں گے تو مایوس ہو کر میں نے اگلی بہترین آپشن کے بارے میں سوچا۔ میرے ابا مرحوم نے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سوائے جسٹس قیوم کا شاگرد کرنے کے شاید ہی میری کوئی سفارش کی ہو۔ میرٹ پر آگے آنے والوں کا یہ نفسیاتی مسلئہ ہے کہ وہ اپنی سفارش سے کسی دوسرے کی حق تلفی کرنا گوارا نہیں کرتے۔ میٹرک کے بعد میرا گورنمنٹ کالج پڑھنا میرا اور ابا دونوں کا مشترکہ خواب تھا۔ مگر جب میرے نمبر مطلوبہ میرٹ پر نہ آئے تو وہ ویسے ہی آنکھیں پھیر گئے جیسے فوج آجکل مذہبی جہادی جماعتوں سے؛ خود کچھ کر لو تو کر لو، ہم غیرجانبدار رہیں گے۔ خیر دو دن بعد میں میرٹ پر ایف سی کالج میں داخل ہو گیا اور میٹرک کے خراب نتیجے سے ابا کے ماتھے پہ آئی تیوریاں، دو تین کم ہو گئیں۔

کالج ایک نوجوان کیلیے پہلے بوسے کی طرح ہوتا ہے۔ تحیر، سرخوشی، تعلیم، خوف اور تسخیر کے جذبے سے بھرپور۔ سو ہم بھی انھیں جذبات کو لیے ایف سی کالج میں ایک بلاک سے دوسرے کو بھاگتے تھے۔ ابھی دوسرا ہی دن تھا کہ اچانک کمرے میں چند نوجوان داخل ہوے اور نعرے لگ گئے، “زندہ ہے جمیعت زندہ ہے” “قاضی تیرے بیٹے ہی، انقلاب لائیں گے” اور ساتھ ہی ہڑتال کا ایک نعرہ اور کلاس خالی۔ اب مابدولت جو دس منٹ قبل لٹریچر کی کلاس میں شکسپیئر کے میکبیتھ کی زبان و بیان میں گم تھے یہی سمجھے کہ شاید چڑیلیں باہر آ گئیں ہیں اور بادشاہ ڈنکن کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ پتہ چلا کہ نہیں فقط ہڑتال ہوئی ہے۔ شوق شوق میں جلوس کے ساتھ نکلے اور پرنسپل کے دفتر کے سامنے “سیبے والا بم” پھٹنے تک موجود رہے۔ معلوم ہوا کہ پرنسپل ریحان صاحب نے جمیعت طلبہ اسلام کے کسی بچے کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کی جس سے اسلام خطرے میں آ گیا ہے۔ آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ مکڑی کا اک جال ہے جو اس درسگاہ پر تنا ہے، ہے بھی اور دکھتا بھی نہیں۔ اور یہ تو کمزور بھی نہیں لگتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے بعد ایف سی کالج جمیعت کا سب سے مظبوط گڑھ تھا اور اس کی سب سے بڑی طاقت تھی گاوں کے لڑکے۔ تازہ تازہ گاوں سے آئے لڑکے جب لاہور کی رونقیں دیکھتے، نت نئی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں پہ آتے لڑکے اور اس وقت تک ایم اے میں پڑھتے رنگین آنچل انکی آنکھوں کے سامنے لہراتے تو وہ وہی کرتے جو ہمارا قومی مزاج ہے؛ نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے۔ چنانچہ کالج میں دو طبقے تھے، لاہور والے اور نالاہور والے، یا کہ لیجئیے شہری اور پینڈو۔ لاہور والے انگریزی بولتے یا اردو، کلاس میں بڑھ چڑھ کر سوال اٹھاتے اور جواب بھی ایسے دیتے کہ نالاہور والوں کے نفسیاتی مسائل مزید بڑھ جاتے۔ اب نالاہور والوں کے پاس ایک ہی طریقہ تھا۔ وہ جمیعت میں جاتے، بستے میں کلاشنکوف ڈالتے اور قاضی کے بیٹے بن جاتے۔

جماعتیوں کو ہر اس روئیے سے بیر تھا جو انسانی ہو سکتا ہے۔ ایک بار ایک لڑکے کے بال مونڈھے گئے کہ وہ ٹیپ ریکارڈر پر اونچا گانا سن رہا تھا۔ دو لڑکوں کو “کمبل کٹ” پڑی کہ انھوں نے ایک “ساتھی” سے چندہ مانگنے پر بدتمیزی کی تھی۔ اک بار ایم اے بلاک کے سامنے ایک لڑکے کو مرغا بنایا گیا اور تشریف پر چھتر پڑے اور اس دوران ایک صاحب بہت اونچی آواز میں فرما رہے تھے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں فحاشی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس دوران وہ کن انکھیوں سے بار بار اس لڑکی کو دیکھتے تھے جو انکو تو لفٹ نہیں کراتی تھی مگر اس “مرغے” سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی تھی۔ ان حضرات میں ایک لڑکا ڈوگر سب سے تیز بلکہ اتھرا تھا۔ ایسا کہ جماعتیے خود بھی زرا گبھراتے ہی تھے۔ ایک ہاسٹل میں صبح نماز کی بیداری سے رات گئے تک وہ سب سے زیادہ شور ڈالتا جماعتیا تھا۔ مگر بھاگنے والے بھی قیامت کی چال رکھتے ہیں۔ میرا یار ڈار بھی اسی ہاسٹل میں مقیم تھا۔ تھا تو گجرات کا مگر احساس کمتری سے دور اور خوبصورت۔ معصوم اور حسین شکل کے صدقے وہ قریب ہی مقیم اک لڑکی سے سلسلہ شروع کر چکا تھا جو اسکے کمرے سے متصل گھر میں رہتی تھی۔ یادش بخیر اک بار لڑکی کمرے میں تھی اور رات گئے کسی سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی بلکہ جامعہ پنجاب نے کالج سے کمک مانگی تو بحکم ناظم صاحب ڈوگر صاحب نے فورا دروازے کھٹکھٹائے اور لڑکے جمع کرنا شروع کیے۔ اب جو ڈار کا دروازہ کھٹکھٹایا تو یہ اندر اس حال میں تھا کہ “یہ دیکھ کیا حال ہے تیرا میرے آگے”۔ خیر فورا کھڑکی کے رستے لڑکی کو نکالا اور سر پہ ٹوپی رکھ کر دروازہ کھولا۔ ڈوگر صاحب زن سے کمرے میں داخل ہوے اور نظریں دوڑاتے پوچھا اتنی دیر کیوں لگائی، بولا کیوں نہیں؟۔ ڈار فورا بولا جی وہ مرشد نے عشاء کے بعد وظیفہ بتایا ہے وہ پڑھ رہا تھا درمیان میں بول نہیں سکتا تھا۔ چلئے اک اور سنئیے اور سر دھنیے۔ یہی ڈوگر صاحب اک دن کسی کام سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج چلے گئے۔ اب وہاں تھی پریاں قطار اندر اور پھول کھلے تھے اودے نیلے جن پر بھنورے بھی منڈلاتے تھے۔ ایسے ہی اک پھول پر جب بھنورے کو رس چوسنے کی کوشش میں دیکھا تو یہ فورا جا سامنے کھڑے ہوے۔ “اسلام علیکم، آپ سے گزارش ہے کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ایک اسلامی ملک میں آپکو ایسی فحش حرکات کرتے ہوے شرم آنی چاہیے”۔ اب زیر تعلیم ڈاکٹر کا ، جو شاید مریضہ کلاس فیلو کی سانس میں موجود جراثیم کی اقسام کا جائزہ لے رہے تھے، پہلے تو وہ مشہور زمانہ تراہ نکلا جو قاری حنیف ڈار صاحب کا نکلتا ہے۔ زرا سنبھلے اور اسی حیرانی میں پوچھا کہ آپکی تعریف؟ “جی میں الحمدللّٰہ رفیق اسلامی جمیعت طلبہ ایف سی کالج، فلاں ڈوگر”، یہاں سے باآواز بلند جواب آیا۔ اسکے بعد کیا ہوا تاریخ خاموش ہے، البتہ اگلے دو ہفتے تک ڈوگر صاحب نجانے کیوں ٹانگیں زرا پھیلا کر چلتے تھے۔

ہم قریب کوئی پندرہ دوست تھے جو ایک گروپ بن گئے۔ ایک تو ہم زرا ایسے گھرانوں سے تھے جن پر غصہ کیا تو جا سکتا ہے اتارا نہیں جا سکتا۔ دوسرا ہمارا اور جمیعت کا ایک خاموش معاہدہ ہو گیا تھا۔ انکے جلوس کیلیے چندہ اور کچھ گاڑیاں ہم دے دیتے تھے اور جوابا فروٹ شاپ پر ہم خواہ گانا سنیں، قہقہے لگائیں یا کوک کی بوتل میں مشروبِ مغرب پیئیں، جماعتیے آنکھ کانی کر لیتے تھے۔ ہماری ایسی کسی حرکت سے انکا اسلام کبھی خطرے میں نہیں آیا۔ میرا ایک دوست لودھی تازہ تازہ انقلاب پسند یا “لیفٹیا” تھا۔ متوسط گھر کا لودھی اندھیروں میں چراغ جلانا چاہتا تھا مگر ہوا کا صحیح اندازہ نہ رکھتا تھا۔ اس سے محبت تھی تو اکثر میں اسے جمیعت کے لڑکوں سے اپنی ذاتی تعلقات استعمال کر کے بچانے کی کوشش کرتا۔ اگست میں میرے والد کو عدالتی چھٹیاں ہوتی تھیں اور ہم سیر کیلیے شمال کی جانب جاتے تھے۔ اس اگست جب میں شمال میں تھا تو لودھی پمفلٹ بانٹتا ڈوگر کے ہاتھ چڑھ گیا۔ واپسی پر اس نے سنایا کہ پہلے تو اسکو کمبل ڈال کر ہاکیوں سے مارا گیا۔ پھر دو گھنٹے مرغا بنانے کے بعد اس کی پیٹھ پر گرم استری لگائی گئی۔ اور آخر میں چھ گھنٹے کے تشدد کے بعد اسکی ٹنڈ کر کے اسے کالج گراونڈ میں پھینک دیا گیا۔ افسوس نہ میں اپنے دوست کو بچا سکا نہ اس کا بدلہ لے سکا کہ کوئی مانتا ہی نہ تھا کہ یہ قصہ ہوا۔ جب میں کالج داخل ہوا تھا تو جمیعت عروج سے زوال کا سفر شروع کر چکی تھی اور میرے بی اے میں پہنچتے مشرف صاحب آن پہنچے۔ اب وہی پولیس جسے کالج میں داخلے کی اجازت نہ تھی، روز کالج آنے لگی۔ آخر کالج پر حکومت کا قبضہ ہو گیا، کئی جماعتیے جو طالب علم سے زیادہ لیڈر تھے نکالے گئے اور کالج انکو لوٹا دیا گیا جن سے کبھی چھینا تھا، یعنی عیسائی مشنری۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دو سال قبل پاکستان گیا تو پتہ چلا کہ پبلک سروس پاس لودھی آفیسر بن کر سیکریٹریٹ میں بیٹھتا ہے۔ اسے ملنے گیا تو اچانک اسکی کرسی کی پچھلی دیوار پر نظر پڑی۔ ایک بڑے سے کاغذ پر جلی حروف میں لکھا تھا “زندہ ہے جمیعت زندہ ہے”۔ میں نے حیران ہو کر استفہامیہ نظر سے دیکھا۔ لودھی نے مسکراتے ہوے فون اٹھا کر کہا پی اے کو بھیجو۔ پی اے کمرے میں داخل ہوا تو ہم دونوں نے اک دوسرے کو دیکھا اور نظر جھکا لی۔ قلم، مودب کھڑے ڈوگر کے ہاتھوں میں لرز رہا تھا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”زندہ ہے جمیعت زندہ ہے۔۔۔انعام رانا

Leave a Reply to Qamar Farooqi Cancel reply