ہمسفر اچھا ہو تو وقت بے وقت سفر میں حرج ہی کیا؟ اور پھر منزل خوبصورت ہو تو پھر سفر لازم ہے۔کچھ ہی دن ہوئے ایک شام فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف اپنے روایتی دھنی لہجے میں علی خان بول رہے تھے۔ بتایا کہ “میں اور ملک کاشف صاحب اسلام آباد آ رہے ہیں- ہم نے مری مال روڈ تک جانا ہے، لمبی چہل قدمی کا پلان ہے اور صبح واپسی ہو جائے گی کیا خیال ہے۔؟ ” خیال ظاہر ہے نیک ہی ہونا تھا’ ہم سفر بھی اچھے اور منزل بھی خوبصورت تو کون کافر انکارکرے؟ ویسے بھی کافی دنوں سے کوئی دوست ہمارے ہتھے نہ چڑھا تھا جس کے ساتھ واک کرتے۔ دل مچل گیا کہ مری کی یخ بستہ ہواؤں میں شب بھر طویل چہل قدمی کریں گے اور پھر دو بہترین ادیب بھی تو ساتھ ہوں گے تو خوب نبھے گی۔ کچھ ہم اپنی سنائیں گے، کچھ ان کی سنیں گے اور یوں شب شاندار گزرے گی۔ میں انتظار کرتا رہا، کاشف صاحب دفتری کام نمٹاتے رہے اور وقت ہاتھ سے نکل گیا۔
پھر فون کی گھنٹی بجی، پلان بدل گیا تھا۔ علی خان نے بتایا کہ “آج دیر ہو گئی ہے اب آنے کا فائدہ نہیں۔” کل سہ پہر چکوال پہنچ جانا، یہاں سے کالاباغ جائیں گے”۔ ہم کہ ٹھہرے ہر وقت تیار۔ اگلے روز کا پلان ترتیب پایا اور مقررہ دن طے شدہ وقت سے بس دو گھنٹے بعد یعنی قریب پانچ بجے جب سول ہسپتال کے بجٹ اینڈ فنانس آفس کا دروازہ کھولا تو علی خان کاشف صاحب کے دفتر میں تھے اور کاشف صاحب ہنوز فائلوں کے جھرمٹ میں گم تھے۔ سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ کاشف صاحب نے کام نمٹایا اور ہم نے تحصیل چوک سے “منہ ول لاہندے شریف”کر دیا- ابھی اوڈھروال چوک نہ پہنچے تھے کہ کاشف صاحب نے احتیاط ملحوظ خاطر رکھتے ہوے گاڑی ایک پنکچر والی دکان پہ روکی۔ یہاں ہمارے سفر کو جو پہلا جھٹکا لگا وہ یہ تھا کہ دو ٹائر پنکچر نکلے۔ قدیم روایات کے عین مطابق تو یہ بدشگونی ہمارا راستہ کاٹنے کے لئے کافی تھی۔ ہم نے اس کو خاطر میں نہ رکھا۔ گاڑی سے اتر کر مالٹے کھانے لگے اور اسی اثنا میں پنکچر لگانے والے جوان نے ہاتھ کی خوب صفائی دکھائی اور تین پنکچروں کا بتا کے پینتیس پنکچر کی یاد تازہ کر دی۔ اس جوان سے ہمارے سرمایہ دارانہ نظام نے اگر علمی سہولیات چھین نہ لی ہوتیں تو بڑا ہو کر یقینا” اعلی عہدوں پہ بیٹھ کے بھی “پنکچر” ہی لگاتا۔ خیر سفر شروع ہوا اور کمپلیکس ابھی کراس کیا ہی تھا شٹاخ کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا ہوا ہے لیکن پھر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ میرے بائیں جانب والے شیشے کے اوپر لگا رین شیڈ ٹوٹ کر ہوا میں اڑ گیا۔ اس دوسری بدشگونی نے بھی ہمارے ارادوں کو پست نہ ہونے دیا۔ گاڑی چلتی گئی اور ہم اردو ادب کے عظیم مزاح نگار کرنل ریٹائرڈ محمد خان کی سر زمین بل کسر پہنچ گئے۔ یہاں سے ہماری گفتگو نے بھی باقاعدہ گاڑی کی رفتار کو مات دینا شروع کی۔ برادرم علی خان اور کاشف صاحب نے لاکھ کوشش کی کہ کوئی ڈھنگ کی ادبی گفتگو ہو مگر میرا سینہ گزٹ تب تک کھل چکا تھا۔ میں نے چکوال کے محمد خانوں کو تختہ مشق بنا لیا۔ ابھی میرے سینہ گزٹ کے کچھ ہی گزٹ میرے ساتھیوں کی سمع خراشی کر پائے تھے کہ ہمارا راستہ دھرابی سے چند قدم پہلے نئے بنے ٹول پلازہ نے کاٹا۔ اب ان ٹول پلازہ والوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ کاشف صاحب گاڑی کے مالک و مختار ہیں اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت فائلر یعنی معزز ٹیکس دہندہ ہیں۔ اپنے انکم ٹیکس کے نصف دہائی کے تجربہ جس میں پاکستانی ٹیکس کی پیچیدگیوں کے علاوہ سعودی عرب، دوبئی اور بحرین کے ٹیکس پہ بھی کام کرنے کا موقع ملا ایسی دھونس پاکستان میں ہی دیکھی کہ سرکار کا جب اور جتنا دل چاہے ٹیکس لگا دے اور ہمارے عوام ہیں کہ بس ایک درخواست کرتے ہیں کہ “حضور کا اقبال بلند ہو، وقت کا بہت ضیاع ہے پل پہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دی جائے۔”
خیر، ہم نے اس بدشگونی کو بھی کوئی خاص لفٹ نہ کرائی اور مبلغ ساٹھ روپیہ سکہ رائج الوقت ادا کر کے چلتے بنے۔ اب میرے سینہ گزٹ کے “گزٹ” جیسے جیسے میرے ہم سفروں پہ وا ہونا شروع ہوے بادل نخواستہ ہی سہی وہ داد تحسین دینے لگے کہ اور کوئ چارہ بھی نہ تھا۔ اگر کہیں کوئی بات اچھی لگ جاتی تو علی خان کے اندر کا استاد جاگ جاتا اور اپنے مخصوص انداز میں کہتے “ایہہ لکھدا کیاؤں نہیں”۔۔۔۔
اب یہ علی خان کی برادرانہ شفقت تو ہی ہے کہ مجھے لکھاری سمجھے بیٹھے ہیں لیکن میری حوصلہ افزائی کے لئیے کسی حد تک مبالغہ آرائی بھی کر جاتے ہیں۔ میں ہمیشہ ہی بات ٹال دیتا ہوں کہ میرے خیال میں ابھی میرے لکھنے سے زیادہ ابھی پڑھنے کے دن ہیں۔
سینہ گزٹ کے اگلے “گزٹ” میرا مطلب ہے نئے موضوع نے میرے ہم سفر دوستوں کا دھیان میرے نہ لکھنے کی طرف سے ہٹا دیا تھا۔ ہم تلہ گنگ پہنچ گئے تو بائی پاس نے ہمیں شہر کی بے ہنگم ٹریفک سے آزادی میں مدد دی اور ہم میانوالی روڈ پہ عازم سفر ہوے۔ تلہ گنگ سے نکلتے ہوے ہم نے یہاں کے شعراء، ادیبوں اور صحافیوں کو یاد کر کے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک کی آب بیتی چونکہ میرے زیر مطالعہ تھی تو ان کا اور ان کے ہونہار بیٹوں کا خاص ذکر ہوا۔ ایسا بھی کم ہی دیکھا ہے کہ کسی کامیاب انسان کی اولاد اس سے بھی کامیاب ہو اور کہیں تو اپنے والد کے تعارف کا سبب بنے۔ نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر ملک اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عدیل ملک ہوں یا پھر سابق چیئرمین نادرا طارق ملک یہ تینوں ہی اپنے والد کے ہونہار سپوت ہیں کہ جنہوں نے والد کی نیک نامی پہ ہی اکتفا نہ کیا بلکہ خود بھی اپنے اپنے شعبوں میں نام کمایا۔
ہم تلہ گنگ شہر سے نکلے تو مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔ کاشف صاحب اور علی خان نے موقع پا کر بات کا رخ کھانے کی طرف بدل دیا۔ ان کا یہ وار کاری ثابت ہوا۔ ہمارے پیٹ میں دوڑتے چوہوں نے ہمارے سینہ گزٹ کو جیسے ایک دم سے کتر کے رکھ دیا۔ مجوزہ ہوٹل کے فضائل جب سنے تو سنتے ہی چلے گئے۔ ہمارا زیر بحث ہوٹل میانوالی ضلع کی حدود میں پڑتا تھا۔ بس اب ہم نے سینہ گزٹ کو کھانے کے وقفے تک جزوی طور پہ بند رکھنا ہی بہتر جانا۔ اس دوران ہمارے ہم سفر کسی لالا عابد نامی صاحب کا ذکر کرنے لگے۔ اب ہمارے لئے یہ انجان شخصیت تھی تو کاشف صاحب نے خود ہی بتایا کہ لالا عابد ان کے دور پار کے کزن ہیں۔ کوئی آٹھ دس پیڑھی پہلے جا کے شجرہ نسب کہیں برابر ہوتا ہے مگر ان کزنز کا آپس میں تعلق مثالی ہے۔ علی خان اور کاشف صاحب نے طے یہ کیا کہ چونکہ لالا عابد کا گاؤں راستے میں ہے لہذا اگر ان کو ہمارے اس سفر کی بھنک بھی پڑ گئی تو پھر ہماری منزل لالا عابد کا دولت کدہ ہی ہوگا۔ اسی اثناء میں ہم میانوالی ضلع کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ مجوزہ ہوٹل تو ابھی بہت دور تھا لیکن قریب تھا کہ ہماری بھوک ہمیں اس ہوٹل نہ پہنچنے دے اور ہم کسی بھی انجان جگہ رک کر کچھ ایسا ویسا کھا بیٹھیں کہ پھر سارا سفر آئندہ اس ہوٹل پر نہ رکنے کی قسمیں کھاتے گزر جائے۔ “اللہ اللہ” کر کے کاشف صاحب نے یہ خطرہ مول لے ہی لیا۔ ایک ہوٹل پر گاڑی روکنا چاہی مگر اچانک اس سے چند قدم پیچھے والے ہوٹل کی طرف موڑ دی۔ اب ہم گاڑی روک کر جیسے ہی اس ٹرک ہوٹل کے مین حال میں داخل ہوئے تو سامنے کی چارپائی پر ایک صاحب اپنے کسی دوست کے ساتھ براجمان پائے۔ کاشف صاحب اور علی خان کو ان سے گرم جوشی سے ملتے دیکھا تو ہم نے بھی سلام دعا کی۔ کاشف صاحب نے تعارف کرایا کہ “یہی لالا عابد ہیں جن کا ذکر سارے راستے ہوتا رہا۔” لالا عابد نے ہمارے بیٹھتے ہی بیرے کو گوشت اور دال کا آرڈر دیا۔ اس ہوٹل کی ایک خاص بات کہ ہم نے “جہازی سائز” ڈبل بیڈ سے بڑی چارپائیاں یہاں دیکھیں اور پارٹی سائز پیزا کو ٹکر دیتی تنور کی کڑک روٹی بھی ادھر ہی دیکھی وگرنہ عام طور پہ نہ چارپائی اتنی بڑی ہوتی ہے اور نہ ہی تنور کی روٹی سائز میں اتنی بڑی ہم نے پہلے دیکھی تھی۔ گوشت بھی بہترین تھا مگر مونگ مسور کی دال نے تو سرائیکیوں کی دال پسندی پہ گویا مہر تصدیق ثبت کر دی۔ سرائیکیوں کی دال پسندی ہم نے معروف اینکر پرسن روف کلاسراء کے دال دربار کے چرچوں میں سن تو رکھی تھی مگر یقین نہ تھا کہ ہمارے یہ میٹھی بولی بولنے والے سرائیکی دال میں جان ڈالنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔
لالا عابد کی اس بہترین خاطر داری کے بعد دودھ پتی کی چسکیوں نے کھانے تو گویا “پانچ تارہ” ہوٹلوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ لالا جی سے اس وعدے پہ رخصت لی کہ جلد ایک شام ان کے نام کی جائے گی۔
اب گاڑی پھر میانوالی روڈ پہ تھی اور ہم لالا عابد سے اچانک ملاقات اور دال کو موضوع بحث بنائے آگے بڑھ رہے تھے۔ لالا عابد کا گاؤں رکھی آیا تو کاشف صاحب نے بتایا کہ لالا عابد کے نانا تقسیم سے قبل اپنی بیٹی کے ساتھ پیدل میلوں دور سکول تک جاتے۔ بیٹی کو جب تک چھٹی نہ ہوتی انتظار کرتے اور چھٹی کے وقت بیٹی کو ساتھ لے کر پیدل گاؤں واپس آتے۔ یہ مشق کئی سال جاری رہی اور ایک عظیم باپ نے اپنی بیٹی کی ایسی تعلیم و تربیت کی کہ بیٹی نے خود کو گاؤں کے لوگوں کی تعلیم کے لئیے وقف کر دیا۔ گاؤں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور معاشرے کی تعمیر میں اپنا بہترین حصہ ڈالا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے چکوال کے گاؤں ڈھوک سارنگ کے بابا نور خان گاندھی نے تعلیم نسواں اور بھون کی بے جی نے تقسیم سے قبل مسلمان بچوں کے تعلیم کے لئیے خود کو وقف کر کیا تھا۔
رکھی سے نکلتے ہوئے کاشف صاحب نے ہمیں رکھی کے مشرقی جانب وہ پہاڑ دکھایا جسے کافر پہاڑ کہا جاتا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس پہاڑ پہ کبھی کوئی سبزہ اگا کسی نہ نہیں دیکھا۔
کچھ ہی دیر بعد ہم نے اپنے بائیں جانب پہاڑوں کے دامن میں واقع برقی قمقموں سے جگمگاتی نمل یونیورسٹی کا نظارہ دیکھا تو بے ساختہ اس کے بانی عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کی داد دیئے بنا نہ سکے۔
علم و ادب، ثقافت اور سیاست پہ گفتگو کرتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا کہ ہم میانوالی شہر پہنچ گے۔ شہر کے مرکزی چوک میں کاشف صاحب نے گاڑی سائڈ پر لگائی اور ہم باری باری اس چوک میں نصب “جہاز” کے ساتھ تصاویر بنوانے لگے۔ یہ وہی چوک تھا جہاں نو مئی کو ایک سیاسی جماعت کے کارکنان نے اس ضلع کی شان اور اپنے محبوب قائد عمران خان کی محبت میں ہنگامہ آرائی کی تھی- آج ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود بھی اس مرکزی چوک کے ایک طرف بنی انتظار گاہ میں بیٹھی ایک معمر خاتون نو مئی کے واقعات کی نہ صرف مذمت کر رہی تھی بلکہ ہاتھ کے اشاروں سے ملزمان کو کیفر کردار تک پہچانے کا عزم بھی کئیے جا رہی تھیں۔ ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ اپنا سفر پھر سے شروع کریں ورنہ اس خاتون کی مذمت کب مرمت میں بدل جائے اور ہم اس کی زد میں آ کے مجرم قرار پائیں کوئی پتہ نہیں۔
(جاری ہے)ظ
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں