ایلیٹ نے کسی زمانے میں شاعری کے سماجی تفاعل کے حوالے سے ایک مضمون “The social function of poetry “ لکھا تھا۔چونکہ اس مضمون کا بنیادی مقصد شاعری کے سماجی سروکار کو واضح کرنا تھا اس لیے ایلیٹ نے بنیادی معروضات کی وضاحت کے لیے کہیں کہیں پر چند ضمنی باتوں کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ گو کہ یہ ساری باتیں اضافی ہیں لیکن ان کا شاعری کے سماجی سروکار سے کوئی نہ کوئی جزوی علاقہ تو ضرور ہے۔جیسے ایلیٹ ریڈرشپ کی ضرورت اور اہمیت کے حوالے سے بات کرتا ہے کہ ایک شاعر کے لیے ریڈرشپ کا ہونا کیوں ضروری ہے اور اس ریڈرشپ کا معیار کیا ہونا چاہیےوغیرہ۔وہ کہتا ہے:
“لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ شاعر کے اپنے زمانے میں بھی صحیح قسم کے تھوڑے بہت سامعین ضرور ہونے چاہئیں۔ ایسے لوگوں کا مختصر سا ہر اول دستہ ضروری ہے کہ جو شاعری کے دلدادہ ہوں ، جو آزادانہ رائے بھی رکھتے ہوں اور اپنے زمانے سے کچھ تھوڑے بہت آگے بھی ہوں یا پھر ان میں نئے پن اور ندرت کو تیزی کے ساتھ جذب کرنے کی صلاحیت ہو”
ظاہر ہے ایلیٹ نے ریڈرشپ کا جو معیار طے کیا ہے وہ اپنے آپ میں کسی بھی شاعر کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنانے میں ممد ثابت ہوسکتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دستے کو لابی کا نام دیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ہمارے یہاں تو شروع سے ہی اس حوالے سے یہ تصور عام رہا ہے کہ مخصوص قارئین کا مجموعہ لابی کہلاتا ہے۔اس ضمن میں یہ سوال اور بھی اہم بن جاتا ہے۔ظاہر ہےاگر ہم ایلیٹ کے نقطئہ نظر سے دیکھیں تو وہ اس دستے کی جو خصائص بیان کرتا ہے وہ لابی کے حوالے سے ہمارے عمومی تصور کے بالکل متضاد ہیں۔آپ دیکھیے کہ ہمارے یہاں لابی کی سب سے نمایاں خصوصیت تعصب ہے۔ممدوح کی تحریر میں ہزار طرح کے عیب ہوں گے لیکن لابی کے لوگ ان پر بات کرنے کے بجائے قصیدہ ہی پڑھیں گے۔پھر اگر غلطی سے بھی کسی غیر نے کوئی نقص نکالا تو ادبی دائرہ کار سے نکل کر اس کے گریباں تک ہاتھ جاتے ہیں۔اس کے برعکس جب ایلیٹ یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شاعر کے پاس ایک دستہ قارئین کا ضروری ہو لیکن یہ دستہ آزادانہ رائے رکھتا ہو تو صاحب! غیرجانبداری شرط ٹھہرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایاز صاحب کا بھی اپنا ایک حلقہ ہے جس میں کئ بڑے نام شامل ہیں اور جو اکثر و بیشتر ان کی شاعری پر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔لیکن میں حتمی طور پر ان کے حوالے سے یہ رائے ہرگز قائم نہیں کرسکتا کہ وہ سبھی آزادانہ رائے رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے ہیں۔بلکہ میں اپنے بارے میں بھی اس طرح کے قطعی دعوے سے اجتناب کرنا ہی بہتر سمجھوں گا کیونکہ بالآخر یہ طے کرنا کہ میری رائے آزادانہ (غیرجانبدارانہ) ہے کہ نہیں آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اس وقت یہ مضمون پڑھ رہے ہیں۔اب آئیے اپنا اصل مقدمہ شروع کرتے ہیں۔
جو لوگ نہیں جانتے ان کے لیے عرض ہے کہ ایاز صاحب کی کچھ غزلیں شب خون میں بھی چھپی تھیں، شاید یہ وہی زمانہ تھا جب شب خون تقریباً اپنا سامان سمیٹ رہا تھا۔لیکن ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا شب خون میں چھپنے کے بعد جدید شاعری کا فکری سرچشمہ ایاز صاحب کی شاعری کا بنیادی محور بنا؟ یہ سوال بیک وقت تحقیقی و تنقیدی نوعیت کا ہے اور اس کا جواب تلاشنے کے لیے ایاز صاحب کی کلہم اردو شاعری کا مطالعہ ناگزیر ہے۔میں جب اس عمل سے گزرا تو میں نے یہی پایا کہ ان کی شاعری کا کوئی ایک مخصوص فکری سرچشمہ نہیں ہے۔یعنی وہ کلی طور پر کسی ایک فکری سرچشمے پر انحصار نہیں کرتے بلکہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پسند کرتے ہیں۔”قدر ایاز” یا “خود رو” کی ابتدائ غزلیں دیکھ کر شاید کسی کو یہ لگے بھی کہ ان کے یہاں وجودی اظہاریے ہیں جن میں کہیں کہیں پر تھوڑے بہت علامتی رنگ کا بھی شائبہ ہو لیکن غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ خالص وجودی اظہاریے نہیں بلکہ ان میں ایک طرح کا Romantic expression بھی موجود ہے۔ مجموعی طور پر جب ان کی شاعری اٹھا کر دیکھتے ہیں تو جہاں جدید فکر کے مضامین نظر آئیں گے وہیں ترقی پسند جذبات کی بھی ترجمانی ملے گی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کی پیشکش میں کوئی نہ کوئی رومانوی عنصر ضرور شامل رہے گا۔پھر ان کا اسلوب بھی اتنا پیچیدہ یا علامتی نہیں ہے کہ جدید شعری کلچر میں کسی طرح فٹ بیٹھتا ہو۔ لہذا انہیں خالص جدید شاعر کہنا تو میرے خیال میں Debatable ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ جدید شاعر نہیں ہیں تو کیا ترقی پسند یا رومانوی شاعر ہیں؟ دیکھیے، میرے لیے یہ کوئی ضروری نہیں کہ کسی شاعر کو لازماً کسی خانے میں فٹ کیا جائے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی شاعر کے یہاں یہ سارے فکری یا نظریاتی دھارے ایک ساتھ جمع ہوتے ہوں یعنی اس کی شاعری میں مختلف مضامین کی آمیزیش ملتی ہو۔ایسے میں اسے کسی ایک زمرے میں لے آنا کیسے درست ہوگا۔پھر جس شاعر کو اس قسم کی زمرہ بندی کی حاجت رہتی ہے ظاہر ہے اسے اپنی شاعری justify بھی کرنا پڑتی ہے۔مجھے یقین ہے کہ ایاز صاحب کو زمرہ بندی کی کوئ حاجت نہیں۔پھر بھی اگر مجھے لازماً انہیں کسی زمرے میں(جو کہ میں نہیں چاہوں گا) شمار کرنا پڑے تو میں انہیں رومانوی شاعر کہنا پسند کروں گا۔اس لیے کہ ان کے شعری لہجے میں موجود رومانوی اظہار اس تخصیص کو تسلی بخش حد تک جسٹی فائ کرتا ہے۔
میں نے شفق صاحب کی شاعری میں یہ چیز بہت قریب سے دیکھی ہے کہ مضمون چاہے کتنا ہی دردناک کیوں نہ ہو ان کے لہجے میں ایک قسم کی وحشت ضرور ہوتی ہے۔مثلاً ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے؛
خاک تنہائ پھانکتی تھی یہاں
ایک خانہ خراب سویا تھا
ظاہر ہے تنہائ پر ہزاروں اشعار ملیں گے جن میں حزن ہوگا، یاس ہوگا یعنی کل ملا کر درد بھری کیفیت کا اظہار ہوگا لیکن اس شعر میں “پھانکنے” کے تلازمے نے جو وحشت پیدا کی ہے وہ کسی شعوری کوشش کا نہیں بلکہ شفق صاحب کی طبیعت کا نتیجہ ہے۔ورنہ شفق صاحب اگر چاہتے تو اس میں “پھانکنے” کے بجائے کوئی ایسا تلازمہ بھی استعمال کرسکتے تھے کہ جس سے شعر میں کوئ مغموم کیفیت پیدا ہوجاتی۔مگر چونکہ عموماً بے ساختہ شعر کہنے کے عالم میں شاعر کی طبیعت کا رنگ غالب آجاتا ہے اس لیے شعر میں وہی کیفیت پیدا ہوئ جو دراصل ان کی طبیعت کا خاصہ ہے کیونکہ طبعاً شفق صاحب ایگریسیو مزاج کے حامل ہیں۔ اسی قماش کے شاعر جوش صاحب بھی تھے۔ان کے شعری لہجے میں بھی وہی ایگریشن ملتا ہے جو بنیادی طور پر ان کی طبیعت کا رنگ تھا۔فیض صاحب کے حوالے سے تو یہ بات بہت مشہور تھی کہ ان کا لہجہ اقبال کے مقابلے میں کافی دھیما ہے حالانکہ دونوں کا تقابل غیر معقول لگتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ فیض صاحب کے یہاں یہ چیز پائ جاتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ طبعاً ان کی گفتگو کا عمومی لہجہ کافی دھیما تھا۔
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
حالانکہ اس پوری نظم کے پیچھے غصے کی جو کیفیت کارفرما تھی اس سے سبھی واقف ہیں لیکن نظم میں کہیں پر بھی اس نوعیت کی کوئی چیخ سنائ نہیں دیتی۔ان اشعار میں بھی نہیں جو اوپر درج ہوئے ہیں۔دراصل ہر شاعر کی طبیعت کا رنگ اس کے شعری لہجے میں نمایاں ہوہی جاتا ہے۔ایاز صاحب بھی اس سے بچ نہیں پائے۔بلکہ ان کا شعری قصہ تو اور زیادہ دلچسپ ہے۔چونکہ وہ طبعاً رومان پسند ہیں اس لیے ان کے لہجے میں رومانوی احساس فوراً اجاگر ہوجاتا ہے جو دراصل ان کی طبیعت کا اصل رنگ ہے۔مثال کے طور پر ان کے مختلف مجموعوں سے لیے گیے یہ چند اشعار دیکھیے:
ساحل پر اک ناو جو دیکھی ہم نے بتایا نام ترا
تنہائ کے ساگر میں بس ایک جزیرہ نام ترا
جنگل جنگل دھوم مچے گی دریا ہونگے بےقابو
پتی پتی جھوم اٹھے گی گھونگھٹ کوئی کھولے گا
چاہے صحرا کی وسعتیں رکھدے
میرے ہمراہ وحشتیں رکھدے ) مجموعہ: خود رو)
ریزہ ریزہ تم بھی مجھ کو چنتے ہو
لمحہ لمحہ میں بھی زایل ہوجاتا ہوں
میں جب خود ہی خود سے غافل ہوجاتا ہوں
تب ہی تیرے دھیان کے قابل ہوجاتا ہوں
غیر مکمل میں بھی تیرے چھونے سے
ایک ہی پل میں لیکن کامل ہوجاتا ہوں
میری چاہت میں تو تڑپتا ہے
رات وحشت میں یہ گماں گزرا
آکے لپٹا جو تری دید کا دریا مجھ سے
رات سمٹا نہ تری یاد کا صحرا مجھ سے (قدر ایاز)
ہم تو ہوش و حواس کھو بیٹھے
جام اس نے ابھی بھرا بھی نہیں (شام سے پہلے)
ان سبھی اشعار کا لہجہ رومانوی ہے۔ایاز صاحب کی شاعری میں ایسے اشعار کو انگلیوں کے پوروں پر گنا جاسکتا ہے جن میں متکلم کا مکالمہ کلی طور پر اپنی ذات سے ہو یا مکالمے کے بجائے محض کسی ذاتی مسئلے کا اظہار ہو۔ایاز صاحب عموماً کسی سے مخاطب ہوکر ہی شعر کہتے ہیں۔
مجھے جو چیز ان کی شاعری میں زیادہ اچھی لگی وہ ان کا بیباکانہ اظہار ہے۔
آس میں کاٹے بیس برس اور یاس میں کاٹے بیس برس
کچھ نہ پوچھو ہم نے کیسے کاٹے ہیں چالیس برس
جس نے ہم کو عشق سکھایا جس سے سمجھے سارے گر
اس کی عمر تھی سولہ سترہ اپنی تھی اکیس برس
ایلیٹ نے ہی مذکورہ مضمون میں ایک جگہ لکھا تھاکہ:
“کچھ شاعروں کی ایسی ملی جلی قسم بھی ہے کہ یہ کہنا نا ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ کہاں تک اپنی شاعری کی بنیاد اپنے خیالات و عقائد پر رکھتے ہیں اور محض اپنی شاعری میں استعمال کرنے کی وجہ سے کسی چیز پر وہ کس حد تک ایمان رکھتے ہیں”
مجھے نہیں لگتا ایاز صاحب کے معاملے میں ہم کسی تذبذب کے شکار ہوں گے۔ان کی شخصیت کا ہر پہلو ان کے شعری خیالات سے میل کھاتا ہے لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ جن خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں ان پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔میرے خیال میں یہی غیر جانبدارانہ رویہ ایک شاعر کی Originality کی ضمانت دیتا ہے ورنہ لوگ تو آجکل اقبال کے بھی ایمان پر حرف لاتے ہیں۔
یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ میر غلام رسول نازکی اور فاروق نازکی صاحب جیسے سنجیدہ فکر کے شعرا کی صحبت میں رہنے کے باوجود ایاز رسول نازکی کا لہجہ اتنا شگفتہ اور بےبیاکانہ ہے کہ شاید ہی کسی کو ان کی شاعری پر ان دو کے سایے کا گمان گزرے ۔مجھے اس لحاظ سے اردو ادب میں نطشے کی Master Morality کے کئ اطلاقی امکانات نظر آتے ہیں۔یہ کوئی ضروری نہیں کہ صرف سیاسی طاقت کے تناسب میں ہی نطشے کے اس تصور کو فٹ کیا جائے بلکہ یہ ایک نفسیاتی تصور بھی ہے جس کا اطلاق اگر ادب پر ہو تو کئ مثبت نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ظاہر ہے ایک شاعر جو کسی نظریے یا سکہ بند اصول کے تحت شعر کہنے کے بجائے اپنے معیار کا تعین خود کرتا ہے وہ دراصل اپنی انفرادیت قائم کررہا ہوتا ہے۔ایسے شاعر کی شاعری پر اچھی یا بری شاعری ہونے کا حکم نہ کوئی نقاد کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی وضع یا اخذ کردہ شعریات، بلکہ اس کا فیصلہ اس شاعر کی شعری ساخت خود کرتی ہے۔اسے یوں سمجھیے کہ ایسا شاعر صرف روایت سے انحراف نہیں کرتا ہے بلکہ اپنی Originality کو ترجیح دے کر عصری میلانات کو دیکھنے اور سمجھنے کے عمومی تصور کو بھی چیلنج کرتا ہے۔اس ضمن میں جون ایلیا سامنے کی مثال ہے۔لیکن ہمارے کشمیر کے اردو شعری منظرنامے میں ایاز صاحب اس کی ایک اہم مثال ہے۔انہوں نے اپنے بعض ہم عصروں کی طرح کسی دیے ہوئے فارمولے کے تحت شعر کہنے کے بجائے ہمیشہ اپنے تخیل کو آزاد رکھا۔پھر چاہے وہ شاعری ہو یا نثر انہوں نے ہر صورت اپنے ذاتی نقطئہ نظر کو ترجیح دی ہے۔بہتوں کو ان کی شاعری میں فکری ساختوں کا فقدان رنجیدہ کرسکتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ بہتوں کو اس شاعری میں موجود لطیف نغمگی کا احساس اور شوخئ اظہار خوش کرتا ہو۔بہر حال میر کی شاعری سے لطف اندوز ہونے والے ان لوگوں کی تعداد آج بھی زیادہ ہے جن کے نزدیک میر کی شاعری فکر کا نہیں بلکہ جذبات و کیفیات کا مجموعہ ہے۔ایاز صاحب کو دیکھیے؛
آج کا دن بھی عمر میں جوڑ یں سو جائیں
کل کی باتیں کل پر چھوڑیں سو جائیں
باغ میں ٹہلیں سیر کو جائیں سوچوں میں
پھول کو سونگھیں پھول نہ توڑ یں سو جائیں
ان اشعار میں کوئی بلند خیالی ہے نہ کسی سنجیدہ فکر کا اظہار بلکہ یہ محض احساسات و جذبات ہیں جنہیں لفظوں کا جامہ پہنایا گیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ محض احساسات و جذبات کا اظہار تو بہت سے شاعر کرتے ہیں تو ایاز صاحب میں ایسا کیا ہے جو انہیں باقیوں سے منفرد بناتا ہے۔میرے خیال میں مناسب الفاظ کا انتخاب اور ان کا صحیح استعمال۔بہت سے شاعر کیا کرتے ہیں کہ لطیف سے لطیف تر احساس کو بھی یا تو بوجھل اور ثقیل الفاظ و تراکیب کے ذریعے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس کی لطافت کا سارا حسن زائل ہوجاتا ہے یا پھر سہل ممتنع کے چکر میں فقط قافیہ پیمائ سے اس کا خون کرتے ہیں۔ میرے خیال میں محض کسی جذبے یا کیفیت کا اظہار سادہ اور سلیس زبان کے علاوہ لفظوں کے مناسب انتخاب و استعمال کا بھی متقاضی ہوتا ہے کیونکہ جذبہ ہو یا کیفیت دونوں اگر فوری تاثر چھوڑنے میں ناکام ہوں تو فقط مہمل گوئ پر ختم ہوتے ہیں۔ایاز صاحب بھی بعض اوقات کہیں کہیں پر ڈگمگا جاتے ہیں۔اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے کہ انہیں جب کبھی اظہار کے لیے مناسب وسائل دستیاب نہ ہوں تو فقط قافیہ پیمائ سے کام چلا لیتے ہیں۔جیسے یہ اشعار دیکھیے؛
وہ غافل دور ہم سے اس قدر ہے
عدم سے نیستانی ہو گیا ہے
دید کی ان دھوپ کرنوں کا کرشمہ ہی تو ہے
ایک پل بھی تھم نہیں جاتے ہیں آنسو دیکھنا
ان سے ملیے گا تو کہیے کون ہیں
ہم سے بھی وہ آشنا ہیں کیوں نہیں
کیا بتائیں ہم تو رسوا ہوگئے
کوئی پوچھے بےوفا ہیں کیوں نہیں
ان سبھی اشعار میں محض قافیہ پیمائ ہوئ ہے۔جن غزلوں کے یہ اشعار ہیں ان میں بقیہ اشعار تو اتنے خوبصورت ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتے تو غزل کے مجموعی حسن پہ کوئی آنچ نہ آتی۔اب دیکھیے پہلے شعر کا پہلا مصرع یوں تو بہت اچھا ہے لیکن دوسرے مصرعے میں لفظ “نیستانی” نے شعر کا سارا حسن بگاڑ دیا ہے۔عدم کے معنی فنائے محض ہے جبکہ نیستانی کے معنی کھیت یا جنگل کے ہیں۔ظاہر ہے دونوں میں کوئی مناسبت نہیں اور شعر کے نفس مضمون کے مطابق تو دونوں بالکل متضاد تلازمے ہیں۔شعر کی نثر بھی اگر کیجیے تو یہ عیب نمایاں ہوجاتا ہے۔”وہ بےخبر ہم سے اتنا دور ہے کہ فنائے محض سے جنگل ہوگیا ہے” بھلا یہ کیا بات ہوئ کہ آپ کو فاصلے کی پیمائش یا Intensity بتانا مطلوب ہے لیکن آپ قافیہ ایسا استعمال کرتے ہیں کہ پورا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔اسی طرح دوسرے شعر میں دیکھیے قافیہ “آنسو” استعمال ہوا ہے جو کہ بہتر ہے۔ لیکن صرف قافیہ ملنے سے ہی تو شعر مکمل نہیں ہوجاتا بلکہ قافیہ باقی ضرورتوں کو بھی جنم دیتا ہے جیسے مصرعہ سے مصرعہ ملانا۔اس شعر میں دوسرا مصرع تو ٹھیک ٹھاک ہے اور سمجھ میں بھی آجاتا ہے لیکن پہلا مصرع بڑا عجیب ہے۔ہم نے دھوپ کی کرنیں تو دیکھی ہیں لیکن دید کی بھی دھوپ کرنیں ہوتی ہیں ایسا پہلی بار سن رہے ہیں۔اول تو یہ کہ دید کے لیے ضروری نہیں کہ صرف سورج کی روشنی میں ہو، ہمارے یہاں اس کام کے لیے عاشق لوگ چاند کی روشنی یا دیے کی روشنی کا بھی سہارا لیتے ہیں۔پھر اگر شاعر نے “دید کی دھوپ روشنی” سے محبوب کی آنکھوں کی چمک مراد لی ہو تب بھی روشنی کے ساتھ “دھوپ” کا سابقہ غیر معقول نہ سہی لیکن معیوب ضرور سمجھا جائے گا۔اس شعر میں یہ قبح قافیہ کے سبب در آیا ہے۔تیسرے شعر میں قافیہ “آشنا” کی بھرتی شعر کی ردیف “کیوں نہیں” سے میل نہیں کھاتا۔پہلے تو یہ دھیان میں رکھیے کہ اس شعر میں تین لوگ شامل ہیں۔جن میں سے دو صیغہ حاضر میں ہیں اور ایک صیغہ غائب میں۔شعر کا پہلا مصرع پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ متکلم دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ تم جب اس (یعنی تیسرے شخص) سے ملو گے تو اس سے میرے بارے میں پوچھنا کہ میں کون ہوں۔پھر دوسرے مصرعے میں اس کی وجہ بھی خود ہی بتاتا ہے کہ وہ مجھ سے بھی آشنا ہے یعنی متکلم کے ساتھ بھی اس کے مراسم رہے ہیں۔یہاں تک تو بات بالکل مکمل ہوجاتی ہے اور سمجھ میں بھی آجاتی ہے لیکن پھر شاعر ایک غلطی کر بیٹھتا ہے کہ وہ دوسرے مصرعے کے آخر میں ردیف کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ “کیوں نہیں” اس سارے واقعے کے حسن و جمال پر پانی پھیرتا ہے۔اسی قسم کا عیب آخری شعر میں بھی ہے جسے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ان اشعار کے علاوہ بھی ایسے اشعار ان کے مجموعات میں ہیں جن پر محض قافیہ پیمائ کا گمان ہوتا ہے۔ایسے اشعار میں بھی دراصل مناسب مواد کی عدم دستیابی کے سبب ہی سارا حسن زائل ہوجاتا ہے۔مذکورہ اشعار میں تو انتہائ درجے کا پھیکا پن ہے۔بہر کیف! ایسی خامیاں عموماً ہر شاعر کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں مل ہی جاتی ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ کیا شاعر کے یہاں ایسا کلام بھی ہے جو ان سب خامیوں کی بھرپائ کرتا ہو؟ اس معاملے میں میرا تاثر مثبت ہے کہ ان سب خامیوں سے قطع نظر ان کی شاعری میں حسنِ بیان کی وہ ساری رعنائیاں جلوہ گر ہیں جو ان کی خامیوں کو نظرانداز کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ان کے اکثر اشعار میں ایسے تلازمات کا استعمال ہوا ہے کہ مضمون کو سمجھنے میں آسانی تو ہوتی ہی ہےساتھ میں کوئی نہ کوئی موثر کیفیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔مثلاً یہ شعر دیکھیے:
وہ گئے موسم کا کوئی رنگ لے کر آئے گا
اگر میں یاد آیا تو سنگ لے کر آئے گا
لفظ “رنگ” اور “سنگ” کے stress سے پیدا ہونے والا آہنگ اس شعر کی خوبصورتی کا غماز تو ہے ہی ساتھ میں اس شعر کی ایک اور فنی خوبی بھی ہے جو شعر کے مجموعی حسن کو دوبالا کرتا ہے۔وہ یہ کہ لفظ “سنگ” ذو معنی ہے اور دونوں معنوں میں شعر سے معنوی انسلاک پیدا کرتا ہے۔اگر “سنگ لے کر آئے گا” سے ساتھ لے کر آنا مراد لیا جائے تب بھی شعر کا حسن قائم رہے گا لیکن اگر استعاراتی معنوں میں دیکھیں اور “سنگ لے آنے سے” پتھر لے آنا مراد لیں تو شعر میں “جنون” کی جو کیفیت پیدا ہوجاتی ہے وہ شعر کی معنویت کو بلندی تک پہنچاتی ہے۔ میر کا مشہور شعر ہے؛
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ظاہر ہے کلاسیکی شاعری میں جنون کی کیفیت کا مداوا صرف سنگ میں پایا گیا ہے اور اس مناسبت سے ایاز صاحب کا مذکورہ شعر بہت ہی اعلی اور معیاری ہے۔مجھے یاد آیا کہ ایاز صاحب کی شاعری میں اس قسم کی بین المتونیت صرف کلاسیکی شاعری کی جانب ہی توجہ مبذول نہیں کراتی بلکہ جدید شاعری بھی دھیان میں آجاتی ہے۔مثلاً ان کا یہ شعر دیکھیے:
اس جگہ کا کوئی موسم اس کو جب بھایا نہیں
وه پرنده اڑ گیا پھر لوٹ کر آیا نہیں
اس شعر کے تطابق میں مجھے مشہور جدید شاعر منچندا بانی اور مشہور مابعد جدید شاعر بشیر بدر کے اشعار یاد آتے ہیں جن کی مناسبت سے اس شعر کو مزید سمجھا جاسکتا ہے۔
اڑ چلا وہ اک جدا خاکہ لیے سر میں اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا
(بانی)
مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانا پھر کہاں ہوگا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
(بشیر بدر)
ان دونوں اشعار کو اگر ایاز صاحب کے شعر کے ساتھ جوڑ کر پڑھا جائے تو یقیناً ایک کہانی تیار ہوگی۔پرندہ کیوں اڑا اس کا جواب ایاز صاحب کے شعر میں ہے، وہ کیا لے کر اڑا اس کا جواب بانی کے شعر میں ہے اور کہاں گیا ہوگا اس تذبذب کا حل بشیر بدر کے شعر میں ہے۔لیکن تینوں کے اشعار میں پرندے کو لے کر ایک تشکیکی صورت حال بھی ہے جس سے کہانی میں مزید تجسس پیدا ہوجاتا ہے۔پھر یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ پرندے کے استعاراتی طلسم کو توڑ کر کون سی حقیقت دریافت کرتا ہے۔کیا پرندہ محض پرندہ ہے یا وہ پرندے کے جون میں قاری خود ہے۔یہ فلسفیانہ موشگافیاں صرف قاری کے لیے ہیں۔
بہر کیف! مجھے یہ کہنا ہے کہ ایاز صاحب کی شاعری میں کئ تخلیقی کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ان کی شاعری میں وہ تخلیقی حسن بھی ہے جو نئے ضابطے متعین کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔مثلاً یہ اشعار دیکھیے:
کل شب تمہاری یاد سے آیا نہیں گیا
دل سا کوئی چراغ جلایا نہیں گیا
رہیں ہشیار یہ بھوکی بہت ہے
ہمارے شہر میں مٹی بہت ہے
اس شہر میں اب کوئی بھی معصوم نہیں ہے
ہم ہیں کہ نہیں ہیں، ہمیں معلوم نہیں ہے
راحت کے سفینوں پہ چڑھے آتے ہیں ظالم
اس بھیڑ میں شامل کوئی مظلوم نہیں ہے
سوکھے پیڑ کی ڈال پہ بیٹھا گل سے بلبل کہتا تھا
آگ کا کیا ہے لگ جائے تو جنگل جنگل پھیلے گی
ان اشعار میں میر کی مہک بھی ہے اور نئے عہد کی سوچ کا جادو بھی۔بالخصوص ایاز صاحب کا پہلا شعر اور میر کا یہ شعر دیکھیے؛
پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
گوکہ ایاز صاحب کے شعر کا مضمون میر صاحب کے مضمون سے مختلف ہے لیکن دونوں کا سرگم ایک ہے۔ظاہر ہے میر کا شعر تو ایاز صاحب نے سنا ہی ہوگا بلکہ ان کے حافظے میں بھی ہوگا ورنہ اس آہنگ میں اس تناسب سے شعر کہنا محض حسن اتفاق تو نہیں ہوسکتا۔ایاز صاحب نے جس کیفیت کا اظہار کیا ہے اس میں ہجر کا بیان ہوا ہے لیکن دل کو چراغ سے تشبیہہ دینے سے اس میں جو بصری پیکر پیدا ہوا ہے وہ اس کیفیت کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ایاز صاحب کی پختہ کاری کے ثبوت کے طور پر اس ایک شعر کی مثال کافی ہوگی۔پھر آگے کے اشعار میں جو مزاحمتی رویہ ہے وہ ایاز صاحب کے موروثی ذہن کی پیداوار ہے۔ان کے والد میر غلام رسول نازکی صاحب اور بڑے بھائ فاروق نازکی صاحب کی شاعری میں مزاحمت ایک نمایاں عنصر ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو مجھے ایاز صاحب کی شاعری میں رومانوی جذبات کے علاوہ بھی کئ ایسے مضامین ملے جن سے ان کے تخلیقی شعور کی پختگی کا عندیہ ملتا ہے اور ساتھ میں ان کا شگفتہ انداز بیان شعر کی خارجی سطح پر کیف و سرور کی جو فوری کیفیت پیدا کرتا ہے وہ بھی صرف انہی کا خاصہ ہے۔مجھے واقعی ان کی شاعری پڑھنے اور اس پر لکھنے میں مزہ آیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں