ڈیجیٹل دھوکہ دہی اور مالیاتی فراڈ کا بڑھتا ہوا گراف ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں جہاں نئے مواقع اور سہولتیں پیدا ہوئی ہیں، وہیں اس کا غلط استعمال بھی بڑھا ہے۔ فراڈ کرنے والے افراد ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے لوگوں کو جھوٹے جال میں پھانس رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افراد مالی نقصان کا شکار ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز نے اس فراڈ کی نوعیت کو مزید پیچیدہ اور تیز تر کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں انٹرنیٹ پر ہونے والے مالیاتی دھوکہ دہی اور جعلی سافٹ ویئر کی فروخت جیسے مسائل نے عام صارفین کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ان مسائل کا حل تلاش کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ڈیجیٹل دھوکہ دہی کے اثرات صرف مالی نقصانات تک محدود نہیں ہیں، بلکہ فری لانسرز کا اعتماد بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔
سائبر کرائم اور ڈیجیٹل دھوکہ دہی کے ان واقعات میں فراڈ کرنے والے افراد کی مہارت بھی اب بڑھ گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر جعلی اشتہارات، خوبصورت ویب صفحات، اور دھوکہ دہی پر مبنی پوسٹس کے ذریعے لوگوں کو بہکایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر ہونے والے اس فراڈ کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ اکثر غیر محسوس طریقوں سے کی جاتی ہے، جس میں متاثرہ شخص کو فوراً احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر، SEOٹولز کی جعلی فروخت کا معاملہ جس میں خریداروں کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ ٹولز ان کی ویب سائٹ کی رینکنگ میں بہتری لائیں گے یا ٹریفک بڑھائیں گے، یا جو ٹولز صارف کو مہنگے داموں خریدنا پڑتے ہیں وہ کم نرخ پر حاصل کرنے کی کوشش میں آن لائن فراڈ کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایسے افراد کسی جعلی نام سے سوشل میڈیا میں باقاعدہ ایک گینگ کی صورت میں تشہیر کرتے ہیں اور جھانسہ دیا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ٹولز محض ایک دھوکہ ہوتا ہے۔ اس قسم کی دھوکہ دہی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ان ٹولز کا استعمال کیا جاتا ہے تو ان سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ بالکل پورا نہیں کیا جاتا اور پریمیم پروگرام کے بجائے ایکسٹیشن کے ذریعے فری ویب سائٹ کی رسائی دے کر جعلسازی کرکے آن لائن فراڈ کئے جانا معمول بن گیا ہے ، آن لائن فراڈ کے بعد جب صارف ان سے رابطہ کرتا ہے تو دوسری جانب سے جواب نہ ملنے پر صارف مسلسل رابطہ کرکے تھک اور مایوس ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی رقم واپس حاصل نہیں کر پاتا۔
ان تمام پیچیدگیوں کے درمیان یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستانی قوانین اگرچہ موجود ہیں، مگر ان کا نفاذ اس طرح نہیں ہو رہا جیسا ہونا چاہیے۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر حکام اس مسئلے کی سنگینی کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے، یہ سائبر کرائم مزید پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہو جائے گا۔ ایک طرف جہاں عوام کا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اعتماد متاثر ہو رہا ہے، وہیں دوسری طرف عالمی نیٹ ورک کی مدد سے ہونے والے ان جرائم کو بے نقاب کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں اس نوعیت کے جرائم میں بین الاقوامی نیٹ ورک ملوث ہوتے ہیں، جو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے جال کو پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں درپیش اس چیلنج کا حل عالمی سطح پر تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
مگر اس تمام صورت حال میں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر عوام کو اس دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ یہاں پر ایک اور اہم پہلو سامنے آتا ہے، وہ عوامی آگاہی کا فقدان ہے۔ زیادہ تر افراد سائبر سیکیورٹی کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھتے کہ وہ ان خطرات کو پہچان سکیں اور خود کو ان سے بچا سکیں۔ عوامی سطح پر آگاہی کی کمی نے فراڈ کرنے والوں کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سوشل میڈیا پر ہونے والے اس فراڈ کا شکار لوگ اپنی رقم ضائع کر بیٹھتے ہیں، تو دوسری طرف انہیں اس بات کا پتا ہی نہیں چل پاتا کہ یہ دھوکہ کیسے ہوا۔ یہاں ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے پروگرامز متعارف کروائے جائیں تاکہ نئی نسل کو اس خطرے سے آگاہ کیا جا سکے۔
فراڈ کرنے والے اپنی شکاروں سے پیسے جمع کرنے کے لیے کئی عام ادائیگی کے طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں وائر ٹرانسفر، مختلف خدمات کے ذریعے پیسوں کی منتقلی، پیئر ٹو پیئر (P2P)ادائیگی کی خدمات اور موبائل ادائیگی ایپس، گفٹ کارڈز، اور کرپٹو کرنسی شامل ہیں۔ دھوکہ دہی کرنے والے ان ادائیگیوں کو آسان بنانے کے لیے مخصوص تکنیک استعمال کرتے ہیں جیسے ایڈوانس فیس اسکیمیں جن میں لوگ وعدہ شدہ سامان، خدمات، یا انعامات کے لیے پیشگی فیس یا ادائیگیاں طلب کرتے ہیں جو کبھی فراہم نہیں کی جاتیں اور یہ اکثر بین الاقوامی وائر ٹرانسفرز اور فیس یا ٹیکسز کے بارے میں قائل کرنے والی کہانیاں شامل ہوتی ہیں۔ بینکنگ اور مالیاتی دھوکہ دہی میں فراڈ کرنے والے جائز مالی اداروں کی نقل کرنے والی جعلی ویب سائٹس بناتے ہیں تاکہ ادائیگی کی معلومات اور ذاتی تفصیلات اکٹھی کی جا سکیں اور وہ اے ٹی ایم یا ای ایف ٹی پی او ایس مشینوں پر کارڈ اسکمنگ بھی استعمال کر سکتے ہیں تاکہ کریڈٹ کارڈ کی معلومات حاصل کی جا سکیں۔ تکنیکوں میں دھوکہ دہی کرنے والے سرکاری اہلکاروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خیرات کی تنظیموں کے طور پر ظاہر ہو کر متاثرہ افراد کو ادائیگی کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور وہ اکثر کال سپوفنگ جیسے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کی فون کالز جائز معلوم ہوں۔ ریفنڈ اسکیموں میں ملزمان متاثرہ افراد سے رابطہ کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ریفنڈ ملنا ہے، پھر وہ انہیں جعلی بہانوں سے ادائیگی کی معلومات فراہم کرنے یا ادائیگیاں کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی سائبر کرائمز اور مالیاتی دھوکہ دہی کی روک تھام کے لیے صرف قانونی کارروائیاں کافی نہیں ہیں، بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی میں بھی مزید سختی کی ضرورت ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر ہونے والی جعلی پروڈکٹس اور سافٹ ویئر کی فوری شناخت کریں اور انہیں بند کریں۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر اسپانسر کے ذریعے مشتہر ہونے والے ان اکائونٹ کی بندش کو فوقیت دینا ضروری ہے کیونکہ پرکشش آفرز آن لائن پر کمائی کا ذریعہ بننے کی کوشش میں صارف اپنی جمع پونجی کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں