تجزیہ جائز بھی ہو یکطرفہ رہتا ہے۔ سچ آفاقی ہو سکتا ہے لیکن آفاقیت پھر بھی سبجیکٹو ہوتی ہے۔ کسی کا ماننا ہے کہ میرا سچ میرا ہے، رستے کا چناؤ بھی میرا ہے، تمھارا تمھارا ہے، رستے کا چناؤ بھی تمھارا ہے لیکن دونوں سچ کلیت کا درجہ نہیں پا سکتے۔ دونوں ٹھیک اور غلط ہو سکتے ہیں۔ کسی تجزیے سے منسلک تمام لوگ اتفاق بھی کریں گے جب تک انھیں اتفاق کرنا دلی یا ذہنی طور بجا لگے گا اور پھر اختلافات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے اختلاف رائے پہ اتفاق بہتر سٹریٹجی ہے اور ساحل پہ کھڑے رہنا عافیت ہے۔
سال سے زیادہ ہوچکا جب جنگ شروع ہوئی تھی۔ جنگ تو انسانی نالائقی ہے لیکن دنیا اب جس طرف رواں ہے وہ راستہ انتہائی غیر منطقی ہے۔ انسانوں کو لقمہ اجل بنا کر بچے ہوؤں کو دربدر کرنے کے طعنے دینا اور اسے مفادات کی جنگ کہہ دینا ظلم اور بحرِ ظلمت ہے۔ یہ سب کتنا آسان لگ رہا ہے۔ آج سے چند عرصہ پیچھے کھیلتے بچوں کے گھروں کو کھنڈر بنا کر وہاں انتہائی خوبصورت تعمیرات ہی کر لی جائیں بہرحال ذی شعور انسان کیسے قبول کر سکتا ہے؟ کھنڈرات تلے بچوں کی ہنسنے رونے بسورنے کی آوازیں انھیں رلائیں گی نہیں؟ فی الحال تو دنیا ان کی آہوں سسکیوں کو محسوس کرنے اور اداس ہونے کی بجائے ہنس کھیل رہی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں شاعری بن رہی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں ردھم ملے گا:
ایک ردھمک پیٹرن ظلم و ستم کی داستان سن کے ٹال مٹول سے کام لینا تاکہ ظلم جاری رکھا جا سکے جیسا کہ اعلانیہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ پیٹرن اندر کی منفیت کو تسکین پہنچانے کے لیے اہل ستم کو بظاہر بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن یہی شاعری کے اگلے مصرعوں پہ مکافات کی چکی میں پستی داستان ہے! انتقام در انتقام کی شاعری پہ ناچ تِگڑ مقدر بنے گا۔ یہ شاعری کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن شروع میں مزاحمت کاروں کی کمزور حکمت عملیاں بھی اسی شاعری کا پہلا مصرعہ ہے لیکن اس مصرعے سے جڑے تاریخی مصرعے بھی جھٹلائے نہیں جھٹلائے جا سکتے۔
دوسری نظم یا غزل بہت اچھی ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جو اس صورتحال پہ پشیمان ہیں۔ آہوں سسکیوں کو محسوس کر رہے ہیں اور آہوں سسکیوں کا جواب آہوں سسکیوں سے دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ردھم سریلا ہے لیکن اس سریلیت کا ذائقہ یہاں ختم ہوتا ہے کہ جو اجڑ گئے ان کا کیا؟ بڑے بڑے ہاتھیوں عالمی استعماروں کی لڑائیوں میں طرفین سے بِھڑنے والی چیونٹیوں عام لوگوں کو کیوں یرغمال بنایا جا رہا ہے؟ وہ عام انسان جس سے شعور چھین لیا گیا اسے کیوں ایندھن بنایا گیا؟ یہاں یہ شاعری کا اختتام بھی کڑواہٹ پہ ختم ہو رہا ہے!
تیسری فصل کچھ مزید بہتر ہے۔ عام لوگ چاہے وہ کسی بھی سکول آف ٹھاٹ یا کلچر یا نسل یا مذہب یا قوم سے وابستہ ہیں اگر عام ہیں تو خاص لوگوں کی عامیانہ ذہنیت کو سمجھ رہے ہیں اور بالآخر یہی عام لوگ شعوری مزاحمت سے اس جنگ کا اختتام کریں گے اور آخری مصرعے کو ہیپی اینڈنگ کا عنوان دینے میں کامیابی سمیٹیں گے! دنیا ہمیشہ یہی دو لوگوں کا مجموعہ ہے۔ ظالم اور مظلوم! ان کا ہر طرح سے اختلاف الگ سے موسیقی ہے اور ادب کا عنوان ہے! یہاں ظالم لوگ مظلوموں کو ٹُول کے طور پہ استعمال کرتے ہیں اور مظلومیت کو تقسیم کرتے ہیں لیکن بہرحال شعور اجاگر ہو رہا ہے اور کہانی سمجھ آرہی ہے! اب بیانیے نہیں چلیں گے! اب سریلے گیت عنوان بنیں گے! نفرت کے گملے میں محبت کے پھول اگیں گے! یہ نظم اور اس نظم کا عنوان امید ہے اور اس کی لفاظی اور بحری لہریں اور ردھم مل کر بہتر اور حقیقی ادب بنائیں گے!

اس ساری کہانی کے دو رخ ہیں۔ یہ ساری کہانی سکے کی مانند ہے۔ سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ دنیا اب سمجھ رہی ہے۔ امن کی طرف اشارے ہیں۔ یہ امن کی نوید سنانے والے اہل ستم ہیں۔ ان کی شکست انھیں نظر آرہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے حربے بھی بہت متشدد ہیں۔ امید ہے اس نظم یا کہانی کے منفی کردار بالآخر شعور پکڑ لیں گے اور مثبت کردار یعنی عام لوگ بلا امتیاز ایک میز پہ جمع ہو سکیں گے اور دنیا کو رنگین بنا دیں گے! ادب مہکے گا! شاعری بولے گی! کہانیاں تخلیق ہوں گی! انتقامی نفسیات کی بجائے ترقی پسندانہ نفسیات جگہ بنائے گی! معاشرت بہتر ہو گی! فلسفہ مایوس کرنے کی بجائے زندگی دے گا اور معیشت مساوات اور عدل و انصاف پہ قائم ہو گی! یہ دراصل بہتر شاعری ہو گی جسے کوئی چڑیا گنگنا دے گی!
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں