• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گستاخ رسولﷺ کی سزا، قران، حدیث اور فقہا کی نظر میں ۔۔۔ قسط اول

گستاخ رسولﷺ کی سزا، قران، حدیث اور فقہا کی نظر میں ۔۔۔ قسط اول

یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
توہین نبیﷺ کی ہو یا کسی اور دینی شخصیت کی، ہر دو صورت میں اس کے پس پشت متعصبانہ رویہ سے پھوٹنے والے عوامل ہیں۔ اس کے لئے ریاست کو ضروری ہے کہ وہ اقدمات کرے تاکہ ان مقدس شخصیات سے متعلق لوگوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جاسکے۔ مغرب میں آج ایک لہر سی اٹھی ہے جسے آپ آزادی رائے کے حق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس نعرے کے تحت ہر چیز خواہ وہ کتنی بھی مقدس کیوں نہ ہو، وہ قابل مواخذہ ہے اور اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اگر بات محض اتنی ہو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اصل میں یہ بات بڑھ کر مقدس شخصیات پر گھٹیا الزامات اور بے ڈھنگی باتوں تک جا پہنچی ہے۔

اس رویہ نے بہرحال مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر مسلمان کا سینہ چر جاتا ہے جب نبیﷺ یا ان سے متعلق کسی بھی شخصیت کے ساتھ بدتہذیبی اور بدتمیزی کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ یہ رویہ ہر حال میں قابل مذمت اور برا ہے۔ اسکی جتنی بھی مذمت کی جاسکے وہ کم ہے۔

لیکن اس محبت میں آ کر ایک بالکل شدت پسندی کا رویہ اختیار کرنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ گستاخ رسولﷺ سے متعلق ہم ایک حرف بھی سننا پسند نہیں کرتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خواہشات کے عین مطابق گستاخ رسول کو سزا دی جائے اور اس میں عدالت کوئی دیر نہ کرے، بس ادھر ہم نے کہا کہ وہ گستاخ ہے اور ادھر عدالت کو چاہیے کہ اسے اڑا کر رکھ دے نیز ہر وہ شخص جو صبر اور تحمل کی بات کرتا ہے، وہ بھی ایک گستاخ رسول ﷺ ہے۔ وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے یا وہ لبرل ہے ۔

یہ دونوں رویہ جات دو حدوں کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک طرف گستاخی کرنے والے ہیں اور دوسری طرف اس گستاخی کے بدلے میں قتل کا مطالبہ کرنےو الے اور اس مطالبے کے متعلق ایک حرف سننا بھی گوارا نہ کرنے والے لوگ ہیں۔ ان دونوں رویہ جات نے معاشرے میں اس قانون کے ناجائز استعمال کے لئے راہیں کھول دی ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں فیس بک پر مسلمان لکھاری سکند ر حیات بابا کے متعلق ملحدین نے ایک مہم شروع کی، جس مہم میں انہوں نے سکندر بھائی سے متعلق ایک افواہ عام کی کہ یہ گستاخ رسول ہیں اور انہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے۔ ان کی ذاتی آئی ڈی سے ان کی تصویریں اٹھاکر اپنی طرف سے پیج بنا دیا گیا۔ اسکے بعد جوش میں مسلمان بھائیوں نے سکندر بھائی کا جینا حرام کردیا۔ یہ انہی کے الفاظ تھے کہ "مسلمان میرے گھر تک پہنچ آئے ہیں۔ اسی لئے میرے سٹیٹس کو عام کرو تاکہ صحیح بات لوگوں تک پہنچے"(یہ سٹیٹس ان کی آئی ڈی پر دیکھا جاسکتا ہے)۔

یہی رویہ ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے دورہ حدیث کے طالب علموں کے سوالات کا جواب دیا تو لوگوں کے منہ بن گئے۔ یہاں تک کہ ایک دوست کو وہ بیان سنایا تو وہ فرمانے لگے کہ مفتی صاحب پر دکھ ہوا۔ عجیب سی بات ہے ہر وہ بات جو ہماری خواہشات کے مطابق نہ ہو، وہ ہمارے لئے دکھ کا باعث ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین ہماری خواہشات کا مرکز بن چکا ہے۔ ایک طرف شراب کو حلال کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں اور دوسری طرف اپنی مرضی کے مطابق دین کوسخت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اعتدال کا رستہ اپنا لیا جائے تو بہترین بات ہے۔ اور یہی دین کا تقاضہ ہے۔

اسی سے متعلق ایک توضیح کرتا چلوں کہ کوشش کرنی چاہیے کہ کسی بھی شخص کے محاسن اور محرکات طے کرنے سے باز رہا جائے۔ وہ اللہ ہی ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے اور اس نے ایک دن کا وعدہ کیا ہے جس دن، آپ اور ہم سب ا ٹھائے جائیں گے۔ وہ بتاتا ہے کہ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، ہر چیز کو فنا ہونا ہے۔ اور پھر وہ توجہ دلاتا ہے فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ ، اور جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح پھٹ کر گلابی ہوجائےگا تووہ کتنا ہولناک دن ہوگا؟ اسی دن کےبارےمیں وہ کہتا ہے کہ اس دن مجرمین دوڑ نہ سکیں گے اور نہ کسی سے ہم یہ پوچھیں گے کہ بھائی ذرا بتانا کہ فلاں بندہ متقی تھا یا نہیں؟ فلاں بندے کے متعلق تمہاری رائے کیا ہے؟ یا دنیا میں اسکے ایمان، لبرل یا یہودی ایجنٹ ہونے کی گواہی تم نے دی تھی یا نہیں دی تھی؟ نہ ہم سے چارج شیٹ مانگی جائے گی کہ بھائی لاؤ ذرا کس کس کی تکفیر کرکے لائے ہو؟ بلکہ قران اتنے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں اس دن مجرمین کے پکڑے جانے کی کیفیت بیان کرتا ہے کہ واللہ انسان ہل جاتا ہے۔ فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ، اس دن کسی بھی انسان یا جن سے اس کے گناہوں کے بارے میں سوال نہ کیا جاوے گا۔ میں اور آپ تو ایک علیحدہ بات، قران کہتا ہے کہ ہر شخص سے جب وہ کٹہرے میں آئے گا، اس سے سوال نہ ہوگا کہ بھائی ذرا اپنے گناہ گنوانا، فلاں فلاں جگہ تم نے کونسا گناہ کیا وہ گنوانا۔ بلکہ قران کہتا ہے يُعْرَفُ الْمُجْرِمُونَ بِسِيمَاهُمْ فَيُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِي وَالْأَقْدَامِ، کہ گناہ گار تو چہروں سے ہی پہچان لئے جائینگے اور ان کی پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ لئے جائیں گے۔یعنی کسی سے پوچھنے کی ضرورت دو وجوہات کی بنیاد پر نہیں ہوگی۔ ایک تو اللہ پاک کے ریکارڈ کیپر کے پاس ہر شخص کا ریکارڈ ہوگا اور دوسرا ہر مجرم کے چہرے اس دن بتا رہے ہوں گے کیونکہ وہ جانتا ہوگا جو اس نے بویا تھا۔ پریشانی اس دن مجرمین کے چہروں سے ٹپک رہی ہوگی اور مجرمین کو پھر پکڑ لیا جائے گا۔ اس لئے ہر شخص کے متعلق کسی بھی بات کو کرنے سے قبل اچھی طرح تحقیق کرلینا اور اس کے بعد بھی حسن ظن میں مبتلا رہنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ وہ دن تو آنے والا ہے اور وہ عدالت لگنے والی ہے۔ جسے اللہ کے نظام پر اعتبار نہیں، یا جس کو براہ راست وحی ہوئی ہے اور اللہ نے انسانو ں کے محرکات کے لکھنے کا حکم دیا ہے تو وہ پابند ہے اور اسے ضرور بہ ضرور ایسا ہی کرنا چاہیے ورنہ نظر ثانی کرلے تو زیادہ بہتر ہے۔

گستاخ رسولﷺ کی سزا سے متعلق دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک کے نزدیک ایسا ممکن ہی نہیں کہ نبیﷺ اپنی ذات سے متعلق بدلہ لیں۔ اس پر اماں عائشہ کا قول دلالت کرتا ہے۔ اور دوسرا نقطہ نظر ہے کہ یہ سزا قران کی سزا کے طور پر دی گئی اور اماں عائشہ کے اسی قول میں بھی اس کا ذکر ہے۔ اس سزا کے متعلق فقہا میں اختلاف رہا ہے، اس کو اجماع کہنے والوں کو فقہا کی آراء کا مطالعہ کرلینا چاہیے ۔ بہرحال یہ اسی قانون کو قران و حدیث کے دلائل اور فقہا کی آراء کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلی نشت میں ہم قران کے دلائل کا مطالعہ کریں گے اورا س کے بعد بالترتیب احادیث کا مطالعہ ، پھر فقہا کی آراء کا، پھر چند اہم باتیں اورا س کے بعد میں کوشش کروں گا کہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دوں۔
اس سزاء کے حق میں دلائل اور انکی حیثیت:
قران سے دلائل:
ا نَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا
(سورۃ احزاب ۔آیت۵۷)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس آیت میں صرف اور صرف ایذا رسانی کرنے والوں کو تنبیہ ہے۔ اور انہیں بتایا جا رہا ہے کہ خدا کی طرف سے ان کے لئے کیا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ اس آیت کو گستاخ رسولﷺ کی سزا کے جواز کے طور پر پیش کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ (احزاب ،۵۸)
ترجمہ: اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو اذیت دو۔
اس آیت میں بھی نصیحت کی گئی ہے کہ تم نبیﷺ کو ایذا نہ دو۔
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآَيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ۔لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
(التوبہ۔۶۵،۶۶)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ تم ہنسی کرتے تھے۔تم اب عذر مت کرو،تم اپنے کو مؤمن کہہ کر کفر کرنے لگے۔
اس میں ارتداد کا ذکر ہے۔کسی سزا کا ذکرنہیں، سورۃ توبہ میں اسی سے متعلق ایک آیت ہے۔جس کا ذکر آخر میں آئے گا وہ اس کی شرح کے لئے کافی ہے۔ اور ایذا رسانی والی آیات کی شرح کردیتی ہے۔(آیت نمبر اکسٹھ، سورۃ التوبہ)
ومن یشاقق اللہ ورسولہ فان اللہ شدید العقاب (الانفال۔۱۳)
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے، سو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔
اس آیت میں بھی یہ سزا اللہ کی طرف منسوب ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ بے شک اللہ سخت گرفت کرنے والا ہے۔
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدٰی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولیٰ و نصلہ جھنم و سائت مصیرا(النساء۔۱۱۵)
ترجمہ: اور جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ اس کے سامنے امر حق ظاہر ہو چکا ہو اور مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے رستہ ہو لیا ہو تو ہم اس کو جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی۔
اس آیت کا موضوع بھی تنبیہ ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
﴿005:033﴾
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سُولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔ ‏
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
﴿005:034﴾
‏ ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشترکہ تمہارے قابو آجائیں توبہ کر لی تو جان رکھو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
سورۃ المائدہ کی یہ دو آیات نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے۔ ایک محاربین اور دوسرے فساد پھیلانے والے۔یہاں برابر حکم ہے کہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ چھیڑتے ہیں یا زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کو دنیا میں قتل کی سزا یا ہاتھ پاؤں مخالف سمت کاٹنے کی سزایا ملک سے نکال دینے کی سزا کے علاوہ آخرت میں بھی سخت عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اگر اس آیت سے استدلال کرلیا جائے تو یہ آیت بہت مختلف قانون کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اور اس کی دوسری آیت ہمارے ہاں مقبول آراء کا قلع قمع کرنے کو کافی ہے۔ چونکہ اس آیت میں لفظ محاربین اور مفسدین کا ذکر ہے۔ اسلئے اب یہ قانون دو ہی قسم کے لوگوں پر لاگو ہوگا۔
اول: محاربین دوم: مفسدین

سرکشی اتنی ہوجائے کہ وہ فساد فی الارض تک پہنچ جائے اور در اندازی اتنی ہوجائے کہ وہ جنگ تک لے جائے تو ان لوگوں کے خلاف پھر اقدام کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن بالکل ہی اگلی آیت اور ایک حد لگا رہی ہے۔ اگر وہ شخص توبہ کرلے، معافی مانگ، اپنی بات کی وضاحت کردے تو اس کی توبہ قبول ہوگی، معافی دی جائے گی اور اگر توضیح قابل قبول ہوئی تو اسے بھی قبول کیا جائے گا۔ اس کے بالکل برعکس ہمارے مقبول رائے ہے کہ گستاخ رسولﷺ کی توضیح کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

اس کے علاوہ یہی آیت، تین قسم کی مختلف سزائیں انہی لوگوں سے متعلق بیان کر رہی ہے۔یعنی ہر صورت میں قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ تین مختلف سزائیں دی جائیں گی۔

وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ [توبہ آیت 12]
اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔
سورۃ توبہ کی اس آیت سے متعلق مختلف آراء ہیں۔ امام ابوحنیفہ ، امام سفیان الثوری اور ان کے ماننے والے، اس کے متعلق جو رائے رکھتے ہیں وہ یہ ہے:
أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.
یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم محمد ﷺ کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرے)۔ اور انہوں نے حجت پکڑی ہے اللہ تعالی کے اس قول سے "وان نکثوا" والی آیت۔
اسی آیت میں جن لوگوں کا ذکر ہے انہیں ائمتہ الکفر کا لقب دیا گیا ہے۔ اس کی تفسیر تفسیر عثمانی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ائمتہ الکفر سے متعلق ایک روایت موجود ہے جو واضح کرتی ہے کہ یہ آیت کن لوگوں سے متعلق ہے۔
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة: { وَإنْ نَكَثُوا أيمَانَهُمْ مَنْ بَعْد عَهْدِهِمْ… } إلى: { يَنْتَهُونَ } ، فكان من أئمة الكفر: أبو جهل بن هشام، وأمية بن خلف، وعتبة بن ربيعة، وأبو سفيان، وسهيل بن عمرو، وهم الذين هموا بإخراجه.
امام عبدالرزاق، ابن جریر طبری، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ائمۃ الکفر" سے مراد ابو سفیان بن حرب، امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام اور سہیل بن عمرو ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑا اور محمد ﷺ کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا قصد کیا۔

اس کے علاوہ اس سے اگلی ہی آیت مخاطبین اور بھی واضح کر رہی ہے۔
أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ۔
﴿009:013﴾
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو (جنہوں نے اپنی) قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر (خدا) صلی اللہ علیہ وسلم کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتداء کی؟ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو؟حالانکہ ڈرنے کے لائق خدا ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو۔ ‏
لیکن تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کو عمومی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت عمومی ہے۔ اسلئے تفسیر عثمانی میں جو تفسیر موجود ہے وہ معاون ثابت ہوگی:
یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کج رو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آجائیں۔"
یہ قریب قریب وہ تمام آیات تھی جو اس موضوع سے متعلق بیان کی جاتی ہیں۔ اور ان پر فقہا اور مفسرین کی آراء تھیں۔ واللہ عالم
قران کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے اور یہود کی گستاخیاں نقل کرتا ہے۔ جس میں بڑے واضح انداز میں وہ بتاتا ہے کہ نبیﷺ کی شان میں گستاخیاں کرر ہے ہیں لیکن کہیں بھی کسی سزا کو بیان نہیں کیا جا رہا بلکہ اس گستاخی کا سد باب کرنے والا رویہ اپنایا جارہا ہے۔
سورۃ بقرہ میں اس کا ذکر ہے مسلمان لفظ راعنا استعمال کیا کرتے تھے۔ نبیﷺ کو مخاطب کرنے کو کفار نے اس کو گستاخی کے مطلب میں لینا شروع کردیا تو قران نے بجائے اس کے کہ کسی کے قتل کا فتویٰ صادر کرتا اس نے دو کام کئے ایک سد ذریعہ اور دوسرا تنبیہ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ،۔
اے ایمان والو! راعنا نہ کہا کرو، اور سن رکھو کفار کے لئے بڑا عذاب تیار ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں اس کا ان الفاظ میں ذکر ہے۔
" یہودی بعض الفاظ زبان دبا کر بولتے تھے اور مطلب برا لیتے تھے جب انہیں یہ کہنا ہوتا کہ ہماری سنئے تو کہتے تھے راعنا اور مراد اس سے رعونت اور سرکشی لیتے تھے جیسے اور جگہ بیان ہے آیت (من الذین ھادوا) یعنی یہودیوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو باتوں کو اصلیت سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سنتے ہیں لیکن مانتے نہیں اپنی زبانوں کو موڑ توڑ کر اس دین میں طعنہ زنی کے لئے راعنا کہتے ہیں اگر یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا ہماری بات سنئے اور ہماری طرف توجہ کیجئے تو یہ ان کے لئے بہتر اور مناسب ہوتا لیکن ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اس میں ایمان بہت ہی کم ہے۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جب یہ لوگ سلام کرتے ہیں تو السام علیکم کہتے ہیں اور سام کے معنی موت کے ہیں تو تم ان کے جواب میں وعلیکم کہا کرو۔ ہماری دعا ان کے حق میں قبول ہو گی اور ان کی بد دعا ہمارے حق میں مقبول نہیں ہو گی۔"
(تفسیر ابن کثیر)

سورۃ توبہ کو اٹھائیں تو ان ایذا رسانی کرنے والوں کے متعلق قران کا رویہ دیکھیں۔ ذرا،
وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
﴿009:061﴾
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں ان کے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں اس کی بھی وضاحت میں ایک پیرا گراف درج ہے اور یہودیوں کی گستاخی درج ہے۔
" منافقوں کی ایک جماعت بڑی موذی ہے۔ اپنی باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچاتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نبی تو کانوں کا بڑا ہی کچا ہے جس سے جو سنا مان لیا۔ جب ہم اس کے پاس جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے وہ ہماری بات کا یقین کر لے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بہتر کانوں والا بہترین سننے والا ہے وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے۔ وہ اللہ کی باتیں مانتا ہے، اور با ایمان لوگوں کی سچائی بھی جانتا ہے، وہ مومنوں کے لئے رحمت ہے اور بے ایمانوں کے لئے اللہ کی حجت ہے۔ رسول کے ستانے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔"
(تفسیر ابن کثیر)
یہاں بھی تنبیہ کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔اور ان الفاظ کے باوجود اکتفاء صرف اور صرف تنبیہ اور عذاب کی وعید تک ہے۔ یہاں بھی کسی سزا کا ذکر نہیں ہے۔
ہنسی سے متعلق سورۃ توبہ میں ہی ذکر ہے۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ
﴿009:065﴾
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہنسی کرتے تھے؟ ‏
اسی ترتیب میں آگے چلتے جائیں۔قران نےان ہنسی کرنے والوں کے کفر پر دلالت کردی ہے اور بتا رہا ہے کہ یہ ہنسی کرنے والے منافق اور منکر ہیں۔ اور اس کے بعد ان کی خاصیتیں بھی دکھا دی ہیں۔
لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ
﴿009:066﴾
‏بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دیں گے۔ کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
﴿009:067﴾
‏منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس (یعنی ایک ہی طرح کے) ہیں کہ برے کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے اور (خرچ کرنے سے) ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے بھی ان کو بھُلا دیا۔ بیشک منافق نافرمان ہیں۔ ‏
ان ہنسی کرنے والوں کی خصوصیات بیان کرکے، اس سے اگلی ہی آیت میں قران نے انکی سزا کا فیصلہ بھی کردیا ہے۔
وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ
﴿009:068﴾
اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے جس میں ہمیشہ (جلتے) رہیں گے۔ وہی ان کے لائق ہے اور خدا نے ان پر لعنت کردی ہے اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب (تیار) ہے۔ ‏
یہ قران کی آیات تھیں جو ہنسی اور گستاخی نقل تو کر رہی ہیں لیکن کسی بھی ہنسی پر کسی سزا کا فیصلہ اس دنیا میں نہیں کر رہی ہیں۔ اور اس سزاکے حق میں پیش کی جانے والی آیات کا ذکر اور ان پر مفسرین کی آراء اوپر گذر چکی ہیں۔ قران نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے بڑھ کر اگرکسی کے پاس قرآنی لحاظ سے کوئی دلائل ہوں تو وہ ضرور رابطہ کرے یا کوئی بہترین توجیح ہو تو بھی رابطہ کرے۔
(نوٹ: کوئی بھی رائے قائم کرنے سے قبل، تحریر کے مکمل ہونے کا انتظار کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔)
أقول قولي هذا واستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”گستاخ رسولﷺ کی سزا، قران، حدیث اور فقہا کی نظر میں ۔۔۔ قسط اول

Leave a Reply