میں چائے پینے کے لیے ایک ریستوراں میں داخل ہی ہوا تھا کہ میری نظر ایک دانشور ٹائپ بندے پر پڑی۔پا بہ گل، خاک بر سر برہنہ، سر چاک ژولیدہ مو، سر بہ زانو، تو میں سمجھ گیا اس کا انداز اور اس کی شکل بالکل راشد کے حسن کوزہ گر کی ہے۔ ضرور اسے کوئی روگ ہے جو اسے کھائے جا رہا ہے۔ورنہ وہ ریستوراں ہر گز ایسا نہیں تھا کہ وہاں ایسی فلسفیانہ شکل بنا کر بیٹھا جاتا۔مجھے تجسس سا ہوا اور میں اپنا کپ آدھا ادھورا چھوڑ کر اس کے پاس گیا۔اس نے خالی نظروں سے مجھے دیکھا کہ جیسے کہہ رہا ہو اور تو کوئی میرے پاس نہیں آیا اس کو کیا تکلیف ہے جو میرے پاس آ کھڑا ہوا ہے۔اس کی ہیت کذائی ایسی تھی کہ ہر ایک کو اس کے پاس جانا چاہیے تھا مگر میرا ہی درد ِدل ایسا تھا جس نے مجھے مجبور کیا کہ اس بندے کے کیسے میں کوئی ایسی شے ہے جس نے اسے باقی دنیا سے الگ بھی بنا دیا ہے اور بے نیاز بھی۔مجھے اس کے پاس جانے کا اشتیاق اس لیے بھی زیادہ تھا کہ میں خود اس پوزیشن میں کئی سالوں تک رہا تھا اور آخر تنگ آ کر اس کام پر لعنت بھیج کر معمولات ِزندگی کی جانب لوٹ گیا تھا۔اب اچھی خاصی زندگی گزر رہی ہے۔نہ لوگوں کے سامنے عجوبہ بننا پڑتا ہے اور نہ ن م راشد کا حسن کوزہ گر۔
مجھے اور وجوہات کے علاوہ سب سے بڑی وجہ اس کا کبھی دایاں بازو آگے کرنا اور کبھی بایاں بازو آگے کرنا تھا۔یعنی از خود اس کا کبھی دایاں بازو اٹھتا تھا اور کبھی بایاں۔پھر کافی دیر خلاؤں میں غور کرتا۔
اس کا ٹیبل باقی ٹیبلوں کی طرح کا ہی تھا اور اس کی کرسی بھی ویسی ہی تھی جیسے وہاں باقی کرسیاں پڑی تھیں۔اس کی شکل بھی ہمارے جیسی ہی تھی دو کان، دو آنکھیں، ایک ناک اور دو ہاتھ اور دو ٹانگیں۔مگر اس کے بیٹھنے کا سٹائیل ایسا تھا جو لوگوں کو مشکوک سا اور مجھے دانشوارانہ لگتا تھا۔جیسے اسے شک ہو کوئی خفیہ ایجنسی والا اس کے پیچھے لگا ہوا ہے۔مگر ان سب لوگوں میں سے مجھے ایسا لگا کہ نہیں اس کے پیچھے کوئی نہیں لگا یہ کسی کے پیچھے لگا ہوا ہے۔اس کی کوئی چیز جیسے کھو گئی ہو یا وہ اپنے گھر کا پتہ بھول گیا ہو یا اپنے آپ کو ہی بھول گیا ہو۔یہ شک مجھے اس لیے بھی ہوا تھا کہ چند سال قبل میں خود اس عارضے کا شکار رہا تھا۔تب میں اس قسم کے ریستوراں میں تو آ کر ایسے نہیں بیٹھ سکتا تھا بس اپنے چھوٹے سے قصبے کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے ایک بنچ پر بیٹھ جاتا تھا۔بظاہر میں گاڑیوں اور ان میں بیٹھے مسافروں کو دیکھا کرتا تھا اصل میں میرے تجسس کا سبب کچھ اور ہوتا تھا۔یہ ایک فکری واردات تھی اور میں سچ مچ اس فکر میں غرق ہو جاتا تھا۔میرا ایک دوست پنجابی زبان میں اسے گوڈے گوڈے غرق ہونا کہتا تھا۔جب بھی وہ مجھے اس حالت میں دیکھتا تو میرے گوڈوں کی طرف اشارہ کرتا تو میں سمجھ جاتا کہ مجھے مذاق کر کے چھیڑ رہا ہے تو میں اچانک واپس اپنی دنیا میں لوٹ آتا۔ میں جب اس فکری واردات میں مستغرق ہوتا تو میں دائیں بازو اور بائیں بازو کے بارے میں سوچتا۔جب دائیں بازو کی سیاست یا اخلاقیات کا سوچتا تو دایاں بازو آگے کرتا اور خود کو یقین دلاتا کہ یہی دایاں بازو ہے۔
یوں تو مجھے پتہ ہوتا تھا کہ دایاں بازو غیر انقلابی اور بایاں بازو انقلابی سیاست کا علمبردار ہوتا ہے۔بایاں بازو مساوات کا قائل ہوتا ہے اور امیر غریب کے خانوں کو تسلیم نہیں کرتا۔سب کو برابر سمجھتا ہے جبکہ دایاں بازو سرمایہ داری کی طرف داری کرتا ہے۔مگر غور کرتے ہوئے مجھے بالکل سمجھ نہیں آتی کہ اسے دایاں یا بایاں بازو کہنے کی کیا منطق ہے۔یہی سوچ میرے باقی تفکر کو تباہ سی کر دیتی اور میں خلاؤں میں غور کرنے لگتا۔اب دایاں بایاں بلکہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ ہو چکا ہے۔
میں خود بھی دانشور سا بندہ تھا مگر لوگ تسلیم نہیں کرتے تھے اسی لیے میں ان سے دور ریلوے اسٹیشن کے ایک بنچ پر بیٹھ کر اکیلے غور و خوض کیا کرتا۔ایک دائیں اور بائیں بازو پر ہی اکتفا ہی نہیں تھا میری مشکلات اور بھی تھیں۔میں جب غور کرتا تو عمودی اور افقی سوچوں کے در وا ہوتے چلے جاتے۔عمودی اور افقی کے در وا ہوتے تو میرے دماغ کے سارے در بند ہو جاتے۔کیونکہ میں نے ایک دفعہ کسی سے سنا تھا کہ عمودی ترقی کیا ہوتی ہے اور افقی ترقی کیا ہوتی ہے۔مگر ہمیشہ اس پر غور کرتے ہوئے دماغ پر بہت زور پڑتا اور میرا سارا تفکر ہوا ہو جاتا۔تب کسی کو میرے گوڈوں کی طرف اشارہ ہی نہ کرنا پڑتا۔یہ گُر مجھے یاد تھا۔ جو لوگ اور دوست میرے گوڈوں کی طرف اشارہ کرتے تھے انہیں معلوم تھا کہ دایاں بازو اور بایاں بازو اور عمودی اور افقی میری چھیڑ ہے۔حاشا و کلا میں تو بہت سیریس ہو کر تفکر کرتا تھا مگر لوگ باگ شرارت ضرور کرتے تھے۔
اب ریستوراں میں حسن کوزہ گر کی شکل بنائے جو آدمی بیٹھا تھا اس کے بارے میں مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اسے بھی وہی مرض ہے جو مجھے لاحق تھا۔مگر بار بار کے تفکر کے باوجود ملکی احوال بد سے بد تر ہوتے چلے گئے تھے اور ان میں بہتری کے آثار نہ ہونے کے برابر تھے۔تب میں نے سوچا آخر ان ملکی حالات نے جب جوں کا توں رہنا ہے تو کاہے کی ساری مشق اور محنت۔میں یہی سوچ کر اس کے ٹیبل کے قریب بلکہ اس کے قریب کھڑا تھا اور وہ بالکل اسی حالت میں تھا جو میری حالت ہوتی تھی اور دوست احباب لوگ باگ مجھے چھیڑتے تھے۔میں ذرا اور آگے بڑھا اور اس کو جھنجھوڑنے ہی والا تھا کہ وہ از خود واپس ہماری دنیا میں آیا مگر میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی گویا ہوا
جہاں زاد نو سال کا دَور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہر ِمدفون پر وقت گزرے
اس نے توقف کیا اور کہا
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رود ِدجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
میں وارفتہ ہوتا چلا گیا اور اس کے ساتھ پڑی کرسی پر گر گیا اور اپنے سالوں پرانے عالم تفکر میں ڈوبتا چلا گیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں