ادبی لالی، لالے اور شامل باجا / اختر شہاب

شوکت صدیقی کے ناول جانگلوس میں ایک کردار “لالی” نام کا ہے۔ لالی جو ایک اجڈ شخصیت ہے اور جیل سے بھاگا ہوا ایک قیدی ہے۔ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس پناہ لیتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ریفری کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے مجبوراً اپنے ”کی کلب”کا ریفری بنا کر لے جاتا ہے۔ رستے میں وہ اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ فلاں عورت کبھی اس کے حصے میں نہیں آئی۔ ریفری بننے کے عمل کے دوران جب ڈپٹی کمشنر کی باری آتی ہے اور لالی پہلی پرچی اٹھاتا ہے تو اس پر ڈپٹی کمشنرکی من پسند عورت کے بجائے کسی اور عورت کا نام ہوتا ہے وہ اس پرچی کو الٹا دیتا ہے اور دوسری مرتبہ میں بڑی چالاکی سے پرچی نہ دکھا کر ڈپٹی کمشنر کو اس کی من پسند عورت کے پاس بھیج دیتا ہے۔

اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ کچھ عرصہ قبل میں ایک ادبی محفل میں مدعو تھا۔ محفل کے منتظم نے سینئر ، جونئیر ادیبوں کے حساب سے ادیبوں کو اپنی تخلیقات پیش کرنے کے لئے بلانے کے بجائے اس دفعہ “قرعہ اندازی کی ایک نئی روایت ” ڈالنے کی کوشش کی تاکہ کسی کو سینیارٹی جونیارٹی کے سلسلے میں اعتراض نہ ہو۔ پرچیوں پر تمام ادیبوں کے نام لکھ دیے گئے۔ اب ادیبوں کو پرچی نکلنے پر اس پر لکھے ہوئے نام سے بلانا تھا۔اس طریقہ کار کے مطابق پہلے دو پرچیاں خواتین کی نکلیں۔ انہیں باری باری بلایا گیا۔ پھر جب تیسری پرچی صاحب صدر (جو ایک سینئر شاعر اور ادیب تھے۔)نے نکالی اور اس پر لکھا نام پڑھا ضرور لیکن مصلحت کے تحت “لالی” کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے خالی قرار دیا۔ اس کے بعد اگلی پرچی اٹھائی گئی ۔اس پرمیرا نام لکھا تھا۔ یوں مجھے بلایا گیا۔

“آج تو آپ نے شوکت صدیقی کے ناول جانگلوس کی یاد تازہ کردی۔” میں نے اسٹیج پر صاحب صدر کے برابر بیٹھتے ہوئے کہا ۔

ان پر میرے طنز نے اثر نہ کیا۔ شاید انہوں نے جانگلوس نہیں پڑھا تھا مگر برابر بیٹھی ہوئی اسٹیج سیکریٹری میری بات کی تہہ تک پہنچی اور اس نےفوراً “کی کلب” کا حوالہ بھی دیا۔

لیکن خاص بات اس عمل کی یہ ہے کہ یہ کام “لالی “جیسی اس کاری گری سے ہوا کہ بہت سوں کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔ وہ جو تیسرے نمبر کی پرچی تھی ،وہ والے صاحب سب سے آخر میں آئے۔

آج شوکت صدیقی زندہ ہوتے تو میں ان کو انسانی مزاج اور کردار کو اجاگر کرنے والی اس لازوال تخلیق پر سات سلام کرنے ضرور جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ادبی لالی کے دھچکے سے سنبھلا ہی تھا کہ “10 ۱دبی لالوں” کا واقعہ سامنےآگیا۔اس سے میرا اپنے اس مقولے پر یقین پختہ ہوگیا کہ “ہم ادیب اور شاعر اپنی اچھائیاں اپنی کہانیوں میں ڈال دیتے ہیں اور پیچھے سے کمینے رہ جاتے ہیں۔”

“آپ آج کل ایک ادبی تنظیم کی سہ ماہی نشست میں شرکت نہیں کرتے۔”میں نے اس سے پوچھا۔
“مجھے” شامل باجا ” بننا اچھانہیں لگتا ۔”
” شامل باجا ! وہ کیا ہوتا ہے ؟”
” اصل میں شادیوں پر بینڈ بجانے کے لئے ،ایک بینڈ ماسٹر کسی بھی پارٹی سے فی باجے والا پیسے طے کرلیتا ہے اورپھر اپنے پیسے بڑھانے کو ، اصل کلاکار نفری میں چند دیہاڑی دار بھی شامل کر لیتاہے انہیں “شامل باجہ “کہا جاتا ہے۔ اصلی باجے والے باجا بجاتے ہیں اور ان شامل باجہ کاکام بس باجے کو منہ سے لگا کر ، باجا بجانے کی ایکٹنگ کرنا ہوتا ہے۔ انہیں دیہاڑی بھی آدھی یا کم ملتی ہے۔”
“ادبی تنظیم میں شامل باجہ کہاں سے آگئے ۔۔”
” آپ کتنے بھولے ہیں ادبی تنظیمیں تو چلتی ہی ” شامل باجہ “پر ہیں۔ ادیبوں کو اپنی واہ واہ کے لئےچند افراد چاہیے ہوتے ہیں جو ہرمحفل میں شرکت کریں ان کاکلام سنیں اور پھر ہر محفل میں اس کاذکر بھی کریں۔ گو ان محفلوں میں “شامل باجہ” کا بھی کلام سنا جاتا ہےلیکن اس وقت زیادہ تر لوگ اپنے اپنے موبائل میں محو ہوتے ہیں۔”

“ہوا کیا تھا جناب جو آپ اتنے خفا ہیں ۔؟”
“ذکر ادیبوں کی ایک تنظیم کا ہےجس کی محفل ہر سہ ماہی کی پہلی اتوار کو منعقد ہوتی ہے اوراس میں مجھ سمیت کئی افراد شرکت کرتے ہیں۔ اس دفعہ یہ موقع عید کے فوراًبعد آرہا تھا۔ اس موقع پر تنظیم کے چند ادبی لالوں نے کسی کی دعوت پر اسے خاص خاص لوگوں تک محدودکر دیا اور اتوار کو ہونےوالے اجلاس کی جگہ دس خاص خاص ادبی لالوں کی دعوتی میٹنگ ہوئی ۔ یہ بات ہو سکتا ہے کسی کے علم میں نہ آتی مگر برا ہو اس سوشل میڈیا کی ٹھرک کا کہ ایک صاحب نے اس دعوت کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دیں۔ اب آپ کہیں گے کہ تصویر میں تو نو افراد ہیں تو۔۔دس کی گنتی فوٹوگرافر کے کمنٹس کی وجہ سے پوری ہوئی۔

میرا خیال تھا کہ ، اس کے بعد ادب اور اخلاقیات کی اعلیٰ معیاری باتیں کرنے والوں میں سے کسی نہ کسی میں اتنی اخلاقی جرات ضرور ہوگی کہ وہ دس لالوں کی اس خاص میٹنگ کا اعتراف کرےگا مگر۔۔ افسوس۔۔ جب سہ ماہی میٹنگ کا پوچھا گیا تو عید کی کسملندی کاایک بودا سا بہانہ بنا کے ٹوٹل پورا کرنے کو اسے اگلے اتوارپر رکھ لیا اور اس میں بھی پورے دس لالے نہیں آئے۔”

(افسوس : اب یہ بہانہ بھی نہیں چل سکتا کہ یہ فلاں صاحب کی طرف سے دعوت تھی ،میٹنگ نہیں تھی۔ اگر ایسا تھا بھی تو اسے اس اتوارکے بجائے کسی اور دن ہونا چاہیے تھا یا اگر اتوار کو بھی کرنا تھی تو پہلے ہی اعلان کر دیا جاتا کہ ادبی میٹنگ اس اتوار کے بجائے اگلے اتوار کو ہوگی۔)

Advertisements
julia rana solicitors

خیراس عمل سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ چونکہ ان 10 لالوں کے علاوہ کسی کو بتانا یا بلانا ضروری نہیں سمجھا گیا لہٰذا ان 10 بڑے لالوں کے علاوہ باقیوں کی گفتگو میں حیثیث “شامل باجہ” کی سی ہے۔
“تو جناب! مجھے شامل باجہ ہونا پسند نہیں سو میں اسی لئے اس میں نہیں جاتا۔ ”
“مگر جانے کی آس تو رکھنی تھی۔ آپ نے آس ہی توڑ دی۔ کیوں ؟ ”
” ہواکچھ یوں تھا کہ مجھے چار نومبر کو “بے ادب لوگوں” کی ایک کونسل میٹنگ میں جانا تھا میں نے انہیں یہ میسج کیا کہ “کمر میں درد (چک) کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا مشکل ہے لہذا میں آنے سے قاصر ہوں ۔معذرت قبول فرمائیں۔”یہ پیغام پا کران بے ادب لوگوں نے حسب توفیق میسج کیا، فون کیا، بلکہ کونسل کےدو افراد عیادت کو بھی آئے.
اس کے علاوہ ۵نومبر کوہونے والی ادیبوں کی ایک محفل کے صدر کوبھی یہی میسج کیا لیکن ۔۔ ادیب جو معاشرہ میں محبت و پیار کے پرچارک ہوتے ہیں اور اخلاقیات پر عمل کے علم اٹھائے پھرتےہیں۔ انہوں نے فون کرنا اور خیریت پوچھنا تودرکنار ۔دعا کا ایک رسمی سا میسج کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ سو ایسے ادب کو دور سے سلام ہے۔ میں ذرا زود رنج شخص ہوں۔۔ اس لیے ادب سے معذرت قبول فرمائیے۔۔ اجازت دیجئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply