فینز ، فنکار اور میڈیا/فرزانہ افضل

ماہ رمضان کی آمد کے قریب چیرٹی پروگراموں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ خوب زور شور سے فنڈ ریزنگ ہوتی ہے۔ اوورسیز پاکستانی دل کھول کر زکوۃ و عطیات دیتے ہیں۔ پروگراموں میں تفریح کے رنگ بھرنے کے لیے پاکستان سے مشہور فنکاروں اور سلیبرٹیز کو مدعو کیا جاتا ہے۔ تاکہ ان فنکاروں کی کشش کی وجہ سے پروگراموں کی ٹکٹ سیل ہو اور فنڈ ریزنگ بھی اچھی ہو اور پروگرام کو کامیاب بنایا جائے۔ حالانکہ حقیقت میں عطیات کی بڑی اماؤنٹ تمام بڑے بزنس مین حضرات کی طرف سے ہی آتی ہے جو پروگرام میں اس نیت سے آتے ہیں کہ انہیں وہاں پر چیرٹی دینی ہے اس سے ایک تو ٹیکس کی بچت بھی ہوتی ہے اور دوسرا نیک کام میں حصہ بھی شامل ہو جاتا ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ باقی کی چھوٹی موٹی  اماؤنٹ وہاں پر موجود لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں مگر کل ملا کر فنڈ ریزنگ کا فگر اچھا مضبوط بن جاتا ہے۔

میں نے گزشتہ برس چیرٹی پروگرامز میں مشہور فنکاروں کو یا اداکاروں کو بلانے کے حوالے سے ایک ویڈیو بنائی تھی جس میں اس بات پر زور دیا تھا کہ اپنے پروگراموں کی شان و شوکت بڑھانے کے لیے ان کے اخراجات مت اٹھایا کریں۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ آج کل یہ رواج چل نکلا ہے کہ ہر چیرٹی آرگنائزیشن کو کسی نہ کسی شخصیت کو مدعو کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگ ان کو دیکھنے کے شوق میں وہاں پر آئیں۔ اس ویک اینڈ پر دو پروگراموں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک میں معروف ٹی وی آرٹسٹ ثانیہ سعید تشریف لائی تھیں جو اس چیرٹی کی ایمبیسڈر بھی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس چیرٹی سے کوئی پیسے یا فیس نہیں لی وہ ان کے لیے رضا کارانہ طور پر کام کرتی ہیں اور ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ کیا خوبصورت شخصیت اور اس قدر سادہ مزاجی، شائستہ لہجہ، نرم طبیعت، چہرے پر کھلی مسکان، ہمارا تو دل ہی موہ لیا۔ ہم تو پہلے ہی ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کے گرویدہ تھے۔ پروگرام ارگنائزر نے بتایا کہ پروگرام کے اختتام پر فوٹو کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ تقریب نہایت پروقار تھی پروگرام ختم ہونے پر ثانیہ سعید کو ایک فوٹو کارنر میں لے جایا گیا جو اس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ وہاں پر سب لوگوں نے قطار میں لگ کر اپنی باری سے فوٹو لی کچھ نے تو بار بار لی اس میں میری سہیلیاں بھی شامل ہیں۔ اور اس دوران ثانیہ سے ہلکی پھلکی بات چیت بھی کی وہ مسکرا کر باتوں کا جواب دیتی رہیں۔ حالانکہ وہ بھی برطانیہ کے مختلف شہروں کے ٹور پر تھیں مگر چہرے پہ تھکاوٹ یا بیزاری کی کوئی شکن دکھائی نہ دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلے روز ایک اور چیرٹی کا پروگرام تھا جس میں خوب رونق تھی مانچسٹر بھر سے امراء ہال میں جمع تھے۔ سب لوگ بشرای انصاری خصوصاً  ہانیہ عامر کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔ تصاویر کا موقع صرف ان لوگوں کو فراہم کیا گیا جنہوں نے ہزاروں پاؤنڈ کی چیرٹی دی تھی۔ سمجھ میں آ رہا تھا کہ ان دونوں اداکاراؤں کی سیکیورٹی بہت سخت تھی اور نخرہ اس سے بھی زیادہ سخت۔ سلیبرٹیز کو میڈیا اور فینز ہی سلیبرٹیز بناتے ہیں، کل سے اس بات پر سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہو رہی ہے جب اداکار فیروز خان میچ کے لیے ڈھائی گھنٹے تاخیر سے پہنچے تو ایک خاتون نے ان کی خوب کلاس لی۔ خیر یہاں کے پروگرام کی بات کرتے ہیں سوشل میڈیا پر بے شمار ویڈیوز اور ریلز گردش کر رہی ہیں۔ ایک ویڈیو جس میں بشری انصاری سٹیج پر اپنی انٹری کے لیے اپنی سکیورٹی کے ہمراہ چل کر آ رہی ہیں جس میں ہمارے مقامی سادہ لوح صحافی ان کے ارد گرد منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک صاحب نے غلط موقع پر سیلفی کی فرمائش کر دی جس کو بشری صاحبہ نے ہاتھ جھٹک کر منع کر دیا۔ ہمارے ایک اور صحافی بھائی جو کچھ نہ کچھ انٹرویو ریکارڈ کرنے کی تگ و دو میں تھے میڈم سے بے تکلف ہونے کی کوشش میں ان کی تعریف کرتے ہوئے سنائی دیئے، حالانکہ ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک فنکار کے لیے تعریف سننا معمول کی بات ہے۔ پھر انٹرویو پر اصرار کرتے ہوئے پائے گئے اور بے وقت اور بے تکا سوال پوچھا کہ آپ کو مانچسٹر کیسا لگا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ تو ہر سال مانچسٹر آتی ہیں بلکہ دنیا گھومتی ہیں۔ ہمارے صحافیوں کو پروفیشنل ٹریننگ کی بہت ضرورت ہے اور موقع محل کے مطابق ڈیل کرنا کس شخص سے کس وقت کیا انٹرویو کرنا ہے کیا سوال کرنا ہے اس کے لیے تھوڑا بہت ہوم ورک کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ محض موبائل فون پکڑ کر احمقانہ سوال کر کے اپنے  آپ کو شرمندہ نہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس بدتمیزی سے بشرای انصاری نے اس معصوم صحافی کو لتاڑ دیا وہ دیکھ کر افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی بہت آیا۔ صحافیوں کی ٹریننگ تو نہیں ہے مگر ان فنکاروں کی کیا ٹریننگ ہے کیا ان کو نہیں معلوم کہ پبلک ڈیلنگ کیسے کی جاتی ہے اور میڈیا والوں سے کیسے ڈیل کرنا ہے اگر انہوں نے پوچھ ہی لیا تھا کہ آپ کو مانچسٹر کیسا لگا تو جواب میں بدتمیزی کرنے کی بجائے شائستگی سے کہہ سکتی تھی کہ میں اکثر آتی رہتی ہوں مجھے مانچسٹر اچھا لگتا ہے۔ مگر ان خاتون نے جن کے بارے میں سنا تھا کہ ان کا دماغ ساتویں  آسمان پر ہے یہ ویڈیو دیکھ کر ثابت ہو گیا ساتویں کی بجائے اگر کوئی تین آسمان اس سے بھی اوپر ہیں تو ان کا دماغ دسویں پر ہے۔ نہایت جاہلانہ طریقے سے لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ مار کر جواب دیا میں تو 27 سال سے آ رہی ہوں 27 سال کا تو نہیں بتا سکتی۔ آپ نئے آئے ہوں گے آپ بتائیں آپ کو کیسا لگا۔ یہ ملک ملک گھومنے والے اداکار اور کہیں نہیں تو اپنے ہمسایہ ملک انڈیا کے اداکاروں سے ہی خود کا موازنہ کر لیں وہ ان کی نسبت کتنے شائستہ مزاج ہیں۔ بشرای انصاری صاحبہ کا یوٹیوب چینل دیکھیں یا ان کا کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ، اس پر یہ کتنی ہنستی کھیلتی نظر آتی ہیں کیونکہ فینز بنانے ہوتے ہیں۔ مگر حقیقی زندگی میں فینز اور میڈیا والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتی ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ ان فنکاروں کو عروج تک پہنچانے اور سلیبرٹیز کا سٹیٹس دینے والے فینز یعنی عوام اور میڈیا ہی ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا رائٹر، ایک اچھا شاعر ایک اچھا انسان بھی ہو، اب میرے اس ڈائیلاگ میں اچھے اداکار اور اچھے فنکار کا اضافہ بھی ہو گیا ہے یعنی ضروری نہیں کہ ایک اچھا رائٹر, ایک اچھا شاعر , ایک اچھا فنکار یا اداکار ایک اچھا انسان بھی ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply