میں کمپوٹر سائنس بیچلر ڈگری کے دوسرے سمسٹر میں پہنچ چکا تھا جب مبشر حسن بخاری سے ماسٹرز ڈگری پروگرام میں ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے پروگرام اور بیچ وائز دونوں طرح سے سینئر تھے۔ ہماری دوستی بھی یونیورسٹی کی مشترکہ کمپیوٹر لیب میں گپ شپ کرنے سے شروع ہوئی تھی اور اگر سچ بتاؤں تو میں اور شفقت نامی میرا ایک ہم جماعت یونیورسٹی کی کمپیوٹر لیب میں “دیسی بابا ڈاٹ کام” پہ گلابی اور تیز نیلے بیک گراؤنڈ والی ویب سائٹ پہ“رَس مِسّی” سٹوریاں پڑھتے پکڑے گئے تھے اور لیب انچارج نے اُسی وقت proxy server سے ہمارا IP دیکھ کر شفقت اور میرا دونوں کا لاگن سَسپنڈ کر دیا۔ مبشر بھائی کو ڈرتے ڈرتے مسئلہ بتایا کہ بھائی جان بدنام تو فُل ہو چکے ہیں، کچھ کچھ ہیرو ہیرو سا بھی فِیل ہو رہا ہے، ماڑی ماڑی بِستی بھی کان لال کر رہی ہے، بس اب اس سے قبل کہ یونیورسٹی میں مشہور ہو جائیں یا زنانہ کلاس فیلوز ہمارے بارے کھسر پھسر شروع کر دیں ، تو خدارا کچھ نہ کچھ مدد کیجئے کیوں کہ ترلے آلی گل جے۔ معلوم پڑا کہ مبشر بھائی کے پاس تو ADMINISTRATOR اکاؤنٹ کی Full Access ہے کیوں کہ وہ لیب سیٹ اپ کے وقت غالباً تکنیکی مشاورتی رضاکار بھی تھے۔ چناچہ انہوں نے بیٹھے بیٹھے Windows NT کی Active directory میں میرا لاگن بحال کیا اور دیسی بابا دیکھتے ہوئے پکڑے جانے کا کلنک زدہ کامنٹ بھی ڈیلیٹ کر دیا۔
بس اُس دن مبشر بھائی سے نیازمندی کا ایسا تعلق بنا جس کے سبب میں انہیں آج تک اپنا مینٹور، محسن اور بڑا بھائی تسلیم کرتا ہوں۔
HTML کی Basics بھی مبشر بھائی سے ہی سیکھی تھی، صحیح طرح یاد نہیں مگر یہ کوئی سن 1999ء یا 2000ء کی بات ہے۔ ٹیگ کے ساتھ ہیڈرز اور پھر باڈی وغیرہ میں جب “My first webpage” لکھا دیکھا تو لگا کہ یاررر! آج تو نے کچھ Achieve سا کر لیا ہے۔ مزید انٹرسٹ پیدا ہوا تو ہر روز شام کو یونیورسٹی سے شہر کی دوسری نکڑ پہ فیصل آباد ڈویژنل پبلک سکول میں واقع مبشر بھائی کے گھر چلا جاتا تھا۔ مبشر بھائی کی والدہ لائل پور کے تعلیمی اداروں کے جھومر اور اِس سرخیل ادارے کی پرنسپل تھیں اور والدمحترم فیصل آباد ڈسٹرکٹ کورٹ میں نہایت چوٹی کے سینئر وکیل تھے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ بندے کی بھی اِسی سکول سے پیوستہ نہایت خوب صورت یادیں جُڑیں ہیں کیوں کہ میں نے ششم تا دہم تک یہیں سے زندگی کے اسباق کو جڑ سے پکڑنا سیکھا ہے مگر وہ کہانیاں پھر سہی۔ مبشر بھائی نے پھر ایک روز CSS یعنی Cascading Style Sheets سکھائی اور بعد ازاں چند پرانے متروکہ ٹولز پہ ہاتھ سیدھا کروایا جن میں سے ایک ایم ایس Front Page جو مائیکروسافٹ آفس انسٹال کرنے کے ساتھ ایویں چونگے میں انسٹال ہو جاتا تھا۔ پھر ایک اور تازہ تازہ آیا ٹول تھا Macromedia Dreamweaver UltraDev اور Fireworks اُس میں ویب سائٹ کے menues بڑے اچھے بنتے تھے اور CSS بھی اپلائی ہو جاتی تھی۔ پھر Adobe کے Image styler وغیرہ میں ویب سائٹ کے بینر وغیرہ ڈیزائن کرنے سیکھے۔
ایک روز مبشر بھائی نے اپنے کسی ریفرنس سے کسی ٹیکسٹائیل فیکٹری کے مینجر کو ہزار روپے میں سات آٹھ پیجز کی چھوٹی Static ویب سائٹ بنانے کی ڈیل ماری تو مجھے اُس بندے سے میٹنگ میں ساتھ لے گئے۔ میں اُس دوران خاموشی سے مبشر بھائی کو بس آبزرو کرتا رہا اور اُن کی رہائش گاہ واپسی پہ اپنی دانست میں انہیں چند inputs دیں جسے انہوں نے بہت سراہا۔ ساری ویب سائٹ مبشر بھائی نے ہی بنائی اور بعد میں جب اُس بندے سے پیسے لینے گئے تو آدھے پیسے مبشر بھائی نے زبردستی میری جیب میں ڈال دئیے۔ کہا سلمان! ہم ساتھ گئے تھے سو تیرا بھی فُل کریڈٹ ہے۔
مجھے سچی مچی بڑی خجالت سی محسوس ہوئی کہ سارا کام تو مبشر بھائی نے کیا میں نے تو بس “پَخ” کا کام کیا تھا اور اِدھر مبشر بھائی پتا نہیں کیوں مجھے خواہ مخواہ ایکنالج کر رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری خوش بختی تھی کہ میرا ٹیکنیکل مینٹور بڑا وضع دار اور بےلوث آدمی تھا۔ یہ میری پہلی کمائی تھی جو گھر پہنچتے ہی میں نے امی کے ہاتھ پہ رکھی جسے انہوں نے چوم کر سینے سے لگا کر کہا جاؤ اب اپنے ابو کوبتاؤ۔ میں نے ابو کو سِر نیہوڑے قدرے شرمندگی سے پانچ سو کا پرانا بڑے سائز والا نوٹ دے کر کہا:
ابو جی! یہ لیں میری پہلی کمائی۔
اوئے اے توں کمائے نیں؟
جی ابو جی وہ مبشر بھائی کے ساتھ ایک بندے کو ویب سائٹ بنا کر دی تھی تو انہوں نے آدھے آدھے کرتے ہوئے مجھے محنتانہ دیا ہے۔
پھر وہ تھوڑا مسکرائے اور اپنی قمیض کے کھیسے سے مجھے ہزار روپے کا جامنی پرانے والا بڑے سائز کا نوٹ بطور حوصلہ افزائی نکال کر تھمایا اور کہا، اوئے تیرا دوست چنگا مُنڈا اے! شاباش رل مِل کے لگے رہو تے ہور محنت کرو۔
باپ بڑے خود دار ہوتے ہیں، یہ اولاد سے لینے کی بجائے ہمیشہ انہیں دُگنا کرکے لوٹانے پہ یقین رکھتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو اُس روز میں بڑا موٹیویٹ ہو گیا تھا کیوں کہ اَبّا جی مرحوم ذرا کم کم ہی شاباشی دیا کرتے تھے سو میں نے آگے بڑھ کر ابو جی کو گلے لگا لیا۔

بعد ازاں مبشر بھائی نے میرا اکاؤنٹ بلاک کرنے والے لیب انچارج سے بھی علیک سلیک کروا دی اور جب اُسے یونیورسٹی انتظامیہ سے نئی کمپیوٹر لیب تیار کرنے کا ٹاسک ملا تو مبشر بھائی اور میں اُس کی پہلی نظر انتخاب بنے، وہاں بھی میری سفارش مبشر بھائی نے ہی کی کہ سلمان بھی بطور رضاکار کام سیکھے گا۔ میں اور مبشر بھائی نے مل کر پوری لیب میں Coaxial cable بچھائی، RJ45 کنکٹر کلمپ کیے، نئے کمپیوٹر مانیٹرز اور پراسسنگ یونٹ اور تاریں وغیرہ لگا کر انہیں چالو کیا۔ WINDOWS NT انسٹال کرنا سیکھی، Active directory میں Domain controller کو configure کرنا سیکھا، Trust relationship establishment کرنا سیکھا اور وغیرہ وغیرہ و مزید وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ راتیں تھیں جس نے مجھے اپنے رٹو طوطے ہم جماعتوں کے مقابلے میں مستری ٹائپ پریکٹیکل نالج فراہم کیا۔ میں بیچلر ڈگری میں اوسط درجے کے GPA کے ساتھ پاس آؤٹ ہوا تھا مگر میرے گھر کی بیٹھک جو combined study کا آستانہ عالیہ ہوتی تھی ہر کلاس فیلو حاضری دینے لگا۔ کلاس، ہمسائیگی، رشتہ دار، اَبّا اَمّی کے حلقہ احباب میں کسی نے بھی نیا کمپیوٹر خریدنا ہوتا یا کوئی بھی ٹیکنیکل مشورہ درکار ہوتا تو ہر کوئی مجھے بطور ایکسپرٹ کنسلٹنٹ اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ فیصل آباد کی مشہور کمپیوٹر مارکیٹ ریکس سِٹی کی راہ داریوں میں مستری سلمان خالد صبح شام پھرا کرتا تھا۔ آج بھی آنکھیں بند کرکے اُس دَور کے چَپّے چَپّے کی جزئیات گِنوا سکتا ہوں۔ RAM کس کمپنی کی، مدر بورڈ کون سا، مانیٹر کی ڈاٹ پِچ کتنی، گرافک کارڈ کون سا، ڈی-وی-ڈی روم کس کمپنی کی اور کتنی سپیڈ والی، ونڈوز کون سی انسٹال کرنی، Dual operating system اور بوٹ لِسٹ کیسے سیٹ کرنی، پارٹیشننگ کیسے کرنی، ہارڈ ڈرائیو کی ماسٹر سلیو جمپر سیٹنگ کرکے ڈیٹا کیسے شئیر کرنا وغیرہ وغیرہ جیسے ٹوٹکے فی سبیل اللّٰہ بلا مبالغہ کوئی سینکڑوں مرتبہ دہرائے اور دوستوں کو بھی سکھائے۔
تحریر کا دِل یہ ہے کہ چَن مترو! اِس مفت مشاورتی سروس میں کئی مرتبہ یہ بندۂ خدا اپنا پٹرول، اپنی بائیک اور اپنے ویہل پُنے کے ٹائم کو ہرکس و ناکس میں سنتِ مبشر بھائی کی پیروی میں مفت بانٹتا رہا، نچھاور کرتا رہا، لُٹاتا رہا۔ اِس کا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ اپنے اِس مستری پُنیں کی بدولت الحمدللّٰہ! دنیائے آئی ٹی کی پچاس بڑی فارچون کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز میں بیٹھنے کا شرف حاصل کر پایا ہوں۔
سو خواتین و حضرات! اگر آپ بھی کسی تیکنیکی مستری کی تلاش میں ہیں اور ماسوائے کھَچّوں کے آپ کو کوئی ایک بھی رَواں ہاتھ والا لڑکا نہیں مل پا رہا تو میرا اُن سب کَھچ لونڈوں کو مشورہ ہے کہ ابھی کے ابھی اپنی یونیورسٹی یا کالج لیب میں جا کر “دیسی بابا ڈاٹ کام” اوپن کریں اور فوراً اپنا لاگن سسپنڈ کروا کر کسی مبشر بھائی کی تلاش شروع کر دیں کیوں کہ میں بھی ایک کھچ مارنے کی بدولت کسی مینٹور کو تلاش کر پایا تھا بس مُڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کوئی نہ کوئی مبشر بھائی آپ کے پیچھے بھی لازماً موجود ہو گا۔
شافی اور آزمودہ نسخہ ہے!
پلّے باندھ لیجیے!
کام آئے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں