سیاہ ہیرے/راجہ قاسم محمود

ثمینہ نذیر صاحبہ کے والدین کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ ثمینہ نے کراچی یونیورسٹی سے زولوجی میں بی ایس سی آنرز اور انیٹومولوجی میں ماسٹرز کیا۔ شادی کے بعد بڑا عرصہ بیرون ملک گزرا جن میں امریکہ ، یورپ اور افریقہ قابل ذکر ہیں۔ ثمینہ تھیٹر سے وابستہ رہی ہیں۔ سیاہ ہیرے ان کا پہلا ناول جبکہ مجموعی طور پر دوسری کتاب ہے۔ اس سے پہلے ان کا افسانوی مجموعہ کلو کے نام سے شائع ہوا۔سیاہ ہیرے کو مکتبہ دانیال نے شائع کیا ہے

ثمینہ صاحبہ نے عمر کا ایک بڑا حصہ افریقہ میں گزارا۔ سیاہ ہیرے کی کہانی بھی افریقہ کے متعلق ہے۔ بالخصوص افریقہ کے دو ممالک گِنی اور سینیگال کا ذکر ہے۔ افریقہ کے علاوہ یہ کتاب کراچی اور پھر بھارت کی بھی کچھ سیر کراتی ہے لیکن کہانی زیادہ تر افریقی ممالک میں ہی چلتی ہے۔ افریقہ میں قیام کے باعث ثمینہ صاحبہ نے ان کے کلچر اور تاریخ کا مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے تو اس کی مدد سے یہاں کے طور اطوار کے بارے میں انہوں نے قدرے مفصل منظر نگاری کی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کہانی نگار نے براہ راست ان مناظر کو قلمبند کیا ہے.

اس ناول میں ثمینہ صاحبہ نے بہت سے ضمنی موضوعات کو چھیڑا ہے۔ جیسے کہ نوے کی دہائی کے کراچی کا ایک منظر پیش کیا ہے۔ جس وقت لسانی تنظیموں کا زور تھا اور لوگوں سے زبردستی بھتہ لینا عام تھا۔ کیسے ان تنظیموں سے وابستہ لوگ قربانی کی کھالوں پر نظر رکھتے تھے اور کراچی کے باسی خوف کے ڈر سے کیسے خود ان کارندوں کو کھال دینے آتے تھے۔ گو کہ ثمینہ صاحبہ نے زیادہ اس موضوع کو نہیں چھیڑا مگر جس زمانے کے کراچی کا ذکر ہے اس وقت یہ چیزیں عروج پر تھیں۔ پھر نوّے کی دہائی ہی میں سیاسی اتار چڑھاؤ کا  بھی ذکر کیا گیا ہے اور اسی وقت کراچی میں کیے گئے ریاستی آپریشنز کا بھی کچھ سرسری سا ذکر موجود ہے۔

سیاہ ہیرے کا مرکزی کردار سلیم ہے جو کہ ایک لوئر مڈل کلاس کا  فرد ہے۔ اس کا باپ ایک جیولر کی دکان پر کام کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی سلیم کو بھی وہاں کام مل جاتا ہے۔ وہاں پر ایک دن ایک عورت اپنی بیٹی حور شمائل کے ساتھ آتی ہے۔ جس کو دیکھ کر سلیم کا دماغ ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ اس کے بعد سلیم جو کہ شروع میں ایک کھلنڈرا سا لڑکا معلوم ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا اصل عشق تو عورت ہے۔ اس کو حور شمائل کی قربت بھی میسر آتی ہے۔ جس کے لیے وہ دکان سے ہیرا چوری کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہوتا ہے کہ ایک رات جب اپنے مالک کو حور شمائل کے گھر سے نکلتے دیکھتا ہے تو اس کو دھچکا لگتا ہے۔ سلیم کا دوست بلال عرف بلو لسانی تنظیم کا کارکن ہوتا ہے۔ بلو فقط سلیم کا دوست نہیں بلکہ گرو ہوتا ہے۔ اس کی صحبت میں رہ کر ہی وہ زیادہ بے خوف ہوتا ہے۔ سلیم کی دکان پر ایک دن اسمعیل کپاڈیہ آتا ہے جس کے بعد سلیم کی زندگی میں ایک بڑا تبدیلی آ جاتی ہے۔ اسمعیل کپاڈیہ جس کا کاروبار افریقہ تک پھیلا ہوتا ہے۔ دو سو ڈالر ماہانہ کے عوض گنی میں سلیم کو ملازم رکھا جاتا ہے۔ جس کو اس کا والد فوراً قبول کر لیتا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے ایک معقول رقم ہوتی ہے جس سے وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے رقم جمع کر سکتا ہے۔ سلیم نا چاہتے ہوئے بھی پاکستان سے گنی جاتا ہے۔ جہاں اس کی زندگی میں مختلف اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ وہ بے ایمانی کرتا ہے تو ساتھ دھوکا بھی کھاتا ہے۔ وہ کسی کے ساتھ بہت مخلص ہوتا ہے تو کوئی اس کی صلاحیتوں سے فائدہ بھی حاصل کرتا ہے۔ ناول کا بیشتر حصہ سلیم کے اردگرد گھومتا ہے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس کے کردار کو ہم منفی کہیں یا مثبت۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مصنفہ کی کامیابی ہے کہ ان کے ناول کا مرکزی کردار کوئی مجسم شیطان ہے نہ کوئی فرشتہ۔ وہ ایک انسان ہے جو گناہ بھی کرتا ہے۔ جس کے ہر قدم کے پیچھے کبھی اس کی ہوس ہوتی ہے تو کبھی اس کی ضرورت ۔ جو دوسروں کو فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور کسی دوسرے کے لیے اپنا بھی نقصان کرنے کو راضی ہے۔ گنی پہنچ کر بھی اس کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں وہاں وہ ابتداء تو ایک ملازم کے طور پر کرتا ہے مگر یوسف کپاڈیہ جو کہ اسمعیل کا بیٹا ہوتا ہے جو کہ گنی کا کاروبار سنبھال رہا ہوتا ہے۔ اس کی سادگی اور لاپرواہی سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ جلد ہی وہ اپنے آپ کو ملازم سے کاروباری شراکت دار مشہور کر لیتا ہے۔ وہ جھوٹ بول کر اور فراڈ کرکے پیسہ بناتا بھی ہے مگر جلد ہی اس کو کو دھوکا ملتا ہے۔ دوسری دفعہ جب دوبارہ وہ سنبھلنے لگتا ہے تو اس کی چوری پکڑی جاتی ہے۔ پولیس اور ائیرپورٹ کا جو عملہ اس کے اچھے حالات میں اس کا سگا ہوتا ہے اس کی غربت میں اس سے آنکھیں پھیر لیتا ہے مگر بعد میں ایک دم وہ اپنی جان داؤ پر لگا کر کامیابی سے بھاگ جاتا ہے اور دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے۔ سلیم کے حالات میں یہ اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ بالآخر جب وہ اپنے آپ کو مستحکم کرتا ہے تو کراچی میں اس کے گھر کے بھی حالات بدل جاتے ہیں۔ پہلے جو لوگ نظریں نہیں ملاتے تھے اب آگے آگے چلتے ہیں۔ دراصل دولت کی چمک پر لوگ اپنے رویے کو کیسے بدلتے ہیں اس کی کچھ عکاسی ثمینہ صاحبہ نے کی ہے۔

سلیم کے بعد دوسرا مرکزی کردار فاطماٹا  کا ہے۔ جو کہ فرانسیسی باپ اور سیاہ فام افریقی ماں کی بیٹی ہے۔ اس کی رنگت باقی افریقیوں سے مختلف ہے۔ وہ اپنی فرانسیسی شناخت پر زیادہ فخر کرتی ہے۔ گو کہ وہ گنی میں کافی اچھی اور پُرسکون زندگی گزار رہی ہوتی ہے مگر اس کے خواب فرانس میں سکونت اختیار کرنے کے ہیں۔ اس کو اپنے وطن اور اس کے لوگوں سے نفرت ہے۔ حتی کہ اپنی سیاہ فام ماں امینٹا اور ایک سیاہ فام سوتیلی بہن جارائی سے بھی شدید کوفت کھاتی ہے۔ ان سے اپنی نفرت کے اظہار میں بھی کبھی لحاظ نہیں رکھتی۔ اس کی ملاقات سلیم سے ہوتی ہے تو اس کی زندگی میں ایک بدلاؤ آتا ہے۔ وہ اس کو سلیمے پاکستانی کہتی ہے۔ اس کا باپ فرانس چھوڑ کر گنی میں رہائش پذیر ہو گیا تھا اور اس کا انتقال بھی ادھر ہوا۔ جبکہ اس کا ددھیال فرانس میں ہی ہے۔ جب اس کا دادا مرتا ہے تو اس کی جائیداد کی مالک وہ بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو فرانس جانے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے لیے سلیم اس کی مدد بھی کرتا ہے۔کیونکہ اس کے ماں باپ کی شادی کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں ہوتا تو یہ سرٹیفکیٹ بنوانے میں سلیم اس کی مدد کرتا ہے۔ اس سے پہلے سلیم کے پاس اس کی بہن جارائی کام کر رہی ہوتی ہے تو فاطماٹا زور لگا کر اس کو وہاں سے نکالتی ہے۔ فاطماٹا جاتے جاتے سلیم کے ساتھ بھی ہاتھ کر جاتی ہے اور اس کے پیچھے ایک معذرت کا خط بھی چھوڑ جاتی ہے۔ فرانس جا کر فاطماٹا کو جلد ہی احساس ہو جاتا ہے کہ اپنے ملک میں وہ کس طرح کی موج میں تھی۔ اس کا باپ جو کہ ایک مصور تھا کی پینٹنگز کافی مشہور ہیں مگر فرانس فاطماٹا کو راس نہیں آتا جیسے ہی نظر آتا ہے کہ اب فاطماٹا سیٹل ہو گئی ہے اور اس کی جائیداد بکنے والی ہوتی ہے جس کے بعد وہ یونان جا کر نئی زندگی شروع کرنا چاہتی تو وہ جعلی نکاح نامہ اس کے لیے مشکل کھڑی کرتا ہے جس کے بعد اس کو واپس گنی ڈیپورٹ کیا جاتا ہے۔وہ فاطماٹا جو گنی میں کالی رنگت کو حقارت سے دیکھتی تھی۔ ایسا ہی کچھ حقارت کا سامنا فرانس میں رہ کر اس کو اپنی رنگت کی وجہ کرنا پڑتا ہے۔ فاطماٹا کی کہانی سلیم سے ملتی ہے کہ وہ دھوکہ کھاتی بھی ہے اور سلیم کے معاملے میں اس نے اپنا ہاتھ بھی صاف کیا۔ فاطماٹا کا کردار بھی خیر و شر کا مجموعہ ہے۔

اس کے علاوہ بھی راجیو ہندوستانی ، چراغ لالونی ، جھانوی ، ماتا جی ، مسیو جلو اور باری لالونی سمیت کئی کردار اس ناول کا حصہ ہیں۔ ان میں سے سب کی زندگیوں میں اتار چڑھاؤ بھی آتا ہے۔ ان میں راجیو کی کہانی زیادہ دلچسپ ہے۔ ایک متوسط گھر سے آنے کے بعد لالونی خاندان میں ملازمت کرنے والا راجیو جو کہ اپنی معشوق سارہ کے فراق میں غمزدہ ہوتا ہے اور خودکشی کے دھانے پر اس کو اس کی چھوٹی مالکن جھانوی جو کہ چراغ کی بیوی ہے بچاتی ہے۔ جس کے بعد راجیو اور جھانوی نئی زندگی جیتے ہیں۔ جو کہ زیادہ دیر نہیں چل پاتا۔ راجیو جو کہ چراغ کے ناجائز بیٹے باری کی بھی پرورش کر رہا ہے کو جہاں ایک طرف جھانوی ملتی ہے تو سلیم کے ساتھ اس کی دوستی سے اس کو ایک ہمدرد اور ساتھی مل جاتا ہے۔ راجیو کی شکل میں سلیم کو بلو مل جاتا ہے۔ بلو جو کہ لسانی گروہوں کی لڑائی میں مارا جا چکا ہے کی جدائی سلیم کو بہت جھٹکا دیتی ہے مگر راجیو کا ساتھ اس کے زخم کو بھر دیتا ہے۔

ناول کی کہانی میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن یہ زیادہ تر ان کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ کہانی کے ساتھ ساتھ ہمیں افریقی ثقافت کی بھی جھلک نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ گنی کے سیاسی حالات کا بھی ایک نقشہ سمجھ آتا ہے۔ ثمینہ نذیر نے الفاظ کے چناؤ میں قدرے آزاد روی کا مظاہرہ کیا ہے اور بہت سی باتیں جنہوں ہم ناقابلِ اشاعت کہہ کر نہیں لکھ پاتے بہت آرام سے لکھ ڈالی ہیں۔ جنس کو اس ناول کا ضمنی موضوع تو نہیں کہہ سکتے مگر اس کے بارے میں ثمینہ نذیر نے بہت کھل کر بات کی ہے۔

ثمینہ نذیر کا اندازہ بیان بھی کچھ غیر روایتی ہے۔ جیسے کچھ ناولز میں کہانی ایک تسلسل کے ساتھ چلتی ہے یہاں وہ صورتحال نہیں ہے۔ اس پر پیش لفظ میں ثمینہ نے کہا ہے کہ یہ انداز انہوں نے خود اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ کہانی اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ یہ مصنف کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی کتاب کے لیے کون سا طریقہ کار اختیار کرے، اس طرح سے ثمینہ کا بھی یہ حق ہے۔ مگر مجموعی طور پر یہ تھوڑی مشکل تکنیک ہے۔ ثمینہ نے اس کو اچھے طریقے سے اپنا کر قاری کی کہانی سے دلچسپی کو قائم رکھا ہے۔

اس ناول کے اصل اور مرکزی موضوع کو میں نے دانستہ آخر کے لیے چھوڑا تھا۔ وہ ہے سامراج کی یلغار اور استحصال۔ افریقہ بھی وہ بدقسمت علاقہ تھا جس کا سامراج نے بہت بے رحمی سے استحصال کیا۔ یہاں کے وسائل پر اس نے ڈاکا ڈالا تو دوسرا یہاں کے باشندوں کو بھی تجارت کا ذریعہ بنایا۔ اس گوری چمڑی والے سامراج نے جس طرح سے سیاہ فام لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور ان کو مختلف علاقوں میں بیچا۔ ان لوگوں کو اپنے والدین اور بچوں سے اور شوہروں کو بیویوں سے جدا کیا۔ وہ ایک دردناک داستان ہے۔ ثمینہ نے ۱۸۰۵ کے کوناکری کا منظر پیش کیا جہاں پر لفٹیننٹ گورنر جیرالڈ اور اس کا نائب فرانسو غلاموں کی تجارت کر رہے ہیں۔ ان غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ان کے لیے معمولی بات تھی۔ غلاموں کی قدر ان کی انسانیت کے نہیں بلکہ منافع کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔۔اس لیے ان کو کچھ دنوں بعد کچھ کھانے کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ آس پاس کے علاقوں سے نوجوانوں اور جوان مردوں کو بہلا پھسلا کر یہ لوگ گرفتار کرتے ہیں ۔ جن میں ٹیجان اور بالی بھی ہیں۔ ٹیجان گوروں سے سخت نفرت کرتا ہے اس لیے جب اس کو گرفتار کرکے غلام بھی بنایا جاتا ہے تو وہ سامراجیوں کے لیے مسائل بھی کھڑے کرتا ہے جس کی پاداش میں اس کے ساتھ روا رکھا جانے والا ظلم باقی غلاموں سے زیادہ ہوتا ہے۔ غلاموں کے اس غول کو خالص تجارتی اصطلاح کے لیے بنڈلز کہا گیا ہے۔ جس سے ان کی قیمت اور قدر کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ بالی گورنر کو پسند آ جاتی ہے اس سے خاص سلوک ہوتا ہے اور پھر وہ اس کی بیٹی کی ماں بنتی ہے جس کی نسل سے آگے فاطماٹا کا باپ کلاد بھی آتا ہے۔ غلاموں کی زندگی کی مصنفہ نے ایک اذیت ناک تصویر پیش کی ہے۔

سامراج کبھی اچھا نہیں ہوتا مگر دوسری سامراجی طاقت سے نسبتاً کم بُرا ضرور ہوتا ہے۔ برصغیر بھی انگریزوں کے سامراجی تسلط میں رہا جبکہ افریقی علاقوں پر فرانسیسی سامراج کا قبضہ رہا۔ برصغیر میں انگریز سامراج نے یہاں کے وسائل کو تو لوٹا مگر پھر بھی یہاں ریل گاڑی، نہری نظام اور بیوروکریسی کے ساتھ کچھ تعلیم و صحت پر بھی کام کیے مگر فرانسیسی سامراج افریقیوں کے لیے زیادہ بھیانک ثابت ہوا جس نے وہاں پر تعمیر کے اوپر کچھ بھی توجہ دینا ضروری نہ سمجھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب گنی فرانس کے تسلط سے آزادی حاصل کرتا ہے تو چند ایک ڈسپنسریاں جو انہوں نے قائم کی ہوتی ہیں سامراجی ان کو بھی ختم کرکے جانا ضروری سمجھتے ہیں۔ سامراجی رویوں میں اس فرق کو بھی اس ناول میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

گنی کے لیڈر سئیکو تورے کا بھی ناول میں کافی ذکر ہے۔ جنہوں نے گوروں سے آزادی کی جنگ لڑی انہوں نے ایک غریب مگر آزاد گنی کا امیر مگر غلام گنی پر انتخاب کیا۔ جب چارلس ڈیگال کی پیشکش انہوں نے ٹھکرا دیا۔ گنی کی عوام میں آزادی کی روح پھونکنے میں سئیکو تورے کے کردار کو ثمینہ نے کافی اچھا بیان کیا ہے۔ سئیکو تورے کے بارے میں چیپٹرز کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ غلامی کچھ سہولیات تو دیتی ہے مگر انسانی روح کو داغدار کر دیتی ہے۔ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے کوئی اپنا آرام چھوڑ کر آزادی کی طلب میں نکلتا ہے۔

ایک سوال کہ کیا سامراجی قوتوں نے اپنی کالونیوں جن کو انہوں نے چھوڑ دیا سے اپنے اثرورسوخ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں تو اس کا جواب مکمل ہاں نہیں دیا جا سکتا۔ گو کہ فرق اتنا ہے کہ اب ہمارے آقا بدل گئے ہیں۔ ہمارے ملک کی فیصلہ ساز قوت اور ادارے ابھی تک آزاد نہیں ہیں وہ ان کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے۔ ان کے نمائندے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم ان کے وینٹی لیٹرز پر سانس لے رہے ہیں۔

جہاں تک گنی کا سوال ہے تو اس ناول کی حد تک نظر آتا ہے کہ شروع میں سامراج نے اپنے اثرورسوخ کے لیے تو بہت زور لگایا مگر وقت کے ساتھ حالات گنی کے حق میں بہتر ہوتے ہیں۔ اب بڑی طاقتوں کی حیثیت حاکم کی نہیں بلکہ انویسٹر کی ہے۔ میرے خیال سے ثمینہ نے کچھ زیادہ خوش گمانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ وہاں پر بیرونی طاقتوں کا اثر کم ہوا ہو مگر وہ ان ممالک کو برابر کے حقوق دینے کو تیار نہیں اس کے لیے مزید جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

julia rana solicitors london

ثمینہ نذیر کا یہ ناول قدرے دلچسپ ہے۔ جس طرح سے انہوں نے مختلف کرداروں کی تصویر کشی کی ہے وہ کافی کچھ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے مگر جس طرح سے آخر میں انہوں نے سب اچھا کا اختتام کیا ہے اس کی بجائے اگر ہیپی اینڈنگ نہ ہوتی تو اس ناول کے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔ یہ اس ناول کی سب سے بڑی کمزوری کہی جا سکتی ہے۔میرے خیال سے اچھا اختتام پیش کرنے کے لیے مصنفہ نے تردد کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر پیچھے سے جس طرح سے کہانی کو انہوں نے چلایا اور اس میں سسپنس اور سنسنی کو جگہ دی تو اختتام کرتے ہوئے وہ اس کو مکمل سمیٹ نہیں پائیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ اختتام پسند بھی آئے۔ مجموعی طور پر اس ناول کی کہانی سیدھی ہی ہے گوکہ کرداروں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات آ سکتی ہیں مگر کہانی اتنی گنجلک جال میں نہیں پھنسی کہ زیادہ زور ڈالنا پڑے۔ ثمینہ صاحبہ کی اچھی کاوش ہے۔ انہوں نے اپنے افریقہ میں قیام کو ایک اچھے انداز میں قلمبند کیا ہے اور غلامی کے مسئلہ پر بھی اچھی جانکاری فراہم کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply