منہ بند کر کے ، فرقہ پرستی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی ۔ اور نہ ہی فرقہ پرستی کے خلاف ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اُسے ہرایا جا سکتا ہے ۔ دہلی اسمبلی کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی ( آپ ) کی ہار کا تجزیہ کرنے والوں کو یہ خیال رکھنا ہوگا ، کہ بی جے پی کی جیت اس وجہ سے نہیں ہوئی ، کہ اُس نے دہلی کے لیے کوئی ایسا منصوبہ تیار کر رکھا ہے ، جو دہلی والوں کے طرزِ زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا ، اور نہ ہی بی جے پی نے اروند کیجریوال کے دورِ حکومت میں اپنی جانب سے دہلی والوں کے لیے راحت کی ایسی اسکیمیں شروع کی تھیں کہ عوام کیجریوال کو چھوڑ کر بی جے پی کی جانب مائل ہونے پر مجبور ہوئی ، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ’ آپ ‘ حکومت کی جو بہترین اسکیمیں تھیں بی جے پی اُن کے آڑے آئی ، اور دہلی والوں کو کئی طرح کی سہولتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ، لہذا اس جیت کو بی جے پی کے ’ ترقی ‘ کے پروپیگنڈے سے نہیں جوڑا جا سکتا ۔ بی جے پی کی جیت کا ایک بنیادی سبب اس کی ’ فرقہ پرستی ‘ ہے ، جِس نے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کیا ، اور وہ ’ آپ ‘ کا ساتھ اور کانگریس کا ’ ہاتھ ‘ چھوڑ کر بی جے پی کی طرف مائل ہوئے ۔ افسوس یہ کہ ’ آپ ‘ کی حکومت نے فرقہ پرستی کے خلاف منھ بند رکھا ، اس کا سارا زور اپنی اور اپنے لیڈروں کی جان بچانے تک محدود رہا ۔ اور پھر اس کی گزشتہ پانچ برسوں کی کارکردگی اس کے آڑے آئی ۔ پانچ برسوں کے دوران اروند کیجریوال اقتدار کے نشے میں چور رہے ۔ انہیں زعم تھا کہ وہ تیسری بار جیت کر آئے ہیں ، اور اب انہیں ہرایا نہیں جا سکتا ۔ جس کرپشن کے ، بدعنوانی کے خلاف انہوں نے انا ہزارے کے ساتھ ایک کامیاب مہم چلائی تھی ، وہ اور ان کی پارٹی اسی کرپشن اور بدعنوانی کی چپیٹ میں آئی ، انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جیل جانا پڑا ، اور ان کے اوپر ’ کرپٹ ‘ کا ایک ایسا ٹھپا لگ گیا جو اب مشکل سے چھڑائے چھوٹے گا ۔ ممکن ہے کہ یہ سارے الزامات غلط ہوں ، لیکن بی جے پی نے سارا کھیل اس خوبی سے کھیلا ہے کہ اُن کو پاک صاف ماننے والوں میں سے بہت سارے اُنہیں ’ کرپٹ ‘ یقین کرنے پر مجبور ہیں ۔ کیجریوال کھیل بی جے پی پر الٹ نہیں سکے ۔ کیجریوال کا ایک بڑا منفی پہلو ’ اقلیت ‘ بالخصوص مسلم اقلیت کو اَن دیکھا کرنا تھا ۔ میں نہیں جانتا کہ وہ آر ایس ایس سے متاثر ہیں یا نہیں ، یا یہ کہ وہ سنگھی ہیں یا نہیں ، مگر ان کے کچھ فیصلے سنگھیوں جیسے ہی تھے ۔ جیسے کہ انہوں نے این آر سی کے مسٗلے پر زبان تک نہیں کھولی ، اور نہ ہی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر کوئی ردعمل دیا ، بلکہ اُن دنوں یہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی چونچ سے چونچ ملائے رہے ۔ مسلمانوں نے سب دیکھا سہا اور اس بار پہلے کی طرح ’ آپ ‘ کو ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا ۔ ایک بڑا سوال ووٹروں کے ذہنوں میں یہ بھی تھا کہ ’ آپ ‘ اور کانگریس دونوں بی جے پی مخالف ہیں تو کیوں متحد ہوکر اس کے خلاف الیکشن نہیں لڑتے ؟ اس سوال کا جواب نہ کانگریس کے پاس ہے اور نہ کیجریوال کے پاس ، بلکہ یوں لگتا ہے جیسے کہ یہ دونوں ہی پارٹیاں بی جے پی کے خلاف متحد نہ ہوکر بی جے پی کی مدد کر رہی تھیں ۔ لہذا عام لوگوں نے سوچا پھر کیوں نہ راست بی جے پی کو ہی ووٹ دیا جائے ، اور ووٹ دے دیا ۔ مجھے لگتا ہے یہ ایک اچھا رزلٹ ہے ۔ اس معنی میں کہ اس نے کانگریس اور ’ آپ ‘ دونوں کو ان کی اوقات بتا دی ہے ۔ مستقبل میں کانگریس تو شاید کچھ بچ بھی جائے ، لیکن ’ آپ ‘ کا اور کیجریوال کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے ، مگر یہ سیاست ہے اس لیے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں