یہ ایک مصروف سا پُررونق بازار تھا اور اس روز میرا جنم دن بھی تھا۔ میں اپنے جنم دن پہ ڈھلتی شام میں سر جھکائے اس بازار سے گزر رہا تھا، جب ایک چھوٹی سی بمشکل چار سال کی بچی بھاگتی ہوئی میرے سامنے آ کر اس طرح کھڑی ہو گئی کہ مجھے رکنا پڑا۔
صاف ستھرے کپڑے پہنے وہ کسی اچھے گھرانے سے لگ رہی تھی۔ اس کے منہ پہ کالے مارکر سے بلی کی طرح تھوڑا سا ڈیزائن بنا ہوا تھا، ناک پہ کالے رنگ کا چھوٹا سا دائرہ اور اس سے اطراف میں نکلی ہوئی مونچھوں کی طرح تھوڑی سی کالی لائنیں، جیسے بچوں کو خوش کرنے کے لیے ان کے چہرے پہ تھوڑا سا پینٹ کیا جاتا ہے۔ میں رک کر اس کی طرف دیکھنے لگ گیا تھا تو وہ بولی
“انکل آپ مجھے تین سو روپے دے دیں گے؟
مجھے حیرت ہوئی کیونکہ حلیے سے وہ بچی مانگنے والی نہیں لگ رہی تھی اور ابھی اس کی عمر بھی اتنی چھوٹی تھی کہ وہ تو لفظوں کی مکمل درست ادائیگی بھی نہیں کر پا رہی تھی۔
میں نے کہا “نہیں بیٹا” اور آگے بڑھ گیا۔ لیکن مجھے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کوئی مانگنے والی بچی ہو سکتی ہے۔
چند قدم آگے بڑھنے کے بعد میں ایک طرف ہو کر رک گیا اور بچی کو دیکھنے لگا۔ وہ پیچھے مڑی اور کچھ دور ایک نو دس سال کی لڑکی کے پاس چلی گئی۔ اس لڑکی نے بڑی سی چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ ان دونوں نے آپس میں کچھ بات کی اور آگے چلنے لگیں۔ میں کچھ فاصلہ رکھ کر ان کے پیچھے چلنے لگا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ مانگنے والی ہیں یا نہیں۔ انھوں نے رک کر کسی اور سے پیسے نہیں مانگے۔ چلتی چلتی ایک دکان کے سامنے رک گئیں، وہاں رک کر کچھ دیر سوچا اور پھر آگے بڑھ کر ساتھ والی ایک چھوٹی سی گلی میں مڑ گئیں۔
تب میں نے انھیں آواز دے کر روکا۔ دونوں بچیاں اچھے گھر سے لگ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا “پیسے نہیں ہیں پاس کیا؟”
بڑی بچی بولی : جی انکل
میں نے پیسے نکال کر انھیں دے دیے اور آگے بڑھ گیا۔
پھر خیال آیا کہ مزید تفصیل پوچھ لینی چاہیے، کوئی حقدار ہو تو دوبارہ بھی بہتر انداز میں مدد کی جا سکتی ہے۔ میں واپس مڑا تو وہ دونوں دوکان کی طرف جا رہی تھیں۔ میں تیز تیز چلتا ان کے پاس پہنچا اور انھیں پھر سے روک لیا۔ میں نے پوچھا گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے کیا؟
بڑی بچی بولی: بھائی ہے، وہ رکشہ چلاتا ہے۔
میں نے پوچھا : بھائی بڑا ہے یا چھوٹا؟
کہنے لگی : بڑا ہے
میں نے پوچھا: کتنے سال کا؟
اس نے کچھ لمحے سوچ کر کہا : گیارہ یا بارہ سال کا ہے۔
پھر میرے مزید سوالات پہ اس نے بتایا کہ ابو ہمارے ساتھ نہیں رہتے۔ وہ پشاور ہوتے ہیں، وہاں کسی فیکٹری میں کام کرتے ہیں، ہم دونوں بہنیں سکول پڑھتی ہیں اور بھائی رکشہ چلاتا ہے۔ میں نے پوچھا “گھر میں پیسے نہیں ہوتے کیا؟”
کہنے لگی “نہیں، انکل ایسا نہیں۔ پیسے ہوتے ہیں۔”
میں نے مزید پیسے دینے کا کہا تو بچی نے انکار کر دیا۔ پھر میں نے اس بچی سے کہا :
“میں آپ کو اپنا نمبر دے دیتا ہوں، جب پیسوں کا مسئلہ ہو اپنی امی یا بھائی سے کہنا مجھ سے رابطہ کر لیں۔ میں آپ کی مدد کروں گا”
اس نے کہا: نہیں، انکل اس کی ضرورت نہیں۔ امی ہمیں پیسے دیتی ہیں۔ بس ابھی اس نے پیسے گم کر دیے تھے اور امی کو پتا چلتا تو انھوں نے پریشان ہو جانا تھا اور بہت ڈانٹنا تھا۔ اس لیے آپ سے مانگ لیے۔” اس نے چھوٹی بہن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا اور انھیں کہا
” ٹھیک ٹھیک، آپ جاؤ پھر”
وہ دونوں اپنے گھر کو چل دیں اور میں یہ سوچتا ہوا اپنی راہ ہو لیا کہ کتنی چھوٹی سی رقم ہے جو کسی کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے اور ہم ایسی کتنی ہی چھوٹی چھوٹی رقمیں ویسے ہی اڑاتے رہتے ہیں۔ وہ معمولی سی رقم جو ہمارے لیے اہم ہی نہیں، کسی کی کتنی بڑی پریشانی کو دور کر سکتی ہے۔ خیر ایک ماں کے لیے پریشانی بنتی بھی تو تھی کہ یہ تین سو بچانے کے لیے اس کے گیارہ بارہ سالہ بچے کو جانے کتنی دیر رکشہ چلانا پڑتا ہو گا، کتنی محنت کرنی پڑتی ہو گی۔
یہ بات بھی خوش کن تھی کہ گھر میں غربت ہونے کے باوجود بچیاں مزید مدد لینے پہ تیار نہیں تھیں، نہ ہی آئندہ کے لیے مدد لینے کا وسیلہ کرنا چاہتی تھیں۔
ایسے خوددار گھرانے ہی ہمارے معاشرے کا جھومر ہیں جو مشکل زندگی، کم کمائی کے باوجود خاموشی سے محنت کیے جا رہے ہیں اور عزت سے جیے جا رہے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں