جہاں ہم سولر کا پراجیکٹ لگا رہے ہیں وہاں پر ساتھ ایک ویلڈر کام کر رہا ہے۔ اس ویلڈر کے ساتھ ایک بچہ ہے، بچے کا جسم کپڑوں کے درمیان جھول رہا ہے۔ یہ بچہ ان کروڑوں بچوں میں سے ایک ہے جو ” ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے ” کی تفہیم پر دنیا میں لائے جاتے ہیں۔ اور پھر واقعی شام کو اپنے لانے والوں کا رزق بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔دنیا کی تمام منافقتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔
ویلڈر بچے کو لوہے کی وزنی گرل اٹھانے کا کہتا ہے۔ بچے سے اپنے بخت کی مانند وزنی گرل نہیں اٹھائی جاتی۔۔۔ بہن۔۔۔۔۔ اٹھا ناں۔۔۔ویلڈر گالی دیتا ہے۔ بچے کا پیلا چہرہ احساسات سے بالکل عاری ہے۔ ہو سکتا ہے اندر کو دھنسی آنکھوں میں اپنی اس بہن کا چہرہ آ جاتا ہو۔
رزق کی تقسیم پر اس منافقانہ توکل کا وعظ فرماتے ملاں صاحب کاش کہ چندے کے دھندے میں سے ہی اس بچے جیسے بچوں کو کچھ حصہ دے کر اپنی تفہیم کے دو رخے چہرے کی بدصورتی کچھ کم کر دیں۔
ویلڈر اب اس بچے کو ایک سریے سے “ٹڈ” دے کر گرل اٹھانے کو کہتا ہے۔ بچہ پہلے ہاتھ سے زور لگاتا ہے۔ کمزوری سے کانپتے ہاتھوں میں کتنا ایک زور ہو سکتا تھا۔ ویلڈر اس بار گالی بدل دیتا ہے۔۔۔۔ماں۔۔۔۔اوپر کھڑا ہو جا اسکے۔ پتا نہیں کہاں سے آ گیا۔۔۔
اسے اس ماں کی گالی پڑی جو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ وہ ماں جس نے اسے یہ سوچ کر پیدا کیا ہو گا کہ یہ اپنا رزق ساتھ لائے گا۔ حالانکہ یہ تفہیم اسی وقت اپنا دم توڑ جاتی ہے جب بھوک زدہ ماں کو ڈاکٹر کہتی ہے تم میں خون کی کمی ہے۔ مگر یہاں کون سے ڈاکٹر اور کون سی مائیں اور کون سا خون۔
وہ کسی چیز پر زور لگاتا تو اسکا جسم کانپتا، اس ارتعاش سے زمین کانپتی ہوئی محسوس ہوتی جیسے ” اذا زلزلت الارض الزلھا ” کی آیت کا ورد کرتی ہو۔ مگر اسکی مٹی سے بنے انسانوں کے دل پتھر ہیں۔
ویلڈر نے اب ایک راول بولٹ دیوار میں لگانے کے لیے بچے کو کہا ، ہلٹی چلتی تو بچے کا پورا جسم ساتھ ہلتا۔ سوراخ ہو گیا تو ویلڈر نے راول بولٹ بیچ میں رکھ کر اسے دیوار میں ٹھونکنے کو کہا۔ ہتھوڑے کا وزن بچے کے بازو سے زیادہ تھا۔ چوٹ آدھی ادھوری راول بولٹ پر لگتی آدھی دیوار پر۔ ویلڈر نے جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے ہتھوڑا لیتے ہوئے کہا۔ کہاں سے متھے لگ گیا بہن۔۔۔۔ایک راول بولٹ تجھ سے نہیں لگتا۔ اور خود راول بولٹ لگا دیا۔ بچے کو اسی جھٹکے سے ہتھوڑا پکڑا کر اوپر چڑھ گیا۔ بچے نے ہتھوڑا پکڑ کر پیچھے رکھا۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر اب اسے خفت کا احساس ہوا۔ اس نے ہتھوڑا ذرا زور سے نیچے پھینکا تو اگلے منظر میں مجھے یوں لگا جیسے ابلیس کہیں خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہو۔ ” یہ دیکھ جسے سجدہ نہ کرنے پر میں راندہ درگاہ ہوا ، دیکھ اج اسکا مسجود میں ہوں۔
بچے کے ہتھوڑا زور سے پھینکنے پر پیچھے ایک باریش شخص بیٹھا تھا۔ مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بچے کو کہنے لگا غصہ نہیں کرنا پتر استاد دی گل دا غصہ نہیں کرنا۔ یہ بات اس نے استاد کو سناتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر اونچی آواز میں کی اور وہی ہوا جو اس نے چاہا تھا۔ استاد کہنے لگا بہن۔۔۔۔اہک تو کام چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔اور پیچھے بیٹھا ہوا بے ضمیر کھل کر ہنسنے لگا۔
مجھ سے اب رہا نہ گیا اور میں اپنا کام چھوڑ کے ان کے پاس چلا گیا۔ ویلڈر ایک طرف ہوا تو اس سے کہا۔۔۔ایک بات کہوں برا نہ ماننا۔ کہنے لگا جی جی۔۔میں نے کہا یہ کام اس بچے کی بساط سے زیادہ ہے۔ یہی کافی ہے کہ یہ بے چارہ ناکردہ گناہ کی سزا پا رہا ہے اسے گالیاں مت نکالا کرو۔کہنے لگا۔۔۔سر جی آپ کو نہیں پتا تھوڑی سختی نہ کرو تو یہ کام نہیں سیکھتے۔۔۔بڑے ہڈ حرام ہوتے ہیں۔میں نے سوچا عجیب بات ہے پیدا ہوتے ہیں اس مزہبی تفہیم پر کہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتے ہیں اور اپنے ساتھ پیدا کرنے والوں کا بھی رزق کماتے گالیوں کے ساتھ کام چور اور ہڈ حرام بھی کہلواتے ہیں۔۔۔اپنی ہڈیاں خود پر پوری طرح سے حلال بھی نہیں ہوتیں ہڈ حرام کے فتوے کے ساتھ حرام ہو جاتی ہیں۔

پسِ تحریر ! ایک پوسٹ لکھی کہ ” ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے ” کی مزہبی تفہیم کو پہلی ضرب تب لگتی ہے جب ڈاکٹر بھوک زدہ ماں سے کہتی ہے ” تم میں خون کی کمی ہے” ۔ عجیب بات ہے کہ سادہ سے سوالات کے جواب میرے محترم دوستوں کے پاس نہیں مگر ملائیت کی مزہبی تفہیم پر بضد ہیں۔ یا للعجب۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں