90کی دہائی کی ابتدا میں زمانہ طالب علمی میں امتحانات سے فراعت کے بعد دہلی کے اوکھلا علاقے سے متصل سرائے جولینا بستی میں ایک کمرہ کرایہ پر لیکر میں چھٹیاں منانے کشمیر چلا گیا تھا۔ پندرہ بیس دن کے بعد واپسی پر 27 گھنٹہ کے بس سفر کے بعدارادہ تھا کہ کمرے میں جاکر کمر سیدھی کرلوں، ، دیکھا کہ وہاں دوسرا تالہ لٹکا ہوا ہے۔ہندو علاقہ تھا، مکان مالک دوسری منزل پر رہتے تھے۔ان سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ ہفتہ بھر قبل پولیس نے کمرہ کھول کر تلاشی لی ہے۔ان دنوں میری پوری کائنات ریگزین کا ایک سوٹ کیس تھا،جس میں چند کتابیں اور دو جوڑے کپڑے تھے، بتایا گیا کہ پولیس وہ بھی ساتھ لے کر گئی ہے۔ مالک مکان نے بتایا کہ پولیس نے اس کو تاکید ہے کہ میرے پہنچتے ہی ان کو اطلاع کردوں۔ اس نے کہا کہ’’ وہ آتے ہی ہونگے۔ اس دوران اگرکسی کو فون وغیرہ کرنا ہو تو کروں یا کہیں جانا ہو، تو جلدی چلا جاوں۔ ‘‘ بھاگ کر مفرر ہونا تو ناقابل عمل آپشن تھا،مگر فون کس کو کرتا۔کشمیر میں گھر پر کیا قصبہ میں ہی دور دور تک کسی کے پاس فون نہیں تھا۔ دہلی میں کسی جان پہچان والے کے پاس بھی فون نہیں تھا۔ خیر بس ایک موہوم امید کے سہارے میں نے معروف دستاویزی فلم ساز تپن بوس کے صفدر جنگ ڈویلپمنٹ ایریا یعنی ایس ڈی اے میں واقع دفتر کا فون ملایا۔ ان کے کیمرہ مین سلیم شیخ کو میں نے اپنے اوپر آئی افتاد کی کہانی سنائی۔تپن بوس کے ساتھ کچھ زیادہ جان پہچان بھی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد سول وردی میں پولیس وارد ہوئی۔ان دنوں لودھی روڈ پر واقع سپیشل سیل کا قیا م عمل میں نہیں آیا تھا۔پنجاب میں سکھ عسکریت ابھی زوروں پر تھی۔اس سے نپٹنے کیلئے قرول باغ کے دیو نگر میں دہلی پولیس کی انسداد دہشت گرد یونٹ کا دفتر تھا۔ مجھے وہیں لے جایا گیا۔ پولیس کے روایتی استقبال کے بعد مجھے لاک آپ میں دھکیلا گیا۔وقتاً فوقتاً کوئی نیا پولیس والا یا حوالدار ڈیوٹی پر آتاتو مجھے لاک اپ سے نکال کر مرمت کرنے میں اپنا حصہ ڈال دیتا تھا۔لاک اپ سے پولیس سٹیشن کا صحن دور سے نظر آتا تھا۔اگلے روز سویرے میں نے صحن میں تپن بوس اور میرے ایک ساتھی مرحوم ایڈووکیٹ سالامحمد خان کو دیکھا۔وہ ایس ایچ او کے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔ میر ی ان سے ملاقات تو نہیں کروائی گئی۔ مگر پٹنے کا سلسلہ بند ہوگیا اور لاک اپ سے مجھے نکال کر پولیس والوں کے رہائشی کمرہ میں لے جاکر بند کر دیا گیا۔پولیس سٹیشن میں بڑی گہما گہمی شروع ہوگئی۔اگلے رو ز ڈپٹی کمشنر پولیس یا اس سے بھی کوئی سینئر افسر وارد ہو گیا تھا۔مجھے اس کے پاس لے جایا گیا۔ تپن بوس بھی وہاں موجود تھے اور مجھے باضابطہ ان کے حوالے کردیا گیا۔پولیس کی اس کارروائی کے بعد مکان مالک نے کمرہ واپس دینے سے منع کردیا۔اس دوران معلوم ہوا کہ میرے کچھ پیپرز واپس آگئے ہیں یعنی فیل ہو گیا ہوں اور دوبارہ امتحان پندرہ بیس دن کے بعد لئے جانے والے ہیں۔ تپن نے ایس ڈی اے کے دفتر میں ہی ایک بیڈ لگوادیا اور مجھے عارضی طور پر وہیں ٹھہرنے کیلئے کہا، جب تک امتحانات مکمل نہیں ہوتے ہیں۔ 30جنوری کو جب دہلی سے تپن بوس کے انتقال کی خبر آئی، تو یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔ وہ 78برس کے تھے۔ دفتر کے ساتھ ہی تپن کی رہائش تھی۔ ان کی فلم کمپنی میں سوہاسنی مولے بھی پارٹنر تھی، جس نے بعد میں بالی ووڈ میں خاصا نام کمایا۔ ہر شام ان کے دفتر کے کمرے میں، جس کے کونے میں ، میری رہائش تھی۔ نصیرالدین شاہ، ابراہیم الکازی ، اوم پوری، بیورو کریٹ اشوک جیٹلی ( جو بعد میں جموں کشمیر کے چیف سیکرٹری بھی رہے) اور متعدد ایسی ہستیوں کی محفل جمتی دیکھی ۔ ان کا یہ کمرہ ان دنوں دہلی میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کا ایک طرح سے مسکن ہوتا تھا۔ کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو تپن بوس اور ان کے اس وقت کے دست راست گوتم نولکھا کے پاس حاضر ہوجاتے تھے۔ تپن کے ساتھ جان پہچان بھی دلچسپ حالات میں ہوئی۔ کشمیر کی تاریخ کے ساتھ دلچسپی رکھنے والوں کے علم میں ہوگا کہ 1990 کا جنوری کشمیر کے لیے ایک قیامت تھا۔ 19جنوری 1990کی رات جب جگموہن ملہوترہ نے گورنر ی کا چارج سنبھالا، سرینگر کے وسط میں گاؤکدل علاقہ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ جنوری کے ماہ میں ہی وادی کے طول و عرض میں ایک اندازہ کے مطابق 300کے قریب افراد ہلاک کر دئیے گئے۔ اسی سال مئی میں میر واعظ مولوی محمد فاروق کے جنازہ کے جلوس پر فائرنگ سے 60افراد ہلاک ہوگئے۔دہلی میں گو کہ ان دنوں کشمیری طلبا کی تعداد نہایت کم تھی، مگر سبھی ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار تھے۔ کشمیر سے قتل عام کی خبریں متواتر موصول ہو رہی تھیں۔ ٹیلی فون اور ڈاک کا نظام درہم برہم تھا۔ پولیس کی نگرانی سے نظر بچاتے ہوئے چند طلبا روز کسی نہ کسی سفارتی مشن یا میڈیا کے اداروں کا دروازہ کھٹکٹا کر کشمیر میں جاری قتل عام کی جانب ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔بھارت میں سوشلسٹوں کا ایک طبقہ ہمیشہ سے ہی کشمیر کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتا تھا۔ جس میں مردولا سارابائی، رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نارائن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس قبیل میں آخری نام جارج فرنانڈیس کا تھا۔گاؤ کدل کے قتل عام کی خبریں جب دہلی پہنچیں، تو تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد میں زیر تعلیم چند دیگر طلباکے ہمراہ بے بسی کے عالم میں احتجاج درج کروانے کی خاطر ہم جارج فرنانڈس کی رہائش گاہ تین کرشنامینن روڈ کے باہر بیٹھ گئے۔ اسی دوران جب پولیس والوں نے وارننگ دینی شروع کی تو فرنانڈس نے باہر آکر ہمیں تسلی دی۔گو کہ اسی وقت محسوس ہوا کہ ان کی تسلی میں زیادہ دم نہیں تھا، مگر انہوں نے ہمیں حقوق انسانی کے سرگرم کارکنان روی نئیر، تپن بوس، سمنتا بنرجی، دنیش موہن اور گوتم نولکھا سے متعارف کروایا۔ روی نئیر جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی ڈاکومینٹیشن کے حوالے سے ایک معتبرنام ہے۔ فلم میکر تپن بوس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) میں استاد دنیش موہن، سمنتا بنرجی اور گوتم نولکھا پر مشتمل وفد نے فروری 1990میں کشمیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے کمیٹی فار انیشیٹو آن کشمیر گروپ کو ترتیب دیا۔ یہ کسی انسانی حقوق کے وفد کا کشمیر کا پہلا دورہ تھا۔واپسی پر مارچ میں انہوں نے‘کشمیر میں بھارت کی جنگ’کے عنوان سے ایک مفصل رپورٹ جاری کرکے ایک تہلکہ مچا دیا۔ عالمی اداروں میں ابھی بھی اس رپورٹ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ دہلی میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ جارج فرنانڈس کی ایما پر یہ کمیٹی بنائی گئی اور رپورٹ ترتیب دی گئی تھی۔بعد میں مرحوم ایڈووکیٹ سالار محمد خان نے تپن بوس کے دفتر سے ہی’کشمیر ڈوزیئر’نام سے ایک جرنل شائع کرنا شروع کیا جس کے لیے موادجمع کرنے اور پروڈکشن وغیرہ کے لیے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ (جاری ہے)
بشکریہ 92 نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں