انسانی تاریخ جدوجہد کی تاریخ ہے— آزادی کی، انصاف کی، برابری کی۔ ہر دور میں انسانیت کی سچائی کو وہی فکر تسلیم کیا گیا ہے جو فرد کے حقِ خود ارادیت کو مقدس جانتی ہے. انسان کو استحصال، جبر اور غلامی سے آزاد کر کے اس کے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کر سکے۔ استحصالی نظام، استبدادی قوتوں اور فرسودہ روایات کے خلاف خصوصاً سیاسی، فکری اور ادبی تحریکوں کے ذریعے عوامی جدوجہد جاری ہے. یہ جدوجہد معاشی انصاف، طبقاتی مساوات اور فکری آزادی کے مقاصد کے لیے جاری ہوئی جس کی بدولت ادب، سیاست اور معاشرت میں نئے تصورات متعارف ہوتے رہے ہیں، جن میں سب سے اہم تصور یہ تھا کہ ہر فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہو۔
قرآن و سنت کے مطابق انسانی زندگی اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے، اور کسی بھی جابرانہ قوت کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی فرد یا قوم کو غلام بنائے یا اس کی خود مختاری کو سلب کرے۔ “لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ…” (البقرہ: 256) ترجمہ: “دین میں کوئی جبر نہیں، یقیناً ہدایت گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔” یہ آیت انسانی فکری و عملی آزادی کی بنیاد فراہم کرتی ہے، جو کسی بھی فرد یا قوم کے حقِ خود ارادیت کا بنیادی اصول ہے۔ “وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ…” (ابراہیم: 6) ترجمہ: “اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہیں فرعون کی غلامی سے نجات دی۔” یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کا قانون محکومی اور غلامی کے خلاف ہے، اور ہر قوم کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک ایسے معاشرے میں انسانی آزادی کا تصور پیش کیا جہاں غلامی، طبقاتی تفریق اور جبر کا نظام غالب تھا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات نے نہ صرف غلاموں کو آزادی دلوائی بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ کسی بھی قوم یا فرد کو زبردستی محکوم بنانا ظلم ہے۔
سرمایہ داری کا نظام انسان کے حقِ خود ارادیت کو سلب کر لیتا ہے۔ انسان کی معاشی آزادی اس کی فکری آزادی کے ساتھ مشروط ہے. جب تک پیداواری ذرائع چند ہاتھوں میں مرکوز رہیں گے، عام انسان اپنے فیصلے خود نہیں کر سکے گا۔ حقیقی خود ارادیت کے لیے ضروری ہے کہ معاشی وسائل اور اختیارات عوام خصوصاً پرولتاریہ کے کنٹرول میں ہوں۔ طبقاتی جدوجہد ہی وہ قوت ہے جو حقِ خود ارادیت کو عملی شکل دے سکتی ہے۔ مزدور، کسان، محنت کش اور مظلوم طبقے جب اپنی محرومی کو بدقسمتی نہیں بلکہ استحصال کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں، تب وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
طبقاتی سماج میں انفرادی خودارادیت ایک یوٹوپیا ہے. اس کے برعکس اجتماعی خود ارادیت حقیقت پہ مبنی ہے. دنیا کی تاریخ میں استعماری قوتوں نے مختلف اقوام کو غلام بنا کر ان کی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ولادی میر لینن نے قومی خود مختاری کے اصول پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر قوم کو اپنی حکومت، معیشت، اور سیاسی ڈھانچے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔
1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ برطانوی سامراج نے برصغیر میں تقسیم و حکمرانی کی پالیسی کے ذریعے ایسے تنازعات چھوڑے جو آج بھی جنوبی ایشیا میں کشیدگی اور جبر کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ 1948 میں اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے استصوابِ رائے کی قرارداد منظور کی، لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ حق نہ صرف سلب کیا جا چکا ہے بلکہ کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس لیے عوامی جدوجہد “اقوام متحدہ” کو سامراج کا رکھیل ادارہ سمجھتی ہے۔
مارکسی اور ترقی پسند فکر کے مطابق کسی بھی قوم کو اس کے حقِ خود ارادیت سے محروم کرنا استعماری اور جابرانہ پالیسی کا حصہ ہوتا ہے، جس کی شدید مذمت ضروری ہے۔ بھارت میں ہندوتوا نظریہ کے غلبے کے بعد 2019 میں کشمیر کی خود مختاری کو ختم کر دیا گیا، جس سے نہ صرف کشمیری عوام کے حقوق پر شدید ضرب لگی بلکہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی اور جنگ کے خطرات بھی بڑھ گئے۔ کسی بھی قوم کو اکثریتی جبر کے تحت دبانا نہ صرف غیر انسانی عمل ہے بلکہ یہ سماجی ترقی اور امن کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
کمیونزم اور مارکسزم کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کو طبقاتی جدوجہد، سامراجی عزائم، اور قومی سوال کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تمام سیاسی اور قومی تنازعات کے پیچھے اصل قوتیں معیشت اور طبقاتی تضادات ہوتے ہیں، اور مسئلہ کشمیر بھی اس اصول کے تحت دیکھا جائے. مارکسی نقطہ نظر سے مسئلہ کشمیر برطانوی سامراج کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم ایک سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ مفادات کو برقرار رکھنے کا منصوبہ تھا، جس میں کشمیر جیسے خطے کو متنازعہ بنا کر ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشیدگی برقرار رکھی گئی۔ برطانوی سامراج نے دانستہ طور پر کشمیر کا حل ادھورا چھوڑ کر جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی کی راہ ہموار کی۔
مارکسی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو صرف “ہندو بمقابلہ مسلمان” یا “پاکستان بمقابلہ بھارت” کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ اسے ایک قومی و طبقاتی سوال کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی عوام، خصوصاً مزدوروں، کسانوں اور محنت کش طبقے کے مسائل، نہ تو بھارت کے سرمایہ دارانہ نظام میں حل ہو سکتے ہیں، نہ پاکستان کے نیم جاگیردارانہ نظام میں۔ کشمیری عوام کی حقیقی آزادی صرف اس وقت ممکن ہوگی جب وہ طبقاتی جبر اور سامراجی تسلط سے نجات حاصل کریں۔
کمیونزم اور مارکسزم کے تناظر میں مسئلہ کشمیر محض ایک قومی تنازع نہیں، بلکہ ایک طبقاتی اور سامراجی مسئلہ بھی ہے۔ اس کا حل صرف ریاستوں کے درمیان سفارتی مذاکرات سے نہیں، بلکہ کشمیر کے محنت کش طبقے کی منظم جدوجہد، سامراجی مداخلت کے خاتمے، اور ایک مساوات پر مبنی سوشلسٹ نظام کے قیام میں ہے، جو ہر طرح کے قومی اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ کرے۔
مارکسزم کے مطابق، عالمی سامراجی قوتیں مسئلہ کشمیر کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتی رہی ہیں۔ امریکہ، چین، اور دیگر عالمی طاقتیں اس تنازعے میں مداخلت کر کے جنوبی ایشیا میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے جنوبی ایشیا میں اپنی حکمت عملیوں کے تحت کشمیر کے مسئلے کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کیا۔ آج بھی یہ مسئلہ عالمی سرمایہ داری نظام کے لیے ایک پریشر پوائنٹ بنا ہوا ہے۔
تاریخی طور پر کشمیر میں بائیں بازو کی جماعتوں اور نظریات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے 1940 کی دہائی میں سوشلسٹ نظریات کو اپنایا، جبکہ مقامی کمیونسٹ گروہ بھی کشمیر کی خودمختاری اور کسانوں کے حقوق کے حق میں سرگرم رہے۔ لیکن بھارتی ریاستی جبر اور پاکستانی حکومتی پالیسیوں نے بائیں بازو کی تحریکوں کو کمزور کر دیا۔
مارکسزم کے مطابق، مسئلہ کشمیر کا حل قومی خودارادیت (Right to Self-Determination) میں مضمر ہے، یعنی کشمیری عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ لیکن مارکسی نقطہ نظر صرف قومی خودمختاری کو کافی نہیں سمجھتا، بلکہ وہ کشمیر میں ایک ایسے نظام کی وکالت کرتا ہے جو سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصال سے پاک ہو، جہاں مزدوروں، کسانوں، اور محنت کش طبقات کو حقیقی آزادی حاصل ہو۔
کشمیر کی تحریک آزادی سمیت دیگر عوامی جدوجہد کے لیے ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی تحریروں/ تخلیقوں میں آواز بلند کی ہے۔ اردو میں فیض احمد فیض، احمد فراز، حبیب جالب اور مجروح سلطانپوری جیسے شاعروں نے ہمیشہ استعماری قوتوں، سامراجی طاقتوں اور جابرانہ حکومتوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کی شاعری کشمیری عوام کے لیے ایک اظہارِ یکجہتی تھی، جو آج بھی آزادی کے متوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
حقیقی انسانیت اسی میں ہے کہ ہر فرد اور ہر قوم کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں۔ کشمیر میں آج بھی یہ بنیادی انسانی حق سلب کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف جمہوری اقدار کے منافی ہے بلکہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر اس تحریک، نظریے اور جدوجہد کی حمایت کی جائے جو انسان کے حقِ خود ارادیت کو یقینی بنائے۔ جب تک کشمیر، فلسطین اور دیگر مظلوم قوموں کو ان کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے، تب تک انسانیت ادھوری رہے گی۔ یہی حقیقی انسانیت کا اصول ہے اور انسانیت کی حقیقی معراج بھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں