معبودبرحق کا کروڑہا شکر ہے کہ اس نے ہم پر بے حساب عنایات کی بارش کی‘ ہمیں مسلمان بنایا‘ صراطِ مستقیم پر چلایا‘ صرف اور صرف اپنا یعنی ایک اللہ کا عبادت گزار بنایا‘ محمد ﷺ کا امتی بنایا‘ دین کا شوق دیا اور دینداروں کی محبت عطا فرمائی۔ انسان سارے کے سارے ہی اپنے رب کے بندے ہیں اور بندے کا کام بندگی بجا لانا ہے‘ جو بندہ بندگی سے دور بھاگے وہ بندہ نہیں۔ بندگی کا دارومدار ایمان کی اصلاح پر ہے۔ جس کے ایمان میں خلل ہے اس کی بندگی غیر مقبول ہے اور جس کا ایمان درست ہے اس کی تھوڑی سی بندگی بھی قابلِ قدر ہے۔
موجودہ دور میں بھی لوگوں نے مختلف راہیں اختیار کر رکھی ہیں‘ بعض باپ دادا کی اختیار کی گئی رسومات کی پیروی کرتے ہیں‘ بعض اکابر پرستی کا شکار ہیں اور بعض علماء کی خود تراشیدہ باتوں کو بطور سند پیش کرتے ہیں جبکہ بہترین راہ یہی ہے کہ قرآن و مستند احادیث کو معیار بنایا جائے اور ان ہی دو چشموں سے روح کو سیراب کیا جائے۔ بزرگوں کی جو بات‘ علماء کا جو مسئلہ اور برادری کی جو رسم قرآن و سنت کے موافق ہو اس کو مان لیا جائے اور جو اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دیا جائے۔
عوام کے ذہن میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ قرآن کا سمجھنا بڑا مشکل ہے‘ اس کے لیے بڑے علم کی ضرورت ہے۔ یہ خیال قطعی بے بنیاد و مغالطہ آمیز معلوم ہوتا ہے کیونکہ خالق نے فرمایا کہ قرآن کی باتیں صاف صاف اور سلجھی ہوئی ہیں۔
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے آپﷺ پر صاف صاف آیتیں اتاری ہیں ان کا انکار فاسق ہی کرتے ہیں، اور یقیناََ ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا۔ (البقرہ۹۹)
یعنی ان کا سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں بلکہ نہایت آسان ہے البتہ ان پر عمل کرنا مشکل ہے کیونکہ نفس کو فرمانبرداری مشکل معلوم ہوتی ہے‘ اسی لیے نافرمان ان کو نہیں مانتے۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ علم کی ضرورت نہیں کیونکہ پیغمبر نادانوں کو رستہ بتانے کے لیے‘ جاہلوں کو سمجھانے کے لیے اور بے علموں کو علم سکھانے ہی کے لیے آئے تھے‘ فرمایا:
ترجمہ: وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے‘ یقیناََ یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (الجمعہ۲)
یعنی رب بزرگ و برتر کی یہ بڑی نعمت ہے کہ اس نے ایسا پیغمبر مبعوث فرمایا جس نے ناواقفوں کو واقف‘ ناپاکوں کو پاک‘ جاہلوں کو عالم‘ نادانوں کو دانا اور گمراہوں کو راہ یافتہ بنا دیا۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے اب بھی اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ قرآن سمجھنا عالموں کا اور اس پر عمل کرنا بڑے بڑے بزرگوں ہی کا کام ہے تو اس نے اس آیت کو ٹھکرا دیا اور معبود برحق کی اس جلیل القدر نعمت کی ناقدری کی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کو سمجھ کر جاہل عالم اور گمراہ عمل کر کے بزرگ بن جاتے ہیں۔
شاہ اسمٰعیل شہید نے تقویۃ الایمان میں ایک مثال یوں بیان کی ہے کہ ایک بڑا سمجھدار و ماہر طبیب ہے اور ایک شخص کسی بیماری میں مبتلا ہے۔ ایک تیسرا شخص اس بیمار سے ازراہ ہمدردی کہتا ہے کہ تم فلاں طبیب کے پاس جا کر اپنا علاج کرا لو لیکن بیمار کہتا ہے کہ اس کے پاس جانا اور اس سے علاج کرانا ان تندرستوں کا کام ہے جن کی صحت بہت ہی اچھی ہو‘ وہ تو سخت بیمار ہے بھلا وہ کس طرح جا کر علاج کرا سکتا ہے۔ کیا آپ اس بیمار کو خبطی نہ سمجھو گے کہ نادان اس حاذق طبیب کے پاس جانے کو تیار نہیں۔ طبیب تو بیماروں ہی کے لیے ہوتا ہے جو تندرستوں کا علاج کرے وہ طبیب کیسے ہوا؟ مطلب یہ کہ جاہل و گناہگار کو بھی قرآن کے سمجھنے اور احکام شریعیہ پر انتہائی سرگرمی سے عمل کرنے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ ایک عالم و متقی کو۔ لہٰذا ہر خاص و عام کا فرض ہے کہ کتاب و سنت ہی کی تحقیق میں لگا رہے‘ انہی کو سمجھنے کی کوشش کرے‘ انہی پر عمل کرے اور انہی کے سانچوں میں ایمان ڈھالے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں