جلسے کسی زمانہ میں اصلاح معاشرہ میں بہترین کردار ادا کرتے تھے مگر اس زمانے کے جلسے عموماً ریا ، نمود ، دکھاوا ، اقرباء نمائی، کردار کشائی و کردار کشی، جھوٹی تعریفوں ، کھوکھلی خدمتوں اور بے ضرورت فضول خرچیوں کا شاہکار ہیں۔
ہمارے حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی اور محی السنہ حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئی کو اگر کسی جلسہ میں مدعو کیا جاتا تو شرط لگا دیتے کہ کوئی سجاوٹ نہیں ہوگی۔بہت بار ایسا ہوا کہ آپ جلسہ گاہ پہنچے وہاں سجاوٹ دیکھی تو فوراً اپنی گاڑی موڑنے کاحکم صادر فرمایا اور واپس چلے گئے ، منتظمین نے کتنی ہی منت سماجت کی لیکن پروگرام میں شرکت سے منع فرمادیا۔
ہمارے اس زمانے میں عموماً بہت زیادہ سجاوٹ ہورہی ہے ، اسٹیج بھی پُر رونق اور دلہن کی طرح سجے ہوتے ہیں ، فرش و عرش کی جگمگاہٹ اور مصنوعی گیٹ کی سجاوٹ پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ، مقررین دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں اور اس فضول خرچی پر نکیر تک نہیں کرتے ہیں ، اب کوئی مولانا ابرارالحق ہردوئی کہاں سے لائے، قاری سید صدیق احمد باندوی کہاں تلاش کرے، مولانا نسیم احمد غازی مظاہری اب چراغ لے کر تلاش کرنے سے بھی نہیں مل سکتے ، یہ وہ ہستیاں ہیں جو اب اس دیش بستیاں ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آسکتا، مفتی سعید احمد پالن پوری کی کیا تعریف کی جائے جو منتظمین کو ان کے سامنے برسر منبر ومحراب ایسی تادیب اور سرزنش فرماتے تھے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے تھے لیکن اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ہم منتظمین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، پروگرام کو خوب سراہتے ہیں ، اس تعریف اور توصیف کے پیچھے کے اسباب و عوامل بھی بتاتا ہوں یہ جھوٹی تعریف کرنے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان کو آئندہ بھی بلایا جائے ، ان کی جیب بھرتی رہے ، ان کی شہرت ہوتی رہے، ان کی عندالناس مقبولیت بڑھتی رہے ، میں خود ایسے مقررین کو جانتا ہوں جو باقاعدہ کاتب کے پاس پہنچ کر پوسٹر اور بینر میں اپنا نام جلی کراتے پھرتے ہیں ، دعوت نامہ میں القاب کی بھیڑ ہونی چاہیے ، اناؤنسر ایسا ہو جو زمین وآسمان کی قلابے ملا سکے، تعریفی کلمات ایسے لائے کہ عوام حیران رہ جائیں، دوران تقریر ایسے کرتب دکھائیں کہ لوگ بڑا سمجھیں ، جھوٹ بولیں ، باتوں باتوں میں یہ بتائیں کہ میں کہاں کہاں تقریر کے لئے جاتا ہوں ، میں نے لندن میں ایک تقریر میں کہا، مجھ سے سعودی بادشاہ نے کہا، وزیراعظم نے فون کال کی ، وزیراعلی سے میری یہ گفتگو ہوئی ، یہ چیزیں اپنے دام اور اپنی قیمت بڑھانے کے وہ انداز اور کرتب ہیں جو ایک دکاندار اپنی دکان کی سجاوٹ میں ، ایک مکان والا اپنے مکان کے سامنے والے حصہ میں یا ایک مداری ابتدائی تمہید میں لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے کرتا اور کہتاہے۔
مخلصین کی جماعت عنقا ہوتی جارہی ہے ، میرے استاذ حضرت مولانا مفتی مجدالقدوس خبیب رومی لکھیم پور ایک پروگرام میں تشریف لے گئے یقین مانیں ایک کتاب کھول کر اس کی کچھ تشریحات کیں ،کچھ اچھی باتیں بیان کیں اور تقریر ختم ،ایک ہم ہیں کہ بے سرپیر کے قصے ،من گھڑت کہانیاں ، موضوع روایات اور غیر موزوں حکایات سے مجمع پر چھاتو سکتے ہیں لیکن وہ باتیں نہ عوام کے حلق سے نیچے اترتی ہیں نہ خود مقرر کے اوپر ان کا کوئی اثر ہوتا ہے۔
حضرت مولانا سید حبیب احمد مظاہری باندوی کو میں نے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے سنا کہ بھائی میں کوئی مقرر کوئی بڑا عالم نہیں ہوں نہ ہی مجھے تقریر آتی ہے ، سوچیں کیا منبر اور اسٹیج پر ہم ان کلمات کو اپنی ذات کے تئیں دہراسکتے ہیں ؟
ہم آج دوسروں کو راہ راست پر لانے کے جتن کرتے ہیں اور خود بھٹکے ہوئے ہیں، ہم اس اندھے کے مانند ہیں جو اندھیری رات میں میں ایک چراغ اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے ، ہم اس مداری سے کم نہیں جو ڈگڈگی بجا کر پیسے وصولتاہے، بس میدان عمل بدلا ہوا ہے ، مقصد ایک ہے ،مراد ایک ہے ،منشاء ایک ہے ، ارادہ ایک ہے ۔سستی شہرت کی چاہت اور دولت کی حرص نے ہمیں اٹھاکر بہت دور پھینک دیا ہے۔
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں