نظام اور پاکستانی عدالتیں /قیس انور

عدالتیں اپنی تین ذمہ داریاں 1- سول تنازعات طے کرنا 2- کرمنل جسٹس سسٹم کا انتظام اور 3- قانون کے کسٹوڈین کا کردار صرف قانونی داو پیچ کی دنیا میں نہیں بلکہ وسیع تر سیاسی ماحول کے اندر ادا کرتی ہیں جو بذات خود حکمران طبقات کے مفادات کے تابع ہوتا ہے – ‘عدالتی بالا دستی ‘ جس کا اظہار ‘ عدالتی نظر ثانی ‘ کی طاقت سے ہوتا ہے عدالتی عمل کو معاشی نظام ( جو پاکستان میں سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ اور غالب قومیت کی نمائیندگی کرتا ہے ) کے تابع بناتا ہے- اس عمل میں جج سیاسی ماحول کے اندر اپنے طبقے اور عدالت کے بطور ادارہ مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہے – اعلی عدالتوں کے طاقت ور جج ( چیف جسٹس ) نظام کی بالا دستی اور تسلسل کو قائم رکھنے والے نیٹ ورک ایسٹبلشمنٹ کا حصہ ہوتا ہے – اسی سیاسی اور معاشی ماحول میں ‘بار ‘ حکمران طبقات کے حصے اپنی اوپری پرت کے مفادات اور اپنے ادارے کا تحفظ کرتے ہوئے عدالت کے مفادات کے ساتھ متوازن صورتحال پیدا کرتا ہے –
پاکستان میں طبقاتی جمہوریت کے ارتقاء کے دوران سیاسی کشمکش کی شدت کی صورت میں اعلی عدالتوں کے ججوں نے عدالتی نظر ثانی کی طاقت کو ‘ نظریہ ضرورت ‘ کے ذریعے نظام کے تحفظ کے لیے استعمال کیا – نظام کے تحفظ کی ضرورت کے تحت ہی عدالت نے کرمنل جسٹس سسٹم کے انتظام کی ذمہ داری کے استعمال سے ذولفقار علی بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کیا –
افتخار چوہدری کی برطرفی کے وقت ایسٹبلشمنٹ کی اندرونی کشمکش بہت بڑھ چکی تھی – بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو طویل عرصے سے اقتدار سے باہر رکھا گیا تھا اور پرویز مشرف نے صدر اور آرمی چیف کی طاقت اپنے پاس رکھ کر سینئیر فوجی قیادت کی ترقی کے راستے محدود کر رکھے تھے – ایسے میں جب ایسٹبلشمنٹ کے قابل اعتماد رکن افتخار چوہدری کے ان ‘سہولتوں ‘ جو نظام ہر اعلی جج کو دیتا ہے کے استعمال کو کرپٹ پریکٹسز قرار دے کر برطرف کیا گیا تو نواز شریف ، بے نظیر اور جنرل کیانی نے اپنا وزن افتخار چوہدری کے کھاتے میں ڈال دیا – وکلاء تحریک کے نتیجے میں تمام فریقین نے اپنے طبقاتی اور ادارہ جاتی مفادات حاصل کیے – ایسٹبلشمنٹ کے مختلف حصوں کے درمیان نئے توازن کی تلاش میں ‘آئینی عدالت ‘ کے قیام کی تجویز کو ‘نواز شریف – افتخار چوہدری ‘ افہام و تفہیم نے شروع میں ہی مسترد کر دیا تھا – ججوں کی تقرری میں پارلیمنٹ کے زیادہ کردار کو عدالت نے اپنی ‘عدالتی نظر ثانی ‘ کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے حق میں کر لیا – یوسف رضا گیلانی کی برطرفی اور بنیادی آئینی ڈھانچے کی خیالی موجودگی کو تسلیم کرکے عدالت نے ایسٹبلشمنٹ کے سول سیاسی حصے کو کمزور کرکے اپنے لیے بے پناہ قوت حاصل کر لی – اس کے بعد کے ادوار میں اس طاقت کو نظام کے تحفظ اور تسلسل کے لیے استعمال کیا گیا –
دو ہزار اٹھارہ کے لگ بھگ ایسٹبلشمنٹ کے فوجی اور عدالتی نمائندوں نے اپنے سول رکن نواز شریف کو سیاست سے نکالنے اور زرداری کو کمزور کرنے کا فیصلہ کیا – اس کے بعد اسٹبلشمنٹ کے اس حصے نے انتظامی مشینری کے استعمال سے عمران خان کو اقتدار دلوا دیا –
دو ہزار اکیس بائیس میں جب ایسٹبلشمنٹ کے فوجی نمائندے عمران خان سے مایوس ہوئے تو اقتدار سے باہر سول نمائندوں نواز – زرداری سے اتحاد کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے باہر کر دیا گیا – اس عمل کو عدالتی نمائندو ں کی حمایت بھی حاصل تھی – اس کے بعد جب انتظامی مشینری کے ذریعے نواز – زرداری کو اقتدار میں واپس لانے کی کوششیں شروع ہوئیں تو فوج اور عدالت کے اندر سے مزاحمت شروع ہوئی جس نے ایک بار پھر ایسٹبلشمنٹ کی اندرونی کشمکش کو تیز کر دیا – تاہم آئندہ الیکشن میں ایک بار پھر انتظامی مشینری کو استعمال کرکے نواز-زرداری کو اقتدار دیا گیا – لیکن فوج اور عدالت کی اندرونی کشمکش جاری رہی – اس بار ایسٹبلشمنٹ کے سول اور فوجی نمائندو ں نے افتخار چوہدری کے دور میں حاصل کردہ عدالتی طاقت پھر پارلیمنٹ کو واپس دلوا کر ججوں کی تقرری میں پارلیمنٹ کے کردار کو زیادہ کر دیا – یوں ایسٹبلشمنٹ کے فوجی حصے کی مدد سے ‘نواز -زرداری ‘ کو عدالتی ریویو کے اختیارات محدود کرنے ، اپنی پسند کے جج لانے ، موجودہ ججوں کی چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری کو کنٹرول کرنے اور مستقبل کے کسی خطرے کی پیش بندی کے طور پر چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو تقسیم کرنے کا موقع  مل گیا –

julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply