ترقی ایک سوچ اور تحریک ہے جو متحرک اور زندہ معاشرے اور انسان کی پہچان ہوتی ہے۔ فرد، ٹیم، خاندان، اداروں اور معاشروں میں ذاتی اور پیشہ ورانہ مہارت، معاشرتی افکار، فکری اظہار، اور سماجی اقدار سے جنم لیتے ہیں۔افراد میں بہتر سے بہترین کی جستجو،معاشرتی اور اداروں کی حوصلہ افزائی اور باہمی تعاون کی بدولت پروان چڑھتی ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ”ڈھنگ ٹپاؤ“، ”کام چلاؤ“، اور ”مٹی پاؤ“ مائنڈ سیٹ ابھی تک قائم ہے ، جس کی وجہ سے نہ گھروں، اداروں، اور نہ ہی معاشروں میں افراد اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ذمہ داری کو اعلیٰ معیار ومقام پر لے جانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔شاید ہمارے ہاں ترقی کے معیارات، عظمت کے وقار، اور انداز اُس طرح سے متعین نہیں ہوئے ہیں جو ہونے چاہئے تھے۔ فرد اور معاشرہ کہانیوں سے کہیں زیادہ حقیقی مثالوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
”اگر کسی شخص کو گلیوں کی صفائی کی ذمہ داری دی جائے تو اسے گلیوں کی صفائی اس انداز میں کرنی چاہیے، جیسے مائیکل اینجلو نے پینٹنگ کی ہو، یا بیتھوون نے موسیقی ترتیب دی ہو، یا شیکسپیئر نے شاعری لکھی ہو۔ اسے گلیوں کی صفائی اتنی عمدگی سے کرنی چاہیے کہ آسمان اور زمین کے تمام میزبان رک کر کہیں، یہاں ایک عظیم صافی کرنے والا ہے ، جس نے اپنا کام کو بہترین طریقے سے انجام دیاہے۔“
یہ قول مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سے منسوب ہے اور یہ ان کی مشہور تقاریر میں سے ایک، 9 اپریل 1967 کو شکاگو کے نیو کوویننٹ بیپٹسٹ چرچ میں دی گئی تقریر ”دی ڈرم میجر انسٹنکٹ“ سے لیا گیا ہے۔ اس تقریر میں مارٹن لوتھر کنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چاہے کام کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اسے بہترین انداز میں اور فخر کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔
اسی طرز کا ایک واقعہ جو عام طور پر امریکی صدرجان ایف کینیڈی سے منسوب کیا جاتا ہے، خلائی مشن کے دوران 1960 کی دہائی میں انکے ناسا کے دورے سے متعلق ہے۔کہا جاتا ہے کہ اپنے دورے کے دوران،جان کینیڈی نے ایک صفائی کرنے والے شخص کودیکھا جو جھاڑو لے کر جا رہا تھا۔ جان کینیڈی نے تجسس سے اس سے پوچھا، ”تم کیا کر رہے ہو؟“، صفائی کرنے والے نے جواب دیا، ”میں انسان کو چاند پر پہنچانے میں مدد کر رہا ہوں۔“یہ سادہ لیکن گہرا جواب ناسا میں موجود ہر فرد کے مقصد اور مشترکہ وژن کو ظاہر کرتا ہے، جہاں ہر شخص، چاہے اس کا کرداراور ذمہ داری کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، یہ یقین رکھتا تھا کہ وہ خلائی تحقیق کے بڑے مشن میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
یہ واقعہ اکثر قیادت، مقصد سے وابستگی، اور ایک مشترکہ ہدف کے حصول کے لیے ہر فرد کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس واقعے کی تاریخی تصدیق مکمل طور پر ممکن نہیں، لیکن یہ جان ایف کینیڈی کے انداز قیادت اور ان کے خلائی پروگرام کے وژن کے عین مطابق ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں موجود ایسی روشن عملی مثالوں اور پائیدار روایتوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے جس سے فرد، خاندان اور معاشرہ حقیقی ترقی اور تبدیلی کی جانب گام زن ہو۔ یقینا ہمارے معاشرے کے مسائل اور چیلنجز فرق ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی آگے بڑھنے کا عزم اور جذبہ نئی منزلوں کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔
یاد رکھیں، چلنا ضروری ہے، خاص طور پر جب، رستے ناہموار ہوں، مشکلات بے شمار ہوں،منزل دُور ہو، سفر کٹھن ہو، مگر جذبہ جواں ہو، حوصلہ ناقابل بیاں ہو۔زندگی میں جینے اور آگے بڑھنے کے لئے، آپ کو ایک وجہ، ایک خاص کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ وجہ جو آپ کو سونے نہ دے، وہ وجہ جوتھکاوٹ کی وجہ سے رونے نہ دے، سخت سردی میں بستر پر پڑے نہ رہنے دے، وہ ایک وجہ جو آپ کو کمفروٹ زون میں نہ رہنے دے۔بس اُس وجہ اورمقصد کی تلاش میں لگ جائیں جو باقی تمام مجبوریوں، محرومیوں اور ناکامیوں کے باوجود، آپ کو متحرک اور سرگرم رکھے، جو آپ کو جینے کی وجہ دے، کچھ مختلف کرنے کی ترغیب اور تحریک دے اور آپ کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی میں اعلیٰ معیار اور وقارقائم کرنے کی بنیاد بنے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں