عقلی دور ( ایج آف ریزن) مختصر تعارف/مبشرحسن

نشاۃ ثانیہ کا آفتاب مکمل طور پر طلوع ہونے کے بعد، فلسفے کے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔، جس کو عالموں نے جدید دور کا نام دیا ہے اور اس جدید اور عقلی دور کے فلسفے کا بانی ڈیکارٹ ہے۔

رینے ڈیکارٹ مارچ 1596ء میں طورین کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوا ۔ دس سال کی عمر میں اسے کالج بھیجا گیا جو کہ عیسائی تعلیمات کے زیر اثر تھا۔ اس کالج میں اصولوں کے بابت انتہائی سختی تھی۔ ہر کام کے لیے اصول مقرر تھے۔ حتیٰ کہ چلتے وقت زمین پر پاؤں کس طرح رکھنے چاہئیں، اس کے لیے بھی وضع کردہ اصول موجود تھے۔

رینے ڈیکارٹ 1617ء سے 1621ء تک فوج میں رہا مگر اُکتا کر ملازمت چھوڑ دی اور تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ انہی دنوں اس کی ملاقات ڈچ کے ریاضی دان بیکر مین سے ہوئی، اسی وجہ سے ڈیکارٹ ریاضی پڑھنے لگا۔ اس کے علاوہ ڈیکارٹ نے ادویات، کیمیا وغیرہ کی بھی کافی تعلیم حاصل کی اور اس کے فورا بعد ہالینڈ میں رہائش اختیار کی ۔

ہالینڈ میں قیام کے دوران اس نے کئی مضامین لکھے جن میں سے Demundo خاصا اہم تھا، ابھی وہ Demundo چھپوانے کی تیاریاں ہی کر رہا تھا کہ اسے معلوم ہو گیا کہ کلیسا گلیلو سے سخت نالاں ہوگئی ہے اور گلیلو کو معافی مانگنا پڑی ہے۔ اس خبر نے اسے پریشان کر ڈالا ۔ کیوں کہ اس کی کتاب کا کافی سارا مواد کوپر نیکس کے نظریے پر مبنی تھا۔

بہر حال ڈیکارٹ نے یہ اور اس طرح کے کئی مضمون قسط دار چھپوائے ، جن پر تنقید تو ہوئی مگر یہ قابل برداشت تھی۔

ڈیکارٹ نے ہر شے کی اصلیت اور ماہیت کو سمجھنے کے لیے عقل کے استعمال پر زور دیا اور یوں اس نے عقل اور انسانی ذہن کو تمام اشیاء پر ترجیح دی۔ اس دور میں ہر شے کو آسمان نکتہ نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، جن میں انسانی عقل کی چنداں اہمیت نہ تھی۔ کیوں کہ کلیسا ناقص کہہ کر اس کی مذمت کرتی تھی۔

کلیسا کے نزدیک عقل کا استعمال ممنوع تھا۔ خصوصاً شک کرنا تو حرام تھا لیکن ڈیکارٹ نے اس رویے پر کاری وار کیا اور عقل کی افادیت اور اہمیت کو سب پر ترجیح دی۔
ڈیکارٹ کی تعریف سن کر سویڈن کی رانی نے اس کو مدعو کیا کہ آکر اسے فلسفہ پڑھائے۔ فلسفہ پڑھنے کے لیے رانی نے سویڈن کی سخت سردی میں صبح پانچ بجے کا وقت طے کیا۔ ڈیکارٹ کو سخت سردی میں صبح چار بجے اُٹھنا پڑتا اور رانی کو پڑھانا پڑتا۔

یہ نازک مزاج فلسفی سردی کی تاب نہ لا سکا اور فروری 1650ء میں نمونیے میں مبتلا ہو کر انتقال کر گیا۔

رینے ڈیکارٹ کا فلسفہ

کسی بھی قوم کے تہذیب یافتہ ہونے کا براہ راست تعلق اس کی فلسفیانہ برتری پر ہے اور ریاست کے نزدیک بڑی سے بڑی نیکی یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے پاس بہترین فلسفہ ہو ۔

ڈیکارٹ نے نوجوانی کی عمر میں فلسفہ پڑھنا شروع کیا اور جوں جوں پڑھتا گیا اسے اپنے جاہل ہونے کا احساس زیادہ ستانے لگا اور اندرونی بے یقینی کی کیفیت بڑھنے لگی۔ اسے پڑھی اور سنی ہوئی باتوں پر شک گزرنے لگا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ صحیح علم کا حصول صرف عقل کے ذریعے ہی ممکن ہے، حواس جو کچھ بتاتے ہیں ان پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ حواس اکثر دھوکہ دے جاتے ہیں۔

یوں وہ عقل یعنی ذہن اور حواس یعنی جسم کے درمیان واضح فرق محسوس کرنے لگا اور آگے چل کر اس نے ذہن کو جسم پر ترجیح دی۔
اس نے ایک نہایت فلسفیانہ سوال کیا جسم اور ذہن کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو رینے ڈیکارٹ کے بعد آنے والے فلسفیوں کے لیے ڈیڑھ صدی تک موضوع بحث بنا رہا۔ رینے ڈکارٹ اپنی مشہور عالم کتاب Meditation میں لکھتا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ جسم اور ذہن میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جسم کو چھوٹے چھوٹے ذرات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مگر ذہن کو بالکل بھی تقسیم نہیں کیا جاسکتا، جسم کے کسی عضو کو جسم سے الگ کر سکتے ہیں مگر ذہن کے کسی بھی حصے یا رو مثلاً خواہش محسوسات وغیرہ کو ذہن سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ پورے کا پورا ذہن ایک اکائی (Unit) ہے۔

رینے ڈیکارٹ جدید فلسفے کا بانی ہے اور ہر بات کو سمجھنے کے لیے عقلی استدلال استعمال کرنے کی بات کرتا ہے۔ اس کا مشہور جملہ ہے ۔ Cogito Ergo Sum“ یعنی ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں ۔

رینے ڈیکارٹ آگے چل کر دلیل دیتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ میرا وجود ہی نہ ہویا ہے، جو موجودات ہیں یہ حواس کا فریب ہو۔ لہذا حقیقت تک پہنچنے کے لیے مجھے حواس پر شک کرنا چاہیے لیکن اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شک کرنے کے لیے بھی شک کرنے والے کا وجود ضروری ہے، جیسا کہ میں شک کرتا ہوں لہذا میں شک کرنے والی ہستی ہوں ، اس لیے میرا وجود ہے ۔

رینے ڈیکارٹ نے روح اور وجود خدا کے بارے میں کافی بحث کی ہے۔ اس کے خیال میں خدا کا وجود، انسان کی خودی، زمان و مکان ، حرکت اور ریاضی کی سچائیوں (Axioms) کے بارے میں تصورات ، انسان کے ذہن میں پیدائشی طور پر موجود ہیں۔ اس کے لیے کسی حس یا تجربے کی ضرورت نہیں ہے۔ تجربہ یا حواس صرف بالا تصورات کو لاشعور کے خانے سے نکال کر شعور میں لاتے ہیں۔ اس سے ڈیکارٹ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ روح تجربے کی پیداوار نہیں ہے۔ یہ روح انسان میں سوچ اور فکر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مگر یہ استدلالی روح مکمل طور پر غیر مادی ہے، کیونکہ فکر یا استدلال نہ وزن رکھتا ہے، نہ جگہ گھیرتا ہے، نہ ہی لمبائی چوڑائی ہے۔ مطلب یہ کہ اس میں کوئی بھی مادی خوبی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مادی جسم فنا ہو جاتا ہے۔ تو روح پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور یہ باقی رہتی ہے۔

رینے ڈیکارٹ اپنے استدلال عقل کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حقیقت کے دو رخ ہیں ایک سوچ دوسرا جسم ۔ خدا ان دونوں چیزوں سے بالا تر ہے اور ان کا خالق بھی ہے۔ خدا اور عقلی دلیل کے بغیر کائنات کی ہر شے میکانکی انداز میں کام کرتی ہے ۔ بالفاظ دیگر تمام موجودات ، حیوانات اور نباتات مشینیں ہیں اور یہ طبعی قانون کے تحت عمل کرتی ہیں۔ سوچ جسم کے اثر سے سے آزاد اد اور اور جسم جسم کے اعمال سوچ سے آزاد ہیں لیکن اگر انسانی جسم ایک مشین ہے تو اس پر غیر مشین یعنی دماغ یا روح کنٹرول کس طرح رکھ سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے وقت رینے ڈیکارٹ اپنا اعتماد کھو بیٹھا اور مایوسی میں جواب دیا خدا جسم اور ذہن کے درمیان پر اسرار طریقے سے رابطہ کرتا تھا لیکن یہ ہماری محدود فہم سے بالا تر ہے ۔

رینے ڈیکارٹ نے جب اپنے ذہن کے خانوں کی پڑتال کی تو اسے یہ یقین ہو گیا کہ اس کے ذہن میں خدا کا تصور ایک کامل ذات کے طور پر موجود ہے۔ اس کی دلیل ہے کہ اگر کوئی کامل ذات نہ ہوتی تو اس کا تصور بھی ہمارے ذہن میں نہ ہوتا۔

julia rana solicitors

ہم جو غیر کامل ہیں، ایک کامل ذات کا تصور کیسے کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی کامل ہو ہی نہ تو ؟ اس طریقے سے رینے ڈیکارٹ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ خدا خود انسان کے ذہن میں اپنی خدائی کا تصور ڈالتا ہے، رینے ڈیکارٹ بنیادی طور پر افلاطون سے متاثر تھا۔ اس لیے وہ حقیقت کی دو صورتوں یعنی سوچ اور مادے کا قائل تھا۔ یعنی وہ ثنویت پسند تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply