پاکستا ن کے قیام سے ہی دوسرے ممالک میں جانے کا رحجان تھا تو ضرور مگر شاید اس قدر نہ تھا ۔آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جنہیں کسی بھی ملک کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔وہ باہر جانے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں ۔اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا دوست ،عزیز یا خاندان کا فرد ترقی یافتہ کسی یورپی یا گلف ممالک میں زندگی گزارنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔آخر کیوں ہماری نوجوان نسل اب اس ملک سے باہر جانا چاہتی ہے ؟ کیا انہیں اس ملک میں اپنا مستقبل اور روزگار دکھائی نہیں دیتا یا پھر راتوں رات امیر بننے کی خواہش انہیں ایسا سوچنے پر مجبور کر رہی ہے ؟ یا پھر کچھ اور خدشات درپیش ہیں ؟ سوچ جو بھی ہو انہیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے اور ان بےپناہ مشکلات اور ان تکلیفوں کے بارے میں بھی ادراک ہونا چاہیے جو دیار غیر میں ہر ورکر یا مزدور کو پیش آتی ہیں جو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اور ساری کشتیاں جلا کر باہر جانے کی خواہش رکھتا ہے ۔جو باہر جاکر ہی اپنے مالی حالات درست کرنا چاہتا ہے اور اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دیتا ہے ۔
میرا بیٹا حصول تعلیم کے لیے گھر سے نکلا اور پھر حصول روزگار کے لیے لندن سے آئر لینڈ پہنچا ۔وہاں پیش آنے والے قانونی مسائل سے نبرد آزما ہوکر دس سال بعد واپس وطن لوٹا ۔ان دس سالوں میں اس نے وہاں کیا کچھ دیکھا ،کن تجربات سے گزرتا رہا اور کیا کچھ برداشت کیا اور ہم والدین اور اسکے بہن بھائیوں نے اس سے جدائی کا یہ عرصہ کیسے گزارہ ؟ یہ بڑی طویل اور تکلیف دہ داستان ہے ۔مجھ سے اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ مختلف طبقوں کے بارے میں تو لکھتے ہیں۔ آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر کچھ دیار غیر میں ہمارے اورسیز ورکرز جو اپنی جان پر کھیل کر ملک کی معیشت اور اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے بےشمار مسائل اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ان کے بارے میں بھی لکھیں تاکہ لوگ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں اور نئی نسل جو باہر جانے کے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھ رہی ہے جان سکے کہ باہر کے ممالک میں درختوں پر پیسے نہیں لگتے بلکہ نہایت تکلیف دہ حالات میں اپنے ملک سے کئی گنا زیادہ محنت اور جدوجہد کے بعد پیسہ کمانا کس قدر دشوار ہوتا ہے ۔زندگی وہاں کس قدر مشکل ہوتی ہے اور وہ وہاں کس ذہنی و جسمانی اور نفسیاتی اذیت کو برداشت کرتے ہیں اسے بیان میں لانا بڑا دکھ بھرا کام ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اورسیز ورکرز جو زرمبادلہ اپنے ملک کو بھیجتے ہیں وہ ہماری ملکی معیشت کے لیے ریڑکی ہڈی کی طرح ہوتا ہے ۔گو ہر پاکستانی باہر کی چکا چوند دنیا کو انجواۓ کرنا چاہتا ہے ۔لیکن اس سے بےخبر ہے کہ یہ کس قدر تکلیف دہ اور محنت طلب ہوتا ہے ۔
اپنا ملک چھوڑنا کس قدر مشکل اور اذیت ناک ہوتا ہے یہ وہ لوگ ہی جانتے ہیں جو پردیس جا کر اپنوں سے جدائی کے دکھ جھیل رہے ہیں ۔انہیں پردیس میں رونے کے لیے کندھا تک میسر نہیں آتا ۔پردیسیوں کے دکھ عجیب ہوتے ہیں جنہیں سنانے کے لیے وہ برسوں اپنوں سے ملنے کے منتظر رہتے ہیں ۔اورسیز پاکستانیوں کی زیادہ تر تعداد وہ مزدور طبقہ ہوتا ہے جو اچھے اور سنہری مستقبل کے خواب سجاۓ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کراپنی زمین اور اپنے تمام تر رشتوں کو چھوڑ دیار غیر میں دسمبر کی سخت اور ٹھٹھرتی راتوں اور جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے والدین بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کے خواب بن رہا ہوتا ہے ۔وہ یہ خوب جانتے ہیں کہ وہ ہزاروں میل دور صرف کمانے آۓہیں اس لیے ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہیں چاہتے ۔ان کی زندگی میں آرام اور سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ان کی بظاہر ہنسی اور قہقہوں میں وہ درد چھپا ہوتا ہے جو انہیں رات میں بستر پر رونے اور آنسو بہانے پر مجبور کردیتا ہے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے بوڑھے والدین ،بیوی اور معصوم بچوں کا تصور انہیں سونے نہیں دیتا ۔
کچھ ممالک میں اورسیز نسلی ،مذہبی تعصب کا شکار ہوکر امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں جو ان کی ذہنی صحت پو گہرا اثر ڈالتا ہے ۔ویزا ،اقامہ اور ملازمت کے قوانین اور پیچیدگیاں ان کی زندگی کو دشوار بنادیتی ہیں ۔وطن واپسی کا خیال اور اسکی تیاری ان کے لیے بہت اہم ہوتا ہے ۔خاندان سے دوری کے باعث ازدواجی زندگی میں دوریاں اور بچوں کی پرورش اور تربیت میں مشکلات درپیش ہو جاتی ہیں ۔ پردیسی جب بیمار ہوتا ہے تو وہاں کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا پانی کا ایک گلاس تک پینے کیلئے بھی اُسے خود ہی اُٹھنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر بولتا ہے “نرم غذا کھاؤ اور آرام کرو۔” لیکن اُس پردیسی کو کون نرم غذا پکا کر دے گا، نہ تو پاس بیٹی ہوتی ہے، نہ بہن۔ اور وہ بیچارہ کیسے آرام کرے کہ کونسی اُسکے پاس ماں یا بیوی ہوتی ہے کہ جن کے گھنٹے پر سر رکھ کے سو سکے۔ بس وہ کچھ کیک رس کے ٹکڑے اور برگر کھا کر بازوؤں کا سرہانہ بنا کر آہووں اور سسکیوں کے بیچ کہیں سو جاتا ہے۔ پردیسی کیلئے سب سے زیادہ خوشی کا سماں تب ہوتا ہے جب اُسکی چھٹی لگتی ہے، وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا شاپنگ کرتا ہے، بچوں کیلئے کھلونے خریدتا ہے، ماں، بہنوں اور بیوی کیلئے کپڑے خریدتا ہے، باپ کیلئے پرفیوم اور بھائیوں کیلئے موبائل فون۔ پردیسی اُوپر اُوپر سے بہت خوش ہوتا ہے، لیکن دل ہی دل میں یہ خیال اُسے پھر سے افسردہ کر جاتا ہے کہ یہ خوشی کے دو چار مہینے کب گزر جائیں گے پتہ بھی نہیں چلے گا، اور پھر جب واپس آنے کیلئے گھر سے ایئرپورٹ کی طرف نکلوں گا تو اپنے بہتے آنسوؤں کو کیسے روک پاؤں گا۔

اپنی سرزمین پر خوشی سے اترتے ہی ان کی نئی مشکلات ان کا استقبال کرتی ہیں وہ جلد از جلد ائر پورٹ سے باہر جاکر اپنوں سے ملنا چاہتے ہیں ۔وہ اپنے ملک اور اپنی زمیں پر عزت و احترام کے متمنی ہوتے ہیں ۔جبکہ ہمارےکسٹمز حکام کے لیے یہ ان کا پسندیدہ شکار ہوتے ہیں ۔ان کے سامان کو کھول کر دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اورسیز جلدی میں ہوتا ہے اور وہ غریب سامان کھولنے اور پھر اسے بند کرنے کی اس ذلت اور خواری سے بچنا چاہتا ہے ۔جس کے لیے ان کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے ۔میرے بیٹے کو باہر آنے میں دو گھنٹے لگ گئے تھے یہ تو بھلا ہو کیرج پولر کا جس نے اس کی خلاصی کرائٰی ۔ہمارے ائر پورٹس پر جدید مشینیں نصب ہیں اس کے باوجود ان کی خوشیوں کے لمحات کو لمبا کردیا جاتا ہے ۔ ان کی تلاشی کا عمل بڑا حقارت آمیز ہوتا ہے ۔ان کے سارے اعتراضات چند ڈالزر لے کر ختم ہو جاتے ہیں ۔کاش ان کی مجبوریوں ،مشکلات اور جذبات کا احساس ہر سطح پر کیا جاۓ۔میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ وطن کے ان معاشی مجاہدوں کے لیے خصوصی توجہ اور قوانین ترتیب دیں تاکہ جب یہ وطن واپس پہنچیں تو انہیں وی آئی پی سمجھا جاۓاور انہیں احساس ہو کہ قوم انکی معاشی خدمات کو سراہتی ہے اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔حکومتی اداروں کو ان کے ہر کام کو ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے ۔ان کو وہ خصوصی عزت ملنی چاہیے جو ان کا حق ہے ۔ان لوگوں کو عزت اور احترام دینے سے ہی ہماری معیشت اور زر مبادلہ پر مثبت اثرات نمائیاں ہو سکتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں