شارع عام/حسان عالمگیر عباسی

شارع عام سے ہٹ کے مقامی آبادی سے منسوب سڑکوں کی حدود تک گھنے جنگل کی باقاعدہ شروعات والے نکتے سے گزر رہا تھا۔ موڑ سے پہلے پہاڑی ملبے تلے پہاڑوں سے ٹکراتی آوازیں کانوں میں گونج رہی تھیں۔ باقاعدہ پہنچنے پہ معلوم ہوا کہ یہ نیلے سبز کپڑوں میں ملبوس لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں تیلیوں کے بانس والے جھاڑو ہیں اور جھاڑو کی مدد سے زمین کے کپڑے جھاڑ رہے ہیں جس سے خش کھش پیدا ہو رہی ہے۔ یہ پہلی ملاقات تھی۔ علیک سلیک کے بعد چل دیا لیکن انتہائی مسرت ہوئی۔ حکومتی سرکاری منصوبے تو عام بات ہے لیکن مری کے کسی گاؤں کے کسی کونے میں جنگلات کے عقبے رقبے میں خوش کن سرکاری لباس میں سرکاری جھاڑو  کو خشکھشاتا دیکھ کر بہت خوشی نصیب ہوئی۔ وہاں سے چل دیا لیکن بہرحال یہ توجہ کا مرکز بن گئے اور اب جب بھی کہیں ان پر یا سبز گاڑیوں پہ نظر پڑتی ہے تو توجہ کھچی چلی جاتی ہے۔ سرکاری سطح پہ مخصوص رنگوں اور ان رنگوں کے سانچے اور یونیک گاڑیاں اور ان کی رنگ سازی حکومت کی اچھی کاوش ہے۔ عوامی توجہ کھینچنا بہت خوبصورتی ہے۔

آج یہی حضرات سے سورج کی کرنیں پیتے ہوئے گپ شپ یکدم تفصیلات میں بدل گئی۔ حکومتی کاوش کے لیے تالیوں کے تال پہ چائے کا اضافہ کیا گیا۔ چائے بناتے ہوئے دودھ کی وافر مقدار دیکھ کر دودھ پتی بنانے کا ارادہ کیا اور چائے نوش فرماتے ہوئے گفتگو مزید بڑھائی۔ پورے پنجاب میں اس سلسلے کا موجود ہونا اور ماہواری پہ بات ہوئی۔ سیلریز اور دیگر ملحق موضوعات بھی چھیڑنے کی کوشش کی! دورانِ گفتگو عوامی نفسیات پہ بات ہوئی۔ حضرت بنی آدم کہہ رہے تھے کہ یہ سڑک صاف کر دی ہے لیکن گزرتے لوگ پھر بھی کھایا پیا وہیں چٹاخ پٹاخ پہ یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ عملی طور پہ اس رویے پہ قائم بھی ہیں۔ ساتھ ہی کہا کہ یہ ایک آگاہی مہم ہے۔ رویے تبدیل ہو سکتے ہیں۔ دہرائے جائیں تو نفسیات تبدیل ہو جاتی ہے۔ مثبت رویوں کو جلا بخش رہے ہیں وغیرہ وغیرہ!

Advertisements
julia rana solicitors

چائے نوشی کے دوران ایک بھائی نے مزید اضافہ کیا اور بتایا کہ جب وہ ایک جگہ دیواریں کھڑی کرنے کا کام کرتے تھے تو خواتین چار قدم آگے ہوتی تھیں اور ان کی سپر ویژن بہت دیر تک پُر اثر رہی وغیرہ وغیرہ! مریم کے  بارے میں انھوں نے کہا کہ کس خوبصورتی سے رنگوں کی مدد سے کوشش کاوش کر رہی ہے۔ لاہور تا مری کچھ ہوتا آرہا ہے وغیرہ وغیرہ! اس تحریر کے لکھنے کا مقصد میرا اس اجنبی جنگل میں وہ پہلا تاثر تھا جو انھیں دیکھ کر بن گیا تھا! جب حضرت بنی آدم نے یہ کہا کہ یہ سب کام مہذب دنیا میں باقی کسی بھی کام کی طرح محض کام ہیں اور کسی اونچ نیچ کا دھیان تک نہیں ہوتا چونکہ وہ باہر رہ چکے ہیں اور سب مصروف ترین زندگیاں گزار رہے ہیں اور وہ جگہ زیادہ سیفٹی زون پائی گئی ہے وغیرہ وغیرہ! بہرحال اس طرح کے منصوبے بہت ہی خوبصورت اور دلکش ہوتے ہیں اور عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت مختلف پراجیکٹس پہ غور و تدبر کرتے رہنا چاہیے؛ منحصر ہونے سے بہتر ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply